مِرے گیت
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا…
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا…
بھوک، آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی!
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو!
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی…
یہ زیست کی رانی کا جھومر … یہ امن کی دیوی کا کنگن!
میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔
مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اسکی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سنکر پیدا ہوئی تھی، غائب ہو گئی۔
مندر میں انسان کے دل کی غلاظت دھلتی ہے اور اس بدرو میں انسان کے جسم کی غلاظت اور ان دونوں کے بیچ میں مہا لکشمی کا پل ہے۔
تم نے لوگوں کو کوڑے لگائے کبھی، تم نے سڑکوں پہ مقتل سجائے کبھی
کشش اور تفریح کے لحاظ سے سینما پہلے ہی شراب خانے کا مد مقابل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ نیو یارک اور پیرس میں اس وقت زیادہ سینما گھر ہیں یا شراب خانے یا ان میں سے کس کی زیادہ آمدن ہے۔
| تحریر: عصمت پروین | ’’سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تعمیر لٹریچر، ڈرامہ، مصوری، موسیقی اور فن تعمیر سمیت آرٹ کی ہر شکل کو جلا بخشے گی۔ کمیونسٹ سماج میں انسان آرٹ کو اس کے بلند ترین مقام پر لے جائے گا۔ انسان بے انتہا مضبوط، ذہین اور لطیف ہو […]
| تحریر: کرشن چندر | جب وہ ہسپتال سے باہر نکلا تو اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور اس کا سارا جسم بھیگی ہوئی روئی کا بنا معلوم ہوتا تھا اور اس کا جی چلنے کو نہیں چاہتا تھا وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ جانے کو چاہتا تھا۔ قاعدے […]
| تحریر: کرشن چندر | کوریا کی لڑائی میں مرنے والے امریکی سپاہی کے نام ایک خط
| تحریر: کرشن چندر، انتخاب: آصف رشید | مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ […]