’جادوگر‘
’’کارخانے کس طرح چلیں ننھے آقا! جبکہ ان کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوسکتا‘‘
’’کارخانے کس طرح چلیں ننھے آقا! جبکہ ان کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوسکتا‘‘
کوک سٹوڈیو کے صوفی میوزک پر تھرکتی ہوئی مڈل کلاس اب اس بات پہ شاد نظر آتی ہے کہ اس نے ریاست کے ’استحصالی طبقات‘ کو ووٹ کے ذریعے شکست دے دی ہے۔۔۔
وہ اب جان چکا تھا کہ اس میں اب محنت کی سکت باقی نہیں رہی، لیکن اس کے پاس اور بیچنے کو تھا ہی کیا؟
سرخ پرچم کی ضرورت کل بھی تھی!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!
کچھ اور سوچے بغیر قاسم نے تیز دھار چاقو اٹھا اپنی انگلیپر پھیر لیا۔ اب وہ شام کے وقت برتن صاف کرنے کی زحمت سے بہت دور تھا۔
لاریوں میں بھی سماجی زندگی کی طرح تین درجے ہوتے ہیں۔ ’’فرسٹ‘‘، ’’سیکنڈ‘‘ اور’’ پبلک‘‘ یعنی اُمرا، شرفا اور عامی۔
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر… ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق!
وہ جب بھی سوچنے کی کوشش کرتا تھا اس کے ذہن میں ایک بہت بڑی خوفناک بھوک کا خیال آتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی ماں نے تنگ آ کے اسے اس کے چچا کے حوالے کر دیا۔
چے گویرا کی 49ویں برسی پر…
ہاں تلخئ ایام ابھی اور بڑھے گی… ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے!
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے… جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی؟
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے…
برہمن چمار کی لاش کیسے اٹھاتے؟ بھلا ایسا کسی شاستر پوران میں لکھا ہو، کہیں کوئی دکھا دے۔
آج کے نام اور آج کے غم کے نام…
”حامد ۔“ وہ سات آٹھ سال کا غریب صورت بچہ ہے۔ جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہوگیا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔