پنجاب کی انقلابی تحریکیں
یہ سرزمین انقلابی روایات کی امین ہے اور آنے والے عہد میں بھی بلند تر پیمانے پر انقلابی تحریکوں کو جنم دے گی۔
یہ سرزمین انقلابی روایات کی امین ہے اور آنے والے عہد میں بھی بلند تر پیمانے پر انقلابی تحریکوں کو جنم دے گی۔
صرف نواز لیگ ہی نہیں، دولت کی اس مسلط کردہ سیاست کا ہر نمائندہ اس کے آگے بچھا جا رہا تھا۔
درحقیقت وہ سوشلسٹ انقلاب کا سب سے طاقتور، پر اثر اور مشہور نشان بن گیا تھا۔ سامراجی چے گویرا کو قتل کرنے کے لیے بے چین تھے۔
آج اسلامی بنیاد پرستی کی بربریت ہو یا سامراجی قوتوں کی وحشت، افغانستان اور دنیا بھر کے عوام کے لئے وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو ایک کہیں زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔
ہزاروں ارب ڈالر اس بربادی میں جھونک دئیے گئے جس نے دنیا میں دہشت گردی اور انتشار کو مزید پروان ہی چڑھایا۔
جوں جوں روز مرہ کی خبروں میں دہشت گردی ایک معمول بننا شروع ہوجاتی ہے اس سے مرتب ہونے والی عوامی نفسیات پر ’شاک‘ اور صدمے کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
موجودہ ریاستی کاروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے۔
ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔
تمام تر نظریاتی کمزوری کے باوجود معراج محمد خان اس سرمائے کی سیاست کے کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر اور بے لوث سیاسی کارکن تھے۔
اس جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہوں کو لقمہ اجل بھی بنا دیا گیا۔ لہو کے دریا بہائے گئے۔ اسلحے سے لے کر تیل تک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امریکی جرنیلوں نے سینکڑوں ارب ڈالر کمائے۔
’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے علمبردار امریکی سامراج کی مکمل حمایت ضیاالحق کو حاصل رہی۔
محنت کش طبقہ کبھی بھی چھوٹی تنظیموں کی طرف نہیں جاتا حتیٰ کہ ان تنظیموں کے پروگرام ہزار فیصد درست ہی کیوں نہ ہوں، وہ ان گروہوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتا اور ناگزیر طور پر پہلے سے موجود عوامی تنظیموں کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔
| تحریر: لال خان | آج بحر اوقیانوس کے ساحل سے بحر عرب تک، مشرق وسطیٰ تاراج ہے۔ ایک طرف غربت، محرومی اور جنگ کے عذابوں سے خلق غرق ہے تو دوسری جانب آمریتوں، رجعتی بادشاہتوں اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا […]
افسوس! محنت کش طبقے کی تحریک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتی۔ وگرنہ سرمایہ داری کا خاتمہ دہائیاں پہلے ہو چکا ہوتا۔