فنون لطیفہ
افسانہ : تہذیب کا کردار
مصنف: منشی پریم چند:- یوں تو میری سمجھ میں دنیا کی ایک ہزار ایک باتیں نہیں آتیں، جیسے لوگ علی الصباح اٹھتے ہی بالوں پر چھرا کون چلاتے ہیں؟کیا اب مردوں میں بھی اتنی نزاکت آگئی ہے۔بالوں کا بوجھ ان سے نہیں سنبھلتا۔
افسانہ: پانی کا درخت
مصنف: کرشن چندر:- جہاں ہمارا گاؤں ہے اس کے دونوں طرف پہاڑوں کے روکھے سو کھے سنگلاخی سلسلے ہیں۔مشرقی پہاڑوں کا سلسلہ بالکل بے ریش وبرودت ہے۔اس کے اندر نمک کی کانیں ہیں۔
شاعری: کیسا سفاک تماشا ہے میرے چاروں طرف
کیسا سفاک تماشا ہے میرے چاروں طرف. . . جیسے ہر شخص پرحیرت کا فسوں طاری ہے
صدا آرہی ہے میرے دل سے پیہم
صدا آرہی ہے میرے دل سے پیہم. . کہ ہو گا ہر اِک دشمنِ جاں کا سر خم
شاعری: ہم اس دنیا سے آگے اور دنیا سوچ لیتے ہیں
یہاں سے بھی نکل جانے کا رستہ سوچ لیتے ہیں ہم اس دنیا سے آگے اور دنیا سوچ لیتے ہیں
شاعری: اس کھیل میں اپنی مات نہیں
ہم اہلِ جنوں کے شانوں پر اس سر کی اب اوقات نہیں جب سرخ پھریرے تھام لئے ،پھر خوف کی کوئی بات نہیں