فرقہ واریت کا عفریت
ریاستی آقاؤں اور مختلف حکومتوں کی جانب سے علامتی مذمتوں کے باوجود حکمران طبقات کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اس مذہبی جنون کو لگام دیں جو سماج میں پہلے سے محکومی کے شکار عوام پر قہر نازل کر رہا ہے۔
ریاستی آقاؤں اور مختلف حکومتوں کی جانب سے علامتی مذمتوں کے باوجود حکمران طبقات کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے کہ اس مذہبی جنون کو لگام دیں جو سماج میں پہلے سے محکومی کے شکار عوام پر قہر نازل کر رہا ہے۔
نوٹوں کو کالعدم کرنے کے بعد کالے دھن کی ایک نئی صنعت معرض وجود میں آچکی ہے، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پرانے نوٹ 20 فیصد مارجن پر وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ نئے نوٹوں کو بیچا جا رہا ہے۔
کافی عرصے سے یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اسد کے اہم ترین اتحادی اس کی جگہ کسی دوسرے نسبتاً کم متنازع لیڈر کو لا سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت اس کا بر سر اقتدار رہنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔
طبقہ جلد یا بدیر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مسائل کا حل آسان طریقوں اور راستوں پر نہیں ہے۔
سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف فیڈل کاستروکی طویل ناقابل مصالحت جدوجہد نے اسے امر کر دیا۔
انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔
عوام کی سیاست کی نعرہ بازی فریب اور دھوکہ دہی بن جاتی ہے جب تک اس کو طبقاتی تضادات اور تصادم کی سائنسی سوچ اور نظریات کے تحت انقلابی سوشلزم سے نہ جوڑا جائے اور حتمی فتح تک نہ لڑا جائے۔
کاسترو کا شمار دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے مقبول سوشلسٹ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
پاکستان اور ہندوستان کے رجعتی میڈیا کی جانب سے تحریک پر ایک مذہبی اور متعصبانہ پردہ ڈالنے کی وارداتوں کے باوجود یہ تحریک آج بھی کسی مذہبی تعصب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سیاسی تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیں۔
موجودہ بے یقینی کا عالم اس وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ صرف چند دنوں میں چیف کی تبدیلی سے پیشتر کوئی ایسا دھماکہ، دہشت گردی کی واردات یا پھر کوئی بھاری واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو فوجی مداخلت کروانے کا موجب بن سکتا ہے۔
کالے دھن کے آقاؤں کی کرپشن اور چوری نوٹوں کی مرہون منت ہوتی ہے نہ ہی اس طرح سے یہ ختم ہو سکتی ہے۔
اس منصوبے سے شاید عارضی طور پر ریاست اور نظام کو کچھ آسرا مل جائے لیکن لمبے عرصے میں تضادات شدید تر ہی ہوں گے۔ اس معاشی نظام میں پسے ہوئے عوام کے عذابوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
ہر سال تقریباً 60 بلین رینڈ (جنوبی افریقہ کی کرنسی) کرپشن اور حکمرانوں کی عیاشیوں میں خرچ ہوتے ہیں جبکہ محض 45 بلین رینڈ سے تمام افراد کو مفت تعلیم مہیا کی جا سکتی ہے۔
اس سفر میں ایک لاکھ سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ لاکھوں زخمی ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ قید و بند ہوئے لیکن سفر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا!