کفارہ
سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
ایران کے تمام بڑے شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں نے ایرانی ملاں ریاست کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔
رجعت سے آلودہ سوچ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ طلبا و طالبات آپس میں فن، ادب، سائنس، تعلیم، نصاب، فلسفہ، سیاست، ثقافت، تاریخ، فلم، عالمی حالات اور معاشرے کے بحران جیسے موضوعات پربات چیت یا بحث ومباحثہ کر سکتے ہیں۔
ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔
نیپال کی کمزور اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اس طرح کی اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں ہے جس سے محنت کشوں اور محکوم عوام کی زندگی میں بہتری آئے۔
جہاں ایک طرف قومی محرومی اور جبر کے خلاف ایک سرکشی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاست نے اس سرکشی کو کچلنے کے لیے پورے بلوچستان کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
ہر سال 1500 ارب ڈالر سے زائد رقم اِن تباہی کے آلات پر دنیا بھر میں خرچ کی جاتی ہے۔ اِن پیسوں سے دنیا میں غربت اور بھوک کا خاتمہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کیا جا سکتا ہے۔
یہ بے دھڑک اقدام محض ٹرمپ کی ڈانواڈول بڑھکوں کا تسلسل نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست اور سماج میں گہرے تضادات کی غمازی کرتا ہے۔
یہ بحران معیشت سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے ساختی بحران میں بدل گیا ہے۔
یمن کی اِس بربادی کی وجوہات بنیادی طور پر 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلابات کی پسپائیوں کی لڑی سے جڑی ہوئی ہیں۔
پرویز رشید جیسے سابقہ بائیں بازو کے رہنما نواز شریف کو جتنے بھی سبق پڑھا لیں نواز لیگ روایتی طور پر سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور نواز شریف اس طبقاتی نظام کے خلاف کوئی سنجیدہ موقف اختیار نہیں کر سکتا۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔