منافع بخش ’مسیحائی‘
علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
کوئی بھی پارٹی کسی حقیقی سماجی مسئلے اور اقتصادی ایشو کو اپنی کمپئین کے ایجنڈے پر نہیں آنے دے رہی۔ کیونکہ حل کسی کے پاس نہیں ہے۔
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
جس نظام اور جس اقتدار میں عوام کی کوئی نمائندگی ہو نہ ہی عام لوگوں کو اس سے کوئی امیدیں باقی رہیں وہ کتنا مستحکم ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے..
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھے
کسی نظام کو چلانے کے کئی انتظامی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی معاشی اور سماجی بنیادوں کو نہ بدلا جائے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
کسی صوبے یا انتظامی یونٹ کے وسائل وہاں کے تمام باسیوں کی فلاح پر خرچ ہوں تب ہی کسی بہتری کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔
آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔
ریاست اور سیاست کے حکمرانوں کی اس تاریخی نااہلی، بدعنوانی، معاشی کمزوری اور کردار کی گراوٹ کا خمیازہ بھی یہاں کے غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔