کشمیر کب تک سلگتا رہے گا؟
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بالخصوص ضیاالحق کے دور سے جمعیت کو ریاست اور انتظامیہ کے کچھ حصوں کی پشت پناہی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
رجعت سے آلودہ سوچ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ طلبا و طالبات آپس میں فن، ادب، سائنس، تعلیم، نصاب، فلسفہ، سیاست، ثقافت، تاریخ، فلم، عالمی حالات اور معاشرے کے بحران جیسے موضوعات پربات چیت یا بحث ومباحثہ کر سکتے ہیں۔
ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔
جہاں ایک طرف قومی محرومی اور جبر کے خلاف ایک سرکشی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست نے اس سرکشی کو کچلنے کے لیے پورے بلوچستان کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
پرویز رشید جیسے سابقہ بائیں بازو کے رہنما نواز شریف کو جتنے بھی سبق پڑھا لیں نواز لیگ روایتی طور پر سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور نواز شریف اس طبقاتی نظام کے خلاف کوئی سنجیدہ موقف اختیار نہیں کر سکتا۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔
آج پچاسویں سالگرہ پر اِس بنیادی پروگرام سے پارٹی قیادت کے کھلے انحراف کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ غور و خوض کی ضرورت نہیں ہے۔
حکمرانوں کی حاکمیت اتنی نحیف ہے کہ وہ اپنے حقیقی سیاسی اور اخلاقی کردار کی ایک ہلکی سی جھلک کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
شہزادوں اور شہزادیوں کے عشق ومحبت کی داستانیں اور ان میں پڑنے والے شگاف اور ہجر کی کہانیاں معاشرے کی عمومی روایات اور حکایات بنا دی جاتی ہیں۔
تحریر: لال خان کتاب لکھنے میں ملالہ یوسف زئی کی معاونت کرنے والی مصنفہ کرسٹینا لیمب نے1989ء میں پاکستان کے بارے میں گہرے تجزیئے پر مشتمل ایک مشہور کتاب ’’Wating For Allah‘‘ ( اللہ کا انتظار) لکھی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر بھٹو اپنی قبر […]