افغانستان؛ خاک میں لتھڑاہوا،خون میں نہلایاہوا

تحریر:لال خان:-
(ترجمہ:اسدپتافی)

ناٹو افواج کے نکل جانے کے بعد بھی افغانستان کی صورتحال لازمی نہیں کہ معمول پر آجائے ۔تمام تر رواجی تجزیوں کی قنوطیت پسندی کے باوجود افغانستان میں ایک انقلابی تناظرکا امکان موجودہے۔ایک اڑتیس سالہ امریکی فوجی کے ہاتھوں قندھارکے علاقے میں سولہ معصوم سویلین افراد کا قتل جن میں بچے بھی شامل تھے ، ’’دیہاتوں میں استحکام‘‘نامی کاروائی کے دوران ہونے والایہ واقعہ’’ کارخیر ‘‘کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کی حقیقی نوعیت اورکیفیت کی غمازی کرتاہے۔
اس نوعیت کی ہرسامراجی جنگ کی طرح سے افغانستان پر مسلط یہ خون آشام جارحیت بھی سامراج کے منافعوں ا ور لوٹ مار کیلئے شروع کی گئی اور جو جاری وساری ہے ۔پچھلے اتوار کے روز قندھار کے پنجوائی علاقے میں یہ جارحیت ایک اور وحشت کی صورت میں سامنے آئی ، جب مخالفین کی سرکشی کو کچلنے کی مہم کے دوران ایک فوجی نے شہریوں پر گولیاں چلا دیں۔یہ نئی مہم ایک حکمت عملی کے تحت چلائی جارہی ہے جس کا مقصد قبائل کے بزرگوں اورعمائدین کی تائیدوحمایت جیتنااور افغانستان میں مقامی پولیس فورس تیار کرنا ہے۔یہ واقعہ افغانستان میں ہونے والا اپنی نوعیت کا واحد یاپہلا واقعہ نہیں ہے جیسا کہ امریکی حکام ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ افغانی عوام ہی جانتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات تب سے ہورہے ہیں جب سے جارحیت مسلط کی گئی ہے اوریہ آئندہ بھی ہوں گے۔یہ واقعہ امریکی جارحیت میں شریک فوجیوں کے مائنڈسیٹ کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ یہ جارحیت کس طرح سے ان فوجیوں کے ذہنی تناؤاور ان میں تباہ کن وحشت کو بڑھاوا دیتی چلی جارہی ہے۔
پچھلے ہفتے کے اپنے شمارے میں ’’فنانشل ٹائمز‘‘لکھتاہے کہ ’’مغرب کو افغانستان بارے، اعتماد کے شدید بحران کا سامناہے اور افغانستان کے لوگوں کا حامدکرزئی کی امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ کا معاہدہ روزبروز ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہوتا چلا جارہاہے‘‘۔ انٹرنیٹ پر تیزی کے ساتھ دیکھی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایاگیاہے کہ چار امریکی فوجی مارے گئے افغانیوں پرپیشاب کر رہے ہیں ،جس کے بعد دنیا بھر میں امریکہ اور ناٹوافواج کے خلاف پہلے سے موجود غم وغصے میں اور بھی شدت آگئی ۔اس سے امریکی افواج کی ویتنام،کوریا،لاطینی امریکہ اور عراق میں روارکھی جانے والی بربریت کی یاد یں تازہ کردیں۔
اس شرمناک واقعے پر سب سے دلچسپ اور انتہائی منافقانہ بیان امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی طرف سے سامنے آیاجو اس نے اقوام متحدہ میں دیا ’’افغانستان کے عام شہریوں کی حفاظت کیلئے ہم پہلے دن کی طرح آج بھی پوری طرح تیارومستعدہیں‘‘۔افغان عوام اور ملحقہ قبائلی علاقوں کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح سے امریکی ان کی جان ومال کی حفاظت کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔صرف قبائلی علاقوں میں 2300افراد اب تک ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج اپنی تاریخ کی سب سے طویل لڑائی افغانستان کے بے آب وگیاہ میدانوں میں ہارچکاہے ۔ریپبلکن صدارتی امیدوارنیوٹ گنگرچ نے قراردیاہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ ’’ناقابل عمل‘‘عمل تھااور اس کے الٹ اثرات مرتب ہورہے ہیں۔سرمایہ داری اور سامراج کی معاشی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے سب سے مستند ومستعد دفاع کرتے چلے آنے والے جریدے’’اکانومسٹ‘‘نے اس ہولناک واقعے سے کچھ روز پہلے کی اپنی اشاعت میں لکھا ہے ’’دونوں فریقین کے مابین اعتماد کی سطح کم ترین کیفیت میں پہنچی ہوئی ہے ۔پریشان حال افغانیوں کی بڑی تعداد اب امریکیوں کو ’’شک کا فائدہ دینے ‘‘ سے انکارکررہی ہے ۔یہاں تک مغربی عسکری مشیروں اور فوجیوں کے اندر بھی مایوسی کی سطح بڑھ چکی ہے ۔اور یہ لوگ اب انہی اپنے دوتسوں کے ہاتھوں مارے جانے کے خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ جنہیں لے کر یہ دنیا بھر میں اپنے ساتھ لئے پھرتے تھے ۔عدم اعتماد کی اسی حالت میں ہی یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر انتہائی احتیاط سے منصوبے تجویز اور مرتب کرتے ہیں کہ کیسے عبوری مرحلہ تشکیل دیاجائے گا اور کس طرح کیا کیا جائے گا۔تعمیر نو کیلئے وقت اور صبر درکار ہے ۔لیکن کابل میں موجود لوگوں کو یہ تشویش لاحق ہو چکی ہے کہ نہ تو صبر بچاہے نہ ہی وقت!‘‘۔
یہ امریکی ہی تھے کہ جنہوں نے اسلامی بنیادپرستوں کو پالاپوسا تاکہ افغانستان میں لیفٹسٹوں کا قلع قمع کیا جائے ۔27اپریل 1978ء کوقائم ہونے والے بائیں بازوکے نور محمد ترکئی کی حکومت کو اکھاڑنے کیلئے سی آئی اے نے ’’ڈالر جہاد‘‘شروع کیاتھا۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کے سیکرٹری زیبنیوف برزنسکی نے اس جہاد کے شروع کے دنوں میں اسامہ بن لادن کو ریکروٹ کیاتھا ۔اس ردانقلابی عمل میں آئی ایس آئی اور سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی برابر کردار اداکیاتھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں جاری یہ جنگ و بربریت محض پچھلے دس سالوں کا نہیں بلکہ چالیس سالوں کا قصہ ہے ۔جس نے اس خطے اور علاقے کو دکھوں محرومیوں اور اذیتوں کی جیتی جاگتی عبرت گاہ بنا کے رکھ دیاہے ۔اس نام نہاد جہادکی مالی امدادکیلئے تاکہ اس کو رواں دواں رکھاجائے، سامراجی مشیروں نے خطے میں منشیات فروشی سمیت کئی دوسرے قبیح مجرمانہ طورطریقے بھی رائج اور عام کئے ۔
1991ء میں سوویت روس کے انہدام کے بعد امریکیوں نے افغانستان کو خیرباد کہہ دہا۔اس کے ساتھ ہی ’’سرد جنگ ‘‘بھی ختم پذیر ہوگئی۔ اس کے بعد افغانستان میں بنیادپرستوں اور رجعتیوں کے مختلف حصوں کے مابین اختلافات اور تنازعات شدت پکڑتے چلے گئے ۔کابل جسے کبھی مشرق کا پیرس قراردیاجاتا تھا ،وہ اس باہمی خانہ جنگی اور سرپٹھول کے بعد تباہ وبرباد ہوتاچلاگیا۔جس کے نتیجے میں کابل کو آئی ایس آئی کی کھلی اور سی آئی اے کی خفیہ آشیرباد کے بعد طالبان کے حوالے کردیاگیا ۔امریکہ کے سابق وزیرخارجہ رابرٹ اوکلے نے ملا عمر کو30ملین ڈالرز دیے تھے تاکہ وہ کابل پر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے کام میں لاسکے ۔ یہ رقم بنیادی طور پر سامراجی اجارہ داری یونی کال کی طرف سے اور کیلئے فراہم کیے گئے تھے جو کہ وسطی ایشیا میں سے افغانستان کے راستے سے تیل کی پائپ لائن بچھانے کی آرزومندتھی جبکہ اس دوران طالبان قیادت ارجنٹائن کی کمپنی بریڈاس کے ساتھ درپردہ معاہدہ کرنے کیلئے بات چیت کررہی تھی ۔جو طالبان کو زیادہ بڑی اور موٹی رقم دینے کا کہہ رہی تھی ۔طالبان اور امریکی سامراج کے مابین تنازعے اور تصادم کا باعث بھی انہی بڑی کمپنیوں کے مابین معاہدے کی کشمکش بنی ۔اور یہی وہ حقیقی وجہ بنی کہ جب 2001ء میں سامراجی، افغانستان پر براہ راست چڑھ دوڑے ۔مغربی سامراجی ہوں یا کہ اسلامی بنیاد پرست ،معاشی و نظریاتی اعتبارسے دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
انسانی حقوق،جمہوریت،عورتوں کی آزادی اور قومی وقاروخودمختاری کے دعوے اورنعرے محض اور محض منافقانہ چالبازیاں ہیں اور جو عوام الناس کو دھوکہ دینے اور دھوکے میں رکھنے کیلئے بروئے کار لائی جارہی ہیں۔اب یہ بات دن بدن سب پر عیاں ہوتی چلی جارہی ہے کہ عوام اور عورتوں کی حالت اور حالات میں قطعی کوئی بہتری اور تبدیلی نہیں آئی۔سامراجیوں کے تحت قائم ہونے والی مذہبی کونسل نے ابھی حکمنامہ جاری کیا ہے کہ عورتیں ،مردوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتی ہیں،نہ ہی اپنے تئیں بازار جاسکتی ہیں جبکہ مخلوط تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔امریکی سی آئی اے طالبان کے کئی دھڑوں سمیت دیگرگروپوں کے ساتھ تال میل شروع کئے ہوئے ہے ۔لیکن جو بھی دھڑا اور گروپ ان مذاکرات میں شریک ہوتاہے اس میں مزیددھڑے بندے ہوتی جارہی ہیں ۔اور نکلنے والے لوگ زیادہ اشتعال انگیزی پر اتررہے ہیں۔جس کے باعث خطے میں تشددانتہائی سطح کی شدت پسندی کی لپیٹ میں آچکاہے ۔سامراجیوں کیلئے یہ جنگ انتہائی بھیانک غلط اورالٹ نتائج و عواقب کا باعث بن چکی ہے ۔نو تشکیل کردہ افغان فورسز میں طالبان کی مداخلت بہت زیادہ ہے اور جن کے ہاتھوں سامراجی فوجی آئے روز مارے جارہے ہیں۔جنگ میں ملوث سامراجی ملکوں کے اندر سے فوجوں کی افغانستان سے فوری واپسی کیلئے دباؤ بڑھتاہی چلا جارہاہے ۔65فیصد سے زائد امریکی یہ چاہتے ہیں کہ ان کی فوج فوری طورپرواپس بلا لی جائے ۔سارکوزی پہلے ہی فرما چکاہے کہ 2013ء تک وہ اپنی فوج واپس بلا لے گا۔باقی طاقتیں بھی ایسا کر رہی ہیں ۔ان طاقتوں کو درپیش مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ واپس اپنے ملکوں کو سدھاریں گے تو خطے میں ان کے مفادات کا کیا بنے گا؟ اور اگر وہ یہاں جمے رہتے ہیں تو ایک ذلت آمیز شکست ان کے منہ پر کالک مل دے گی ۔
چین روس اور بھارت جیسے ملک سامراجی عزائم کے ساتھ مردارخور گدھوں کی طرح صورتحال پرکڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔تاکہ افغانستان کے اندر موجود وسائل اور معدنیات کو نوچ اوردبوچ سکیں ۔’’سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘کے نام سے پاکستان کی ریاست بھی اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے ۔یہ بھی ایک سامراجی نوعیت کی پالیسی ہے ۔ڈیورنڈ لائن جو کہ پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرتی ہے ،بنیادی طورپر برطانوی راج وسامراج ہی کی قائم کردہ تھی،جو کہ تقسیم کرو اور حکومت کروکی دیرینہ حکمت عملی کا حصہ تھی اور جس کا مقصد اپنے مفادات اور عزائم کو مسلط رکھناتھا۔ یہ تقسیم اب غیر ضروری ہو چکی ہے ۔
لازمی نہیں کہ سامراجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان کی صورتحال بدتر ہوجائے۔حاوی نقطہ ہائے نظر کے باوجودجو کہ تشویش اوربے یقینی کے حامل ہیں،افغانستان کے اندر ایک انقلابی تناظر کا امکان بھی موجود ہے۔افغانستان نے 1978ء میں ایک انقلاب کا تجربہ کیا ہواہے کہ جس نے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑپھینک دیاتھا ۔لیکن یہ بھی بات طے ہے کہ افغانستان اورپاکستان میں دو الگ الگ انقلابات ممکن نہیں ہیں۔

ڈیلی ٹائمز، 18مارچ 2012