ایم کیو ایم کی سرزنش!
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے۔
موجودہ ریاستی کاروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس کو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے۔
جہاں زندہ انسانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر درگور کیا جا رہا ہے وہاں تاریخی ورثے کے تحفظ کا سوال تو اس نظام میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔
حقوق پیسوں سے اگر ملیں تو پھر اس معاشرے کو فلاحی تو درکنار انسانی معاشرہ کہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔
حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
کسی بھی تحریک کی حمایت میں مودی جیسے درندہ صفت حکمران کی لفاظی اسے مجروح اور بدنام ہی کر سکتی ہے۔ یہ لہو میں زہر فشانی کے مترادف ہے۔
دہشت گردی، جرائم، جنسی تشدد، قتل و غارت، استحصال وغیرہ، یہ سب کوئی الگ الگ مظاہر نہیں ہیں بلکہ اس گراوٹ، اذیت اور وحشت کے مختلف اظہار ہیں جس کا شکار یہ معاشرہ ہو چکا ہے۔
ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔
سندھ کے عوام نے بار بار پیپلز پارٹی سے امیدیں وابستہ کی ہیں لیکن پارٹی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نرغے میں ہے۔
فوجی آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی ہوئی ہے اور ریاستی جبر کا سب سے زیادہ شکار عام لوگ ہی ہو رہے ہیں۔
پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے 2.1 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے جو روزانہ اوسطاً 5.7 اَرب روپے بنتے ہیں۔
محنت کش طبقے کے ان گنت گمنام شہیدوں کو ان کی زندگی اور موت سے بھرپور جدوجہد کا صلہ اس جدوجہد کا حصہ بن کر ہی دیا جا سکتا ہے۔
تمام تر نظریاتی کمزوری کے باوجود معراج محمد خان اس سرمائے کی سیاست کے کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر اور بے لوث سیاسی کارکن تھے۔
چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا اور امجد صابری کے لرزہ خیز قتل نے ان تمام دعووں کو مشکوک کردیا ہے جوپچھلے چند ماہ سے کئے جارہے تھے۔
نام نہادآزاد کشمیر کو آج جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اس نظام کے اندر ممکن نہیں۔