بنیاد کچھ تو ہو!

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گرسے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو

مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف تھا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ‌تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلاّد کچھ تو ہو
جب خونبہا طلب کریں، بنیاد کچھ تو ہو

گرتن نہیں، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاو ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

(فیض احمد فیضؔ)