خوف کا کاروبار

[تحریر: لال خان]
ویسے تو خونریزی اس ملک کا معمول ہے لیکن سانحہ پشاورکی بربریت ’’معمول‘‘ سے ذرا زیادہ تھی جس نے سماج کا صدمہ اوربھی گہرا دیا ہے۔ درس گاہوں پر دہشت گردی اور ڈرون حملے تو پہلے بھی ہوئے ہیں، بچے تو تھر میں بھی مر رہے ہیں اور 1132 بچے روزانہ غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں لیکن کسی ایک واقعے کو ’’بڑا‘‘ بنا کر نہ رکنے والا معاشی قتل عام اس کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ پشاور میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ڈیڑھ سو بچوں کی ہلاکت کے بعد عوام میں پنپنے والے غم و غصے کو ’’سوگ‘‘ اور مایوسی میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے اس سلسلے میں حکمران طبقے کی پوری مدد کی ہے۔ اب اس مایوسی کو خوف میں تبدیل کر کے عوام کو سماجی، سیاسی اور نفسیاتی طور پر اور بھی مجروح کیا جارہا ہے۔
پرانتشار اور بے ہنگم معاشرے پر براجمان حکمرانوں کی نااہلی بالکل واضح ہے۔ ایک مفلوج معیشت اور متروک نظام کی پاسبان اس سیاسی اشرافیہ کا وقتاً فوقتاً ہونیو الے سانحات پر رد عمل منافقت سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ حکمران خونریزی کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں متضاد ، لائحہ عمل پرفریب اور عزائم منفی ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف عوام کو ابھارنے اور عزم وہمت دینے کی بجائے انہیں بددلی اور مزید دہشت میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ ریاست کا جبر عوام پر اور بھی بڑھا دیا جاتا ہے اور پھر اسی ریاست کو ان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ریاست طبقاتی سماج میں سے برآمد ہوتی ہے اور حکمران طبقے کا اوزار بن کر محنت کش عوام پر مسلط ہوجاتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے درمیان ایک فاصلہ اور تفریق قائم ہوجاتی ہے اور بالادست قوت کے طور پر سماجی نفسیات پر غالب کردی جاتی ہے۔ بیرونی جنگوں کے لئے تو یہ سلسلہ کسی حد تک چل جاتا ہے لیکن نظام کا معاشی اور سماجی بحران داخلی سطح پر بھی اسے خونریز قوت بنا دیتا ہے جو کبھی مذہب کے نام پر کالے دھن کے تحفظ کے لئے تشدد کا استعمال کرتی ہے تو کبھی قومیت اور لسانیت کے تعصبات کی بنیاد پر بدعنوانی کی ڈھال بن جاتی ہے۔ عوام کی نمائندگی کی دعویدار ریاست کی وردی دیکھ کر ہی عام آدمی خوف سے دہل جاتا ہے۔
یہاں کے باسی پہلے کیا کم خوف و ہراس میں مبتلا تھے کہ اب مذہبی دہشت گردی کا خوف سرکاری طور پر ان کی نفسیات پر لادا جارہا ہے۔ حکمرانوں کا یہ موقف ہی ان کے مکروہ کردار کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگ اپنی حفاظت کا خود بندوبست کریں۔ عوام نے اپنی حفاظت کے لئے نجی سکیورٹی گارڈ ہی رکھنے ہیں تو ریاست کا پھر کیا کام باقی رہ جاتا ہے؟ کس بنیاد پر 90 فیصد بالواسطہ ٹیکس غریب عوام کی رگوں سے نچوڑا جاتا ہے؟ حملے کے خلاف سب سے بڑا دفاع جوابی حملہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جوابی اور فیصلہ کن حملہ محنت کش عوام ہی اشتراکی بنیادوں پر یکجا ہوکر کرسکتے ہیں۔ لیکن عوام کو اس درندگی کے خلاف ابھارنے سے یہ حکمران اس لئے خوفزدہ ہیں کہ ان کے اپنی لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ عوام جب اٹھیں گے تو بارود کی دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے اور حکمرانوں کو اس حقیقت کا دراک بخوبی ہے۔
کارپوریٹ میڈیا پر بھی ’’جان و مال‘‘ کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے جان پر کم اور ’’مال‘‘ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کیونکہ غریبوں کے پاس تو صرف جان ہی ہوتی ہے، ’’مال‘‘ حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے۔ عوام ایک طرف صدموں سے گھائل ہیں تو دوسری طرف ریاست کے دوگنا خوف تلے دب کر سسک رہے ہیں۔ ان حالات میں حکمران طبقے کے کچھ حصے ایسے بھی ہیں جو اس خوف کو بھی کیش کرا کے بھاری منافع کما رہے ہیں۔ ’’عوام کے دفاع‘‘ کے لئے سکولوں کے سکیورٹی انتظامات کی ایک مہم جاری کی گئی ہے۔ دیواریں اونچی کرنے، خار دار تار لگانے، کیمرے اور حفاظتی دروازے لگانے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ سکیورٹی آلات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان تمام اخراجات کا بوجھ فیسوں میں اضافے کے ذریعے والدین پر پڑے گا۔ جنہیں بچوں کی حفاظت کے خدشات ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اب ان کی جیب بھی کاٹی جارہی ہے۔ امیروں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن دو وقت کی روٹی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بمشکل پورے کرنے والا سفید پوش طبقہ کہاں جائے گا؟
پاکستان کی پیداواری صنعت زوال کا شکار ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہورہے ہیں۔ لیکن موبائل کمپنیوں، ہاؤسنگ کالونیوں اور نجی سکیورٹی فرموں کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ تینوں کاروبار انسان کی سماجی بیگانگی اور معاشرتی خوف سے پھلتے پھولتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد تو سکیورٹی فرموں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اب تو ان سکیورٹی فرموں کو ملنے والے کاروباری ایوارڈز کے اشتہار بھی اخباروں میں چھپ رہے ہیں۔ سکیورٹی کے زیادہ تر نجی ادارے ریٹائرڈ عسکری اشرافیہ کے ہیں جہاں کام کرنے والے گارڈوں سے انتہائی قلیل اجرت پر دن رات کام لیا جاتا ہے۔ یہ گارڈ بھی زیادہ تر غربت کے ہاتھوں مجبور فوج کے ریٹائرڈ سپاہی ہوتے ہیں جو عمر کے آخری حصے میں چند ہزار روپے کے عوض اپنی جان داؤ پر لگادینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
’’عوام کے دفاع‘‘کو اگر کاروبار بنا دیا گیا ہے تو ’’ملک و قوم‘‘ کے دفاع کی صورتحال بھی کوئی مختلف نہیں ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی ’’قوم‘‘ کا وجود کسی دوسری ’’قوم‘‘ سے دوستی یا دشمنی کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ دوسری قوموں سے دشمنی اور جنگیں درحقیقت اپنی ’’قوم‘‘ میں خوف پھیلانے کا ہی ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت ’’دفاعی‘‘ بجٹ بنتے ہیں، اسلحہ ساز کمپنیاں منافع اور حکمران کمیشن بناتے ہیں۔ عوام کو روٹی ملے نہ ملے ان کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے بیش قیمت ہتھیار بہرحال خریدے جاتے ہیں۔ جنگیں اس نظام کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ زائد پیداوار کے سرمایہ دارانہ بحران کا نتیجہ تھی جس میں ہونے والی تباہی کی تعمیر نو نے اس نظام کو وقتی سہارا دیا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے مقاصد بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ 1945ء کے بعد ہونے والے ان تنازعات میں دوسری عالمی جنگ سے تین گنا زیادہ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
1916ء میں پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے متعلق اپنی ساتھی انیسا آرمنڈ کے سوالوں کے جواب میں لینن نے کہا تھا کہ ’’جنگ بہت ہولناک ہوتی ہے لیکن ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے۔‘‘ امریکی سامراج کی جارحیت میں جہاں اس کا سرکاری خزانہ خالی ہوگیا ہے وہاں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہزاروں ارب ڈالر کمائے ہیں۔ ایسی ملٹی نیشنل اجارہ داریاں بھی ہیں جو انسانوں کو برباد کرنے کے آلات اور جان بچانے کی دوایاں بیک وقت بناتی ہیں۔ ریاستوں کی خارجہ پالیسیاں آخری تجزئیے میں یہی کمپنیاں تشکیل دیتی ہیں۔ ایران کا ایٹمی پروگرام خطرناک ہوسکتا ہے لیکن امریکہ جنگی صنعت کے لئے انتہائی منافع بخش اور ’’مفید‘‘ ہے۔ جنگی آلات کی امریکی اجارہ داری لاک ہیڈ مارٹن کے نئے جنگی طیارے F-35 کی قیمت 142 ملین ڈالر (تقریباً 15 ارب روپے) ہے اور یہ سارا پیسہ امریکی عوام کو اپنی ’’حفاظت‘‘ کے لئے اسلحہ ساز صنعت کی تجوریوں میں ڈالنا ہوگا۔ ان طیاروں کی پیداوار اور خریداری پر جو پیسہ خرچ کیا جارہا ہے اس سے ہر بے گھر امریکی خاندان کو گھر مل سکتا ہے۔ اس ’’جدید‘‘ جہاز کو 1940ء کا ریڈار بھی پکڑ سکتا ہے۔ دوسرے کئی نقائص کے سبب F-35 پراجیکٹ کئی سال تاخیر کا شکار ہو گیاہے، بنائے گئے جہاز ہینگر پر بیکار کھڑے ہیں لیکن 400 ارب ڈالر ( 40 ہزار ارب روپے) 2006ء سے اب تک خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ قصہ بالکل ایٹمی ہتھیاروں والا ہی ہے!
منافع پر مبنی نظام میں جب شرح منافع گرنے لگے تو اسے بحال کرنے کے لئے حکمران پاگل پن کی حد بھی عبور کر جاتے ہیں،چاہے نسل انسان کو برباد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ سماج سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی بیماری میں مبتلا ہے اور اس موذی مرض نے انسانی تہذیب کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سرمایہ داری اور دہشت گردی میں فرق صرف اصطلاح کا بچاہے!

متعلقہ:

کس کس دہشت کے زخم؟

پاک بھارت تعلقات: کشیدگی کی بیہودگی

ایٹمی طاقت کی مفلسی