بھٹو! تیرا وعدہ کون نبھائے گا؟

پیپلز پارٹی2013ء کی انتخابی مہم کا آغاز چیئر مین ذولفقار علی بھٹو کے 34 ویں یومِ شہادت (4 اپریل)  کو کر رہی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت اور خصوصاً ان کی شہادت اس ملک کی طبقاتی کشمکش کی تاریخ میں بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی نسبت سے وہ پاکستان کی عوامی سیاست میں ایک میراث ایک روایت کا درجہ اختیار کر گئے تھے، لیکن ایسی تاریخی روایات روزروز جنم نہیں لیتیں بلکہ ان مخصوص غیر معمولی لمحات، واقعات اور حالات میں ابھرتی ہیں جب محنت کش تاریخ کے میدان میں ایک انقلابی تحریک میں طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر اترتے ہیں۔ ایسے حالات میں سماج ایک انقلابی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے اور محنت کش طبقات اس بوسیدہ استحصالی نظام اور اس کی پروردہ سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ کر ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنے کی کاوش کرتے ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت کے تاریخ پر نقش ہونے میں بھی اصل کردار 1968-69 ء کے انقلاب کا ہی تھالیکن دوسری جانب ذولفقار علی بھٹو میں بھی غیر معمولی تاریخی لمحات اور عوام کی انقلابی امنگوں کو پرکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ اسی حوالے سے جب ایک نئی پارٹی(پیپلز پارٹی) تشکیل دی گئی تو اس کا پروگرام اور پالیسی محنت کشوں کی اپنی خواہشات کی عکاسی کرتے تھے۔ صرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ہی نہیں دیا گیا تھابلکہ انقلابی سوشلزم کا واضح پروگرام ان محروم اور استحصال زدہ عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھاجو اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے بے کراں تھے۔ سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی جبر کے خلاف اعلانِ بغاوت اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے معاشرے اور ریاست کو یکسر تبدیل کردینے کے پیغام ہی نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اورمظلوم عوام کی حمایت یافتہ پارٹی بنا دیا تھا۔ ایک نوآبادیاتی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں سماجی ارتقا نہات ہی ناہموارتھا، مگر سامراجی سرمایہ داری کی وجہ سے عمومی طور پر اجتماعی عالمی ٹیکنالوجی کی سرائیت کی وجہ سے جدیدیت کے عناصر بھی سماج میں موجود تھے۔ اس متصاد کیفیت کی وجہ سے جہاں ایک طرف جدید پرولتاریہ ابھرا تھا وہاں پچھڑی ہوئی پرتوں میں ثقافتی پسماندگی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور ان کے طبقاتی کردار کی شناخت شخصیات سے منسلک کئے جانے کے مظہر نے جنم لیا۔ اس حوالے سے ذولفقار علی بھٹو 1968-69ء کی تحریک اور انقلابی ابھار کا تشخص بن گئے تھے۔
لیکن ذولفقار علی بھٹوکی 34ویں برسی کے موقع پر شروع ہونے والی اس انتخابی مہم میں پارٹی قیادت کی طرف سے دی جانے والی معاشی، اقتصادی اور سیاسی پالیسیاں 1970 ء کے انتخابات میں دیے جانے والے منشور سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ سوشلزم کی جگہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں پیش کی گئی ہیں۔ نیشنلائزیشن کی بجائے نجکاری کو فوقیت دی گئی ہے۔ تعلیم، علاج اوردوسری بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی کی بجائے ان کو کاروبار بنانے کا پروگرام دیا جارہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ذولفقار علی بھٹوکے مزار پر اس کے نام سے منسوب کیے جانے والا منشور اور انتخابی مہم کا آغاز چیئرمین کے فلسفے اور نظریات کے بالکل برعکس ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان، علاج، تعلیم اور روزگار سرمایہ دارانہ نظام میں حاصل نہیں ہوتے بلکہ چھن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے شدید بحران کے زیرِاثر یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی فلاحی مراعات چھینی جارہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام میں بھلاعوام کو سہولیات کہاں سے اور کیسے حاصل ہو سکتی ہیں؟ ہاں آج 1970 جیسے حالات نہیں ہیں۔ اس دور کی نسبت آج غربت، بیماری، بے روزگاری، محرومی اور ذلت کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ عوام کی اس حالت زارمیں سوشلزم کی ضرورت کم نہیں ہوئی بلکہ کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ نہ کر سکنا اور انقلاب کے ادھورا رہ جانے کا نتیجہ ذولفقار علی بھٹوکی ایک درندہ صفت سرمایہ دارانہ آمریت کے ہاتھوں پھانسی کی صورت میں برآمدہوا۔ چیئر مین ذولفقار علی بھٹو نے اس حقیقت کو اپنی آخری تحریر ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘میں ان الفاظ میں بیان کیاتھا:
’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو پھر سے جوڑنے کے لیے متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹو پیا (دیوانے کاخواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اورا س کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا‘‘
یہ ذلفقار علی بھٹو کی آخری وصیت ہے۔ جو لیڈر دولت اور طاقت کے زعم میں اس وصیت کو فراموش اور مسترد کر رہے ہیں وہ تاریخ کی کسوٹی پر ذولفقار علی بھٹو کی طرح سرخرو نہیں ہوں گے بلکہ تاریخ کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا انجام پائیں گے۔ ایک نئی نسل ان بربادیوں میں جوان ہوئی ہے۔ ان کو 68-69ء کے انقلاب کی تکمیل کرتے ہوئے اس نظام کا خاتمہ کر کے ہی بھٹوکے قتل کا انتقام لینا ہو گا۔ محنت کشوں کو روٹی، کپڑا اور مکان چھین کے ہی حاصل کرنا ہوگا!

متعلقہ:
پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز اور بنیادی منشور کے کلیدی نکات

بھٹو کی میراث

پنجاب میں گورنر کی تبدیلی؛ پیپلز پارٹی قیادت بد ترین موقع پرستی کا شکار

پیپلز پارٹی کا 45واں یوم تاسیس؛ پیپلز پارٹی توُ کہاں ہے؟

سیاسی بے حسی اور پاکستان پیپلز پارٹی

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام: بھیک کے ذریعے غربت میں کمی کا فلسفہ