سماجی ارتقا کی انقلابی جست
پاکستان جیسے ممالک میں پرولتاریہ بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج میں جدید ترین فرائض کے حامل انقلاب کا امین اور علمبردار ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں پرولتاریہ بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج میں جدید ترین فرائض کے حامل انقلاب کا امین اور علمبردار ہے۔
عورت ہمیشہ سے سماجی طور پر غلام نہیں تھی مگر کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے جب اس سے معاشی خود مختیاری چھین لی گئی اور ان کو سماجی طور پر غلام کیا گیا۔
صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب اور دوسرے سماجی شعبوں کی نجکاری نے عوام کی زندگیوں پر قہر نازل کردیا ہے۔
جو بھی تھوڑا بہت روزگاریہاں پیدا ہوبھی رہا ہے وہ سارا اسی غیر رسمی معیشت سے منسلک ہے۔ ورنہ ریاست کے پاس کوئی ایسی پالیسی موجود ہی نہیں جس سے سماج کو ترقی دی جاسکے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار، بزنس مین، جرنیل یا سیاست دان ایسا ہوگا جس کوکبھی اس بلا نوشی کا اتفاق نہ ہوا ہو۔
انقلابی سوشلزم سے پارٹی قیادت اتنی خوفزدہ ہے کہ ان کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں عوام اس راستے پر باہر ہی نکل پڑیں۔
علیحدگی پسند اور دوسری مقامی قیادتوں کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ بجائے نوجوان اور عوام ان کے نقش قدم پر چلیں، تحریک ان کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔
ایک فیس بک اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس میں غرق افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں کہ اس ملک میں 82 فیصد آبادی بنیادی انٹرنیٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔
بھٹو نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شراب نوشی کا سر عام اعتراف کیا تھا جس پر سامعین نے بہت تالیاں بجائی تھیں اور داد دی تھی۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ چترال سے آنے والے پی آئی اے کے طیارے کے بلیک باکس کی بجائے’’بلیک بکرے‘‘ کا اتنا زیادہ پرچار کردیا گیا ہے کہ لوگ بلیک باکس کی سائنسی معلومات کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔
وسیع پیمانے پر آلودگی پیدا کرنے والے کوئلے کے پاور پلانٹ چین سے اکھاڑ کر اب پاکستان میں لگائے جا رہے ہیں اور یہاں کے حکمران ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسے کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
اگر نوازشریف کو اوپر سے کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کے امکانات ہیں، تو نئی حکومت اس سے کم بدعنوان، استحصالی، منافق اور جھوٹی نہیں ہوگی۔
80ء کی دھائی سے ٹریڈ یونین کی ترقی معکوس سمت میں رہی ہے، کل مزدوروں کا محض ایک فیصد سے بھی کم حصہ ٹریڈ یونینوں میں منظم ہے۔
ریاستی آقاؤں اور مختلف حکومتوں کی جانب سے علامتی مذمتوں کے باوجود حکمران طبقات کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اس مذہبی جنون کو لگام دیں جو سماج میں پہلے سے محکومی کے شکار عوام پر قہر نازل کر رہا ہے۔
طبقہ جلد یا بدیر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مسائل کا حل آسان طریقوں اور راستوں پر نہیں ہے۔