وینزویلا: انتخابات اور اصلاح پسندی کا بحران
ادھوری نیشنلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلا حات کی کوشش اپنا اظہار بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔
ادھوری نیشنلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلا حات کی کوشش اپنا اظہار بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔
نوجوان انقلابیوں کے لیے فرانس کے 1968ء کے انقلاب سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
ایک طرف اسرائیلی ریاست کی قتل و غارت ہے تو دوسری طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کے عذاب ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
داخلی خلفشار کو دبانے کے لئے بھی ایسی خارجہ محاذ آرائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔
موجودہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شام کی تعمیر نو اور قبل از جنگ کی حالت میں واپسی کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
میکرون کی نیو لبرل سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف یہ بغاوت تیزی سے مختلف شعبوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔
27 اَپریل 1978ء کو برپا ہونے والا افغان ثور انقلاب وہ واقعہ تھا کہ آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات پورے خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔
تمام تر معاشی پابندیوں اور سامراجی دھونس کے باوجود کیوبا میں آج بھی منصوبہ بند معیشت رائج ہے جس میں قومی ملکیت میں موجود صنعتیں غالب ہیں۔
اس کسان مارچ میں ریاست بھر کے ہزاروں کسان شریک ہوئے جوکہ انقلابی نعروں سمیت حکومت کی ناکامی کے خلاف نعرے بلند کر رہے تھے۔
تمام تر پسپائیوں کے باوجود آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے نئے طوفان ابھریں گے۔
یہ تحریکیں مختلف خطوں میں مختلف فوری ایشوز اور مختلف طرزوں پرابھری ہیں۔ لیکن بنیادی وجہ جبر اور استحصال کا یہ نظام ہے جو پوری دنیا میں عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہا ہے۔
پچھلے عرصے میں یورپ میں عارضی رجعتی رجحانات کے ابھار سے قطع نظر فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مزدوروں اور نوجوانوں کی جدوجہد مسلسل جاری رہی ہے۔
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔