جنگی حالات کیوں اور کب تک؟
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
جس بڑے پیمانے پر صنعت اور زراعت کے طریقوں میں تبدیلی، صاف ستھری توانائی کی پیداوار اور شہروں کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہ منڈی کی اندھی قوتوں کے تحت ناممکن ہے۔
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
جبر کے اداروں کی وردیوں کے رنگ بدلنے یا کوئی دوسری نام نہاد اصلاحات کرنے سے وہ ’’عوام دوست‘‘ نہیں بن سکتے۔
اتنی پولیس اب تھانوں میں نہیں ہوتی جتنی تعلیمی اداروں میں گھسا دی گئی ہے۔
عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے…
مقبول بٹ نے بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا لیکن جبر کا کوئی بھی طریقہ انکے آزادی اور انقلاب پر یقین کو متزلزل نہیں کر سکا۔
یہ سامراجی اس قدر بدحواس اور پاگل ہو چکے ہیں کہ تاریخ سے کچھ سیکھنے کی اہلیت ہی کھو چکے ہیں۔
یہ واردات نجکاری کے اُس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے جاری ہے جو موجودہ حکومت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑے پیمانے پہ کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔
یہ سامراجی بوکھلاہٹ، ضد اور ہٹ دھرمی کے عالم میں اتنے آگے آگئے ہیں کہ انتہائی اقدامات کی جانب بھی جاسکتے ہیں۔
رپورٹ: حارث قدیر سعودی عرب میں سات ماہ کی تنخواہوں سے محروم محنت کشوں کے احتجاج پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے تشدد اور فائرنگ کے باعث آٹھ محنت کش زخمی ہو گئے جبکہ سینکڑوں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبہ میں سرکاری آئل کمپنی سعودی […]
پاکستان ان چند ممالک میں سرِفہرست ہے جہاں پانی کا بحران آنے والے دنوں میں شدت اختیار کرتا جائے گا۔
مودی جس ’چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔