’امن کا فسانہ‘

چے گویرا کی 49ویں برسی پر…

میں جنگ مخالف نظم کہوں؟
میں کیسے امن کا گیت لکھوں؟

میں پہلی جنگ سے آج تلک
واقف تاریخ کی رات سے ہوں
جنگوں میں بقا پنہاں جن کی
میں وارد ان طبقات پہ ہوں

مصلوب غلام ہوئے جن پر
وہ دار کا ورثہ کس کا ہے؟
وہ کھیت ہوئے دہقاں جس سے
تلوار کا ورثہ کس کا ہے؟

مجھے یاد ہے خون شکاگو کا
مجھے یاد ہے پیرس کا مقتل
مجھے یاد ہیں روسی شاہراہیں
مجھے یاد ہنوئی کے جنگل

مجھے یاد چلی اور بولیویا
مجھے یاد ہے موزمبیق کا خوں
مجھے یاد جکارتہ کا منظر
مجھے یاد ہے کابل میں وہ جنوں

جنھیں غرب کے غنڈوں نے پالا
مجھے یاد وہ سارے لشکر ہیں
یہ بن غازی، بغداد، حلب
مرے سامنے سارے منظر ہیں

مرے دوش پہ قرض ہے صدیوں کا
سینے میں کروڑوں کتبے ہیں
جہاں میرا طبقہ قتل ہوا
مجھے یاد وہ شہر وہ قصبے ہیں

بپھرا ہے لشکر ’’حافظ‘‘ کا
ہے طیش میں ’’مودی‘‘ کی سینا
مفلوک کسانوں کے بچے
بد حال ہے محنت کش جنتا

اے ’’امن پسندی‘‘ کے مارو!
جنگوں کا سبب سرمایہ ہے
اس زر کی غلاظت میں لتھڑی
دنیا میں امن فسانہ ہے

جنگوں سے گزر کر جاتا ہے
اور امن کا رستہ کوئی نہیں
مزدور، کساں، طلبا کے سوا
اس فوج کا دستہ کوئی نہیں

بارود کی آگ سے ہی دنیا
گلزار بنائی جائے گی
ہو گا یہ تشدد ختم اگر
بندوق اٹھائی جائے گی!

(مشتاق علی شان)