خطے میں داعش کا ابھار، ایک نئے سامراجی کھلواڑ کی تیاری
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
داعش کی جانب سے پاکستان میں یہ اتنے بڑے پیمانے کا پہلا حملہ ہے۔
کم و بیش 90 فیصد آبادی کے حقیقی ایشوز اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کو نظر انداز کرکے یہاں نہ تو کوئی جمہوریت چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مستحکم آمریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔
آج کی پیپلز پارٹی قیادت اپنے مذموم مقاصد کے لئے دولت و اقتدار کے لالچ میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو کے عدالتی قتل کو ’’قانونی‘‘ تسلیم کر رہی ہے۔
لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
کوئی بھی پارٹی کسی حقیقی سماجی مسئلے اور اقتصادی ایشو کو اپنی کمپئین کے ایجنڈے پر نہیں آنے دے رہی۔ کیونکہ حل کسی کے پاس نہیں ہے۔
طاقت کا بے پناہ اجتماع فرد کو حقیقت سے دور کر کے اپنے عقل کل اور نجات دہندہ ہونے کی خوش فہمی پیدا کر دیتا ہے۔
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
چند ہفتے پیشتر ہی ٹرمپ نے کِم کو ’راکٹ مین‘ اور ’تاریک جوکر‘ کے خطابات سے نوازا تھا جبکہ کِم نے ٹرمپ کو ذہنی مریض اور ’ہلڑ باز‘ قرار دیا تھا۔
جس نظام اور جس اقتدار میں عوام کی کوئی نمائندگی ہو نہ ہی عام لوگوں کو اس سے کوئی امیدیں باقی رہیں وہ کتنا مستحکم ہو سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے؟
چھ جون کو اردن کے مزدوروں اور ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنان کی عام ہڑتال اتنی شدید تھی کہ پوری ریاست لرز کے رہ گئی۔
سعودی عرب میں ایک بار پھر شدید اذیت میں زندگی بسر کرنے والے غیر ملکی محنت کشوں کو نکالنے پر زور دیا جارہا ہے۔
مودی سرکار نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو لاگو کرتے ہوئے بدترین ریاستی، معاشی اور ثقافتی جبر کے باوجود نہ ہی عالمی معاشی ماہرین کی توقعات پر پورا اتر سکی ہے اور نہ ہی مقامی سرمایہ داروں کی۔
ادھوری نیشنلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلا حات کی کوشش اپنا اظہار بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔
نوجوان انقلابیوں کے لیے فرانس کے 1968ء کے انقلاب سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے..
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھے