سرمایہ دارانہ جمہوریت کا خونخوار کھیل

[تحریر: عمران کامیانہ]
پاکستان میں آج کل جمہوریت کا دور دورہ ہے۔اگر یہ خبر ابھی تک آپ کے پاس نہیں پہنچی تو گھبرائیے مت! اپنے شہر کی کسی بھی بڑی شاہراہ یا چوک پر چلے جائیں۔ قوی امید ہے کہ بیروزگاری، گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام ٹائر جلا کر ڈنڈے سوٹے ہاتھوں میں لئے اپنا ’’جمہوری حق‘‘ استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔تاہم آج کل کی ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ ’’جمہوریت کا براہِ راست عملی مظاہرہ‘‘ آپ گھر بیٹھے ٹیلیوژن پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔اس مقصد کے لئے بجلی کی موجودگی کے ’’مخصوص اوقات‘‘ میں اپنا ٹی وی آن کریں اور سرکاری چینل لگائیں۔’’جمہوریت کا تسلسل‘‘، ’’آئین کی بالادستی‘‘، ’’اداروں کی مضبوطی‘‘اور ’’مفاہمت کی پالیسی‘‘ جیسی قانونی و جمہوری اصطلاحات کی گردان آپ کے کانوں کو چند منٹوں میں چھلنی کرتے ہوئے یوں گزرے گی کہ آپ چینل تبدیل کرنے یا ٹی وی بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ٹی وی بند کرنے کا کام اگر ’’اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ‘‘نہ کرے تو منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے کوئی نجی ٹی وی چینل بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں کسی آزادی اظہار سے لبریز ٹاک شو میں آپ کو جمہوری حکومت اور جمہوری اپوزیشن کے نمائندے بلا کسی مقصد، وجہ اور نظریاتی فرق کے بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے نظر آئیں گے۔اگر اس نظام اور اس کے نظریاتی محافظین نے آپ میں سوچنے سمجھنے کی تھوڑی سی صلاحیت بھی غلطی سے باقی چھوڑی ہے تو ہزاروں سوچیں اور سوالات آپ کے دماغ میں ایک سیلاب کی طرح آ کر گزر جائیں گی۔ آپ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ عوام کی نمائندگی کے یہ دعوے دار کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں؟ اگر یہ ’’جمہوریت‘‘ ہے تو آمریت کس بلا کا نام ہوتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پریشان مت ہوں، یہ ٹی وی چینلز مریخ سے نہیں بلکہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے ہی نشر ہوتے ہیں۔ ان پر برا جمان صحافی، سیاستدان اور ’’دانشور‘‘ بھی اسی سماج میں رہنے کا کم از کم دعویٰ ضرور کرتے ہیں۔اگر ان میں اور عام آدمی میں کوئی فرق موجود ہے تو وہ صرف اور صرف طبقاتی ہے۔سرمایہ دارانہ سیاستدان، ریاستی مشینری، دانشور اور میڈیا جس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے موضوعات اور مفادات نہ صرف یہ کہ سماج کی اکثریت سے بالکل مختلف ہیں بلکہ متضاد ہیں۔
لینن نے آج سے تقریباً سو سال پہلے ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا ’’ایک حقیر سی اقلیت کے لئے جمہوریت، دولت مندوں کے لئے جمہوریت، اصل میں سرمایہ دارانہ سماج کی جمہوریت ہے۔۔۔ اس سماج میں ہم جمہوریت پر ایک کے بعد دوسری بندش دیکھتے ہیں۔یہ پابندیاں، یہ بندھن، یہ شرطیں اور استثناء،یہ رکاوٹیں جو غریب لوگوں پر عائد ہیں،سطحی تجزئے میں بالکل معمولی دکھائی دیتی ہیں، خاص طور پر اس شخص کی آنکھوں کو جسے غربت اور حاجت مندی کا پتہ نہیں اور جسے کچلے ہوئے طبقات کی زندگی سے عمر بھر کبھی قریبی واسطہ نہیں رہا، اگر سو میں سے نناوے نہیں تو دس میں سے نو بورژوا سیاستدانوں اور صحافیوں کا شمار انہی لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔لیکن مجموعی طور پر یہ رکاوٹیں غریب طبقات کو سیاست اور جمہوری عمل سے نکال باہر کرتی ہیں۔‘‘یہاں لینن جن رکاوٹوں کی بات کر رہا ہے ان میں سے سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی ملکیت اور سرمایہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ظاہر ہے سب سے بڑی طاقت (عام حالات میں )سرمایہ ہوا کرتی ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جسمانی اور نظریاتی طور پر کچلنے کے صلاحیت رکھتی ہے۔سیاست کرنے اور الیکشن لڑنے کے لئے کتنا سرمایہ چاہیے ہوتا ہے؟ اور یہ سرمایہ سماج کے کتنے فیصد لوگوں کے پاس موجود ہے؟ اس بات کا جواب سماج کا کوئی بھی شہری با آسانی دے سکتا ہے۔پیرس کمیون کا تجزیہ کرتے ہوئے کارل مارکس نے بڑے خوبصوت انداز میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بیان کیا تھا کہ ’’دبے کچلے ہوئے لوگوں کو چند سال میں ایک بار یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ دبانے اور کچلنے والے طبقات کے کونسے نمائندے وہ اپنے لئے چنیں جو پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی بھی کریں اور آنے والے کئی سالوں تک انہیں کچلتے بھی رہیں۔‘‘ریاست اور انقلاب میں ہی لینن لکھتا ہے ’’آج کے اجرتی غلام غریبی اور محتاجی کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہیں کہ ’’انہیں جمہوریت کی ایسی فکر نہیں ہوتی‘‘، انہیں ’’سیاست میں سر کھپانے کا موقع نہیں ملتا‘‘، واقعات کے عام پر سکون دھارے میں آبادی کی بہت بڑی اکثریت سماجی اور سیاسی زندگی کے معاملات میں شریک ہونے سے محروم ہے۔‘‘یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام میں ’’جمہوریت‘‘ اور اس کا راگ الاپنے والوں کی حقیقت!
لیکن جمہوریت کا راگ الاپنے والے ان ’’دانشوروں‘‘ کا کیا کیا جائے جو ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کو پاکستان کی بقا اور خوشحالی کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔اگر ’’جمہوریت کا تسلسل ‘‘ان طلسماتی خصوصیات کا حامل ہوتا جو یہ حضرات بیان کرتے ہیں تو بھارت سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک جہاں بورژوا جمہوریت پچھلی کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے، جنت کا منظر پیش کر رہے ہوتے۔ لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے اور ان ممالک میں سے بیشتر کی حالت پاکستان سے بھی گئی گزری ہے۔یہ ’’دانشور‘‘ حضرات دراصل جمہوریت کو ایک نظام بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر معینہ مدت کے بعد مستقبل بعید میں ان کے تمام مسائل حل کر دے گا۔’’مستقبل بعید‘‘ کے بارے میں کینز نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ مستقبل بعید میں تو ہم سب مردہ ہیں!‘‘
مغربی جمہوریت کو رول ماڈل قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔مغرب میں جو کچھ 2008ء کے بعد سے ہو رہا ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی ’’مغربی ماڈل‘‘ کی بات کرے تو اس کی ذہنی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماج میں استحصال صرف اپنی اشکال تبدیل کر کے زیادہ پوشیدہ ہو جا تاہے مگر اس کی شدت بعض حالات میں تیسری دنیا کے ممالک سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہاں علاقے کے چو ہدری اور سرمایہ دار گھی کے ڈبے کے بدلے ووٹ خریدتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچنے کے بعد حکمران طبقات کی دلالی کرتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں طریقہ واردات تھوڑا مختلف ہوتا ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بنک دونوں اطراف کے امیدواروں کو ہی خرید لیتے ہیں۔مثلاًامریکی صدارتی انتخابات در اصل بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں جہاں بورژوازی کے سرمائے کے بل بوتے پر برسرِ اقتدار آنے والوں کے پاس ان کی جی حضوری اور تلوے چاٹنے کے علاوہ کوئی دوسری آپشن نہیں ہوتی ہے۔امریکی صدارتی انتخابات میں چندے کی شکل میں سب سے زیادہ سرمایہ لگانے والوں میں لاک ہیڈ مارٹن (اسلحہ ساز کمپنی)، مارگن سٹین لے (سرمایہ کاری کرنے والا ادارہ)، ٹائم وارنر (میڈیا کمپنی)، جے پی مارگن(سرمایہ کاری کرنے والا ادارہ)، مائکروسافٹ، سٹی گروپ (بنک)، گولڈ میں سا چیز(بنک، سرمایہ کاری )، AT&T(موبائل کمپنی) اور فائزر ( دوا ساز ادارہ) جیسے ادارے سرِ فہرست ہیں۔ جی ہاں! اسلحہ سازی کی صنعت سے لے کر ٹیکنالوجی اور دواسازی سے لے کر بڑے بنکوں تک، سب کے سب کروڑوں ڈالراس ’’جمہوری عمل‘‘میں ’’انویسٹ‘‘ کرتے ہیں۔ بیشتر صورتوں میں یہ سیاسی چندے دونوں اطراف کے امیدواروں کو دئے جاتے ہیں کہ کوئی ایک تو ان میں سے جیتے گا ہی۔اس سیاسی سرمایہ کاری کو ’’چندے‘‘ یا Contributionsکا نام دینے سے اس کی اساس ختم نہیں ہوجاتی۔ بڑے سرمایہ کار اپنے کروڑوں ڈالر خیرات نہیں کرتے بلکہ حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہوئے کھربوں ڈالروں کی قانونی و غیر قانونی رعایتیں حاصل کرتے ہیں۔ عراق و افغانستان کی حالیہ جنگیں جن میں اربوں ڈالروں کا اسلحہ استعمال ہوا، ان ممالک میں ’’تعمیرِ نو‘‘کی شکل میں ملنے والے ٹھیکے اور 2008ء کے معاشی بحران کے بعد عوام کے خون سے نچوڑے گئے اربوں ڈالروں کے بیل آؤٹس اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔امریکی کانگریس کے 50فیصد سے زائد اراکین ارب پتی ہیں۔ریپبلکن اور ڈیموکریٹ امریکی حکمران طبقے کا دایاں اور بایاں بازو ہیں، او ر کچھ نہیں۔یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ آکوپائی تحریک کا آغاز امریکہ سے ہوا ہے جس کا سب سے نمایاں نعرہ ’’ہم 99فیصد ہیں‘‘ (We are 99%)ہے جو امریکی سماج میں طبقاتی تقسیم کا واضح ترین اظہار ہے۔قبضہ ہمیشہ اس چیز پر کیا جاتا ہے جو آپ کے تصرف میں نہ ہو اور یہ تحریک ثابت کرتی ہے کہ امریکی محنت کش اور نوجوان سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اصلیت سے واقف ہو کر بہت تیزی سے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ یورپ میں صورتحال زیادہ مختلف نہیں جہاں تیزی سے بننے اور ٹوٹنے والی حکومتیں عوام کی نمائندگی کسی صورت نہیں کرتیں۔ مظاہرے، سماجی بے چینی، پولیس کے ساتھ تصادم اور معاشی کٹوتیاں ایک معمول بن چکی ہیں۔’’جمہوری حکومتیں‘‘ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یورپی محنت کش اور نوجوان زیادہ لمبے عرصے تک یہ سب برداشت نہیں کریں گے۔
کتابی و سرکاری علم (مڈل کلاس جس سے شدید متاثر ہوتی ہے) کے برعکس جمہوریت اور آمریت بذاتِ خود کوئی نظام نہیں ہوا کرتے بلکہ کسی بھی معاشی و سماجی نظام کو چلانے کے طریقہ کار ہیں۔جمہوریت کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کا انحصار اس نظام پر ہے جس میں اسے پریکٹس کیا جارہا ہو۔سرمایہ دارانہ نظام کبھی بھی حقیقی طور پر جمہوری نہیں ہو سکتا۔ایما گولڈ مین کا ایک قول جسے 2008ء کے معاشی بحران کے بعد یورپ کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں کافی پذیرائی ملی ہے،سرمایہ دارانہ الیکشنوں اور جمہوریت کو عریاں کرنے کے لئے کافی ہے’’ اگر الیکشن کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتے تو وہ غیرقانونی ہوتے۔‘‘ دنیا کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب حقیقی تبدیلی سے خوفزدہ ہو کر حکمران طبقات اور سامراج نے نہ صرف الیکشنوں کو غیر قانونی قرار دیا بلکہ منتخب شدہ جمہوری حکومتوں کو بھی اکھاڑ پھینکا۔سپین میں فرانسس فرانکو، انڈونیشیا میں جنرل سوہارتو، چلی میں آگسٹو پنوشے، پاکستان میں یحی ٰ، ایوب، مشرف اور جنرل ضیاء الحق، مشرق وسطیٰ میں تا حال برسرِ اقتدار آمریتیں اور بادشاہتیں اس سلسلے میں صرف چند ایک مثالیں ہیں۔سوشلسٹ انقلابات کی ناکامی کے بعد ابھرنے والی ان ردِ انقلابی آمریتوں کو نہ صرف ’’جمہوریت‘‘ کے عالمی ٹھیکیدار امریکی سامراج کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سامراجی حمایت اور امداد کے بغیر یہ آمریتیں چند دن بھی قائم نہ رہ سکتیں۔جمہوریت اور انسانیت کے عالمی ٹھیکیدار ’’انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی پر شورو غل صرف تب مچاتے ہیں جب کوئی آمر ان کے اپنے حلقہ اثر سے باہر رہتے ہوئے یہ سب کر رہا ہو۔ شام میں جاری ریاستی جبر کی مذمت تو مغربی کارپوریٹ میڈیا عبادت کی طرح کرتے نہیں تھکتا لیکن بحرین میں جو کشت و خون سعودی حکومت کی ایما پر پچھلے کئی مہینوں سے جاری ہے اس پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبردار ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
آئیے اب پاکستان کی جمہوری حکومت کے گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے ’’کارناموں‘‘پر نظر ڈالتے ہیں۔ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں صرف 10%اضافے سے 3500000پاکستانی خطِ غربت سے نیچے گر کر انتہائی غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔انتہائی غربت کو ماپنے کے لئے عام طور پر 1.25ڈالر روزانہ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔اگرچہ غربت کی یہ تعریف بھی میکانکی سوچ اور عالمی اداروں کی ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور اگر کوئی شخص 1.30ڈالر روزانہ کما رہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ خطِ غربت سے باہر ہے۔ لیکن اس تعریف کے مطابق بھی پاکستانی سماج کی جو شکل نظر آتی ہے وہ بہت خوفناک ہے۔گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔آٹا جو 2008ء میں 16روپے فی کلو ملتا تھا 25مارچ 2012ء کی قیمتوں کے مطابق 106فیصد اضافے کے ساتھ 33روپے پر پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح مونگ کی دال 170فیصد، ماش کی دال 117فیصد،چینی 124فیصد، گوشت 100فیصد، دودھ80فیصداور پتی 90فیصدمہنگی ہوئی ہے۔پٹرول، بجلی، گیس اور گھروں کے کرایوں میں اضافہ اور توانائی کے بحران کے باعث بڑھنے والی بیروزگاری اس کے علاوہ ہے۔اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں خوراک کی قیمتوں میں مجموعی طور پر کم از کم 150فیصداضافہ ہوا ہے جس سے کروڑوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے گرے ہیں۔2008ء میں عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 60%آبادی غربت کی لکیر (2ڈالر روزانہ) سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی لیکن اس کے بعد سے افراطِ زر میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ انتہائی خطِ غربت یعنی 1.25ڈالرروزانہ سے نیچے پہنچ چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق مشرف دور میں پاکستان کے 10000شہری ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے تھے اور موجودہ جمہوری دورِ حکومت میں یہ تعداد 25000روزانہ تک پہنچ چکی ہے۔لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ پاکستانی ریاست کی ہٹ دھرمی اور جھوٹ غربت سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔کئی سال تک غربت کے اعدادو شمار نہ جاری کرنے کے بعد حالیہ سال مئی میں کئے جانے والے ایک ریاستی سروے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں غربت کی شرح جو 2008ء میں 17فیصدتھی 2012ء میں کم ہو کر 12فیصدپر آگئی ہے!جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں غربت امریکہ (20فیصد)سے بھی کم ہے۔سروے کرنے والی سرکاری کمیٹی کے ایک اہلکار نے سر کھجاتے ہوئے میڈیا کو یہ بیان دیا ’’2.6فیصدمعاشی شرح نمو اور 15فیصدافراطِ زر کے ہوتے ہوئے عوام کے سامنے غربت کی کمی کی وضاحت کرنا ایک چیلنج ہے۔‘‘اگر جھوٹ بولنے کا کوئی نوبل پرائز ہوتا تواس کمیٹی کے اراکین کو ضرور ملتا۔موصوف شاید یہ بھول چکے تھے کہ 2008ء میں ٹوکیو میں ہونے والی فرینڈز آف پاکستان کی میٹنگ میں پاکستان میں غربت کی شرح 40فیصدسرکاری طور پر ظاہر کی گئی تھی۔بعد میں پتا چلا کہ سروے میں غربت کا معیار 1700روپے ماہانہ یعنی 56روپے روزانہ مقرر کیا گیا تھا! یعنی غربت کی تعریف کو اس طرح سے توڑا مروڑا جائے کہ اعداد و شمار مرضی کے مطابق حاصل ہوں۔غربت کم کرنے کا یہ ’’جمہوری طریقہ کار‘‘ ماضی قریب میں بھارت میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔اس سروے سے غربت کا پتا چلے نہ چلے لیکن پاکستان میں قریب المرگ لوگوں کی تعداد بہر حال معلوم ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی 70فیصدآبادی بمشکل گزر بسر کرتے ہوئے یا تو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزر رہی ہے یا اس لکیر کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔2011-12ء میں کئے گئے ایک آزاد ادارے کے سروے کے مطابق پاکستان کی 43فیصدسے زائد آبادی انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندہ ہے۔ادارے کے مطابق 2009-10ء میں یہ شرح 38فیصدتھی۔ان اعداد و شمار سے غربت کی شرح میں خوفناک اضافے کا رجحان واضح ہو جاتا ہے۔دنیا کی دو تہائی غربت جن سات ممالک میں پلتی ہے ان میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی شامل ہے جہاں اوسطاً 1132بچے ہر روز بھوک اور قابلِ علاج بیماریوں سے مرتے ہیں۔انسانی ترقی کے اعشارئے یعنی Human Development Indexکی فہرست میں پاکستان جو 2007ء میں 135ویں نمبر پر تھا، 2012ء میں 145ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے اور اب اس کا شمار کم ترین Human Development Indexرکھنے والے ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے۔اسی طرح جمہوری دور میں کل قومی قرضہ دوگنا ہو کر 12ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔اپنے بنیادی سوشلسٹ منشور سے غداری کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے حکمران طبقات اور سامراج کی دلالی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔گزشتہ پانچ سالوں میں نجکاری، ڈی ریگولیشن اور ڈاؤن سائزنگ کی سامراجی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اس حکومت نے پاکستان کے محنت کشوں پر اتنے معاشی حملے کئے ہیں کہ لوگ مشرف دور کو بہتر خیال کرنے لگے ہیں۔لیکن آنے والی حکومتیں (جمہوری یا غیر جمہوری) جو کچھ کریں گی اس کے بعد لوگ اس دورِ حکومت کو ’’بہتر‘‘ خیال کریں گے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں صرف اور صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ ہے ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ حالات کا بدسے بدتر ہونا۔
مارکسسٹ جمہوریت کی مخالفت نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی ساتھ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی منافقت اور حدودو قیود بیان کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی معاشرہ حقیقی معنوں میں جمہوری نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار، مزدوروں اور کسانوں کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ ذاتی ملکیت کا خاتمہ کر تے ہوئے ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں دے کر، ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کرتے ہوئے ہی جمہوریت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ایک ایسا سماج ہی حقیقی طور پر جمہوری کہلوانے کا حقدار ہو گا جہاں تمام تر فیصلے محنت کشوں کی پنچائتیں جمہوری طریقے سے کریں اور اپنے نمائندوں کو کسی بھی وقت واپس بلانے کا اختیار نافذ العمل ہو۔وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے محنت کش اور نوجوان سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایسے سماج کی تعمیر کی جانب آگے بڑھیں گے۔جمہوریت آمریت کاخونخوار کھیل جو یہاں کے حکمران پچھلی چھ دہائیوں سے کھیل رہے ہیں وہ انہیں بہت مہنگا پڑے گا!

متعلقہ:

جمہوریت اور آمریت

اداریہ جدوجہد: انتخابی ناٹک

غلام میڈیا

میڈیا، عدلیہ اور سرمائے کا بیہودہ رشتہ بے نقاب

پاکستان:معاشی انہدام، سیاسی زلزلوں اور سماجی دھماکوں کی طرف گامزن