کوبانی: لہو سے رنگے کتنے ہاتھ؟

[تحریر: لال خان]

کوبانی، ایک دن پہلے کا منظر

غزہ سے لے کر کوبانی تک، صیہونیت اور اسلامی بنیاد پرستی کی تباہ کاریاں سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحران کی علامت ہیں جو پورے خطے کو بربادی، اذیت اور بربریت کی آگ میں جھونکتا چلا جارہا ہے۔ ۔ یہ انتشار ہر گزرتے دن کے ساتھ سامراج کے دوہرے معیاروں اور منافقت کو بھی بے نقاب کرتا چلا جارہا ہے۔ شام اور عراق میں ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ (سابقہ ISIS) نامی وحشی بنیاد پرست گروہ کا ابھار ثابت کرتا ہے کہ اس متروک نظام کی حدود میں رہتے ہوئے انسانی سماج آگے بڑھنے کی بجائے ماضی بعید کی نفسیات، عقائد اور تعصبات میں غرق ہورہا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت ترکی کے بارڈر پر واقع شام کے چھوٹے سے قصبے ’’کوبانی‘‘ پر جمی ہوئی ہیں جو اس وقت اسلامک اسٹیٹ کے حملے کی زد میں ہے۔ قصبے میں موجود YPG (پیپلز پروٹیکشن یونٹس، شام میں بائیں بازو کی ڈیموکریٹک یونین پارٹی کا مسلح ونگ) کے کرد جنگجو، جن میں بڑی تعداد خواتین کی بھی شامل ہے، گزشتہ 24 دنوں سے ہلکے ہتھیاروں اور محدود وسائل کے ساتھ اسلامک اسٹیٹ کی وحشت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ کرد ملیشیا کے پاس اسلحہ ختم ہورہا ہے، صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 500 ہو چکی ہے۔ کرد جنگجوؤں کے لئے خوراک اور دوسرا امدادی سامان لانے کے لئے ترکی جانے والے ہزاروں بے بس افراد کو طیب اردگان کی رجعتی حکومت نے واپسی پر کوبانی میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ کوبانی پر اسلامک اسٹیٹ کے مکمل قبضے کے صورت میں جس پیمانے پر قتل عام ہوگا، فی الوقت اس کا تصور بھی محال ہے اور اس کی براہ راست ذمہ داری طیب اردگان کی عوام دشمن حکومت پر عائد ہو گی۔
یورپ سمیت پوری دنیا میں کرد عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ترک حکومت اور امریکی سامراج کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ خود ترکی میں طیب اردگان حکومت کے خلاف ہونے والے پر تشدد مظاہروں میں اب تک 20 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مظاہرین ترک حکومت سے بارڈر کھولنے اور YPG کے کرد جنگجوؤں کے لئے اسلحہ، خوراک اور امدادی سامان کوبانی بھیجنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ طیب اردگان حکومت کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اردگان کوبانی میں اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں YPG کے کچلے جانے کا متمنی ہے اور اس ضمن میں ہزاروں بے گناہوں کی بَلی چڑھانے کو بھی تیار ہے تاکہ ترک ریاست کو آقا نہ ماننے والے کرد محنت کشوں اور نوجوانوں کو ’’سبق‘‘ سکھایا جاسکے۔

YPG کا ایک تہائی حصہ خواتین جنگجوئوں پر مشتمل ہے

ترک ریاست سے کوبانی میں مداخلت اور کرد عوام کی مدد کی اپیل بالکل بے سود ہے۔ اردگان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ یکجا اور آزاد کردستان پر اسلامک اسٹیٹ کے پھیلاؤ کو ترجیح دے گا۔ اردگان نے بیان دیا ہے کہ اس کی نظر میں اسلامک اسٹیٹ اور PKK (بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی کردستان ورکرز پارٹی) میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذاترک پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کی جانے والی مبہم سی قرار دار میں جن ’’دہشت گرد‘‘ عناصر کے خلاف ترک فوج کے استعمال کی منظوری دی گئی ہے، اس سے اسلاملک اسٹیٹ کی بجائے کرد مسلح ملیشیا ہی مراد ہے۔
’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ محنت کش عوام اور بائیں بازو کے ہر رجحان کی کھلی دشمن ہے اور تہذیب و ثقافت کا ہر نشان مٹا دینے کے درپے ہے۔ یہ بربریت ان جہادی گروہوں میں سے برآمد ہوئی ہے جنہیں امریکی سامراج اور اس کے علاقائی چیلوں نے بشارالاسد کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے لئے اسلحہ، ٹریننگ اور مالی امداد دے کر پروان چڑھایا ہے۔ اس مکروہ چالبازی کے نتائج توقعات کے عین مطابق برآمد ہوئے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ میں منظم جہادی گروہ اپنے آقاؤں کے قابو سے باہر ہو کر درد سر بن گئے ہیں اوریہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ آج ’’طالبان‘‘ کہلانے اور منشیات کے کالے دھن پر پلنے والے درجنوں مسلح گروہوں کی داغ بیل امریکی سی آئی اے نے ہی افغانستان میں ’’کمیونزم‘‘ کے خلاف ڈالر جہاد کے دوران ڈالی تھی۔ اسامہ بن لادن 1980ء کی دہائی میں سی آئی اے کے باقاعدہ پے رول پر تھا!

اسلامک اسٹیٹ کی بھاری عسکری قوت کے باوجود کرد جنگجو ابھی تک مزاحمت کر رہے ہیں

امریکی اور یورپی سامراج کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنی لڑائی میں YPG یا PKK کے بطور مہرہ استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن وہ کوبانی کے چند ہزار کردوں کے لئے نیٹو کے ایک ممبر (ترکی) کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نہ صرف اردگان کے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ’’دوستانہ تعلقات‘‘بدستور برقرار ہیں بلکہ اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی امیر خلیجی ممالک بھی ’’ممنوعہ‘‘ اور ’’برے‘‘ جہادی گروہوں کی مالی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی اور دوسرے ’’اتحادی ممالک‘‘ کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کی کھلی حمایت پر نام نہاد ’’انٹرنیشنل کمیونٹی‘‘ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ عبداللہ اوجالان اور PKK کے دوسرے رہنماؤں کی اردگان سے متعلق خوش فہمی کو وقت نے انتہا کی حماقت ثابت کیا ہے۔ اردگان ترکی کی متعلق العنان سرمایہ دارانہ ریاست کا مکار اور بے رحم سیاسی نمائندہ ہے جو کہ عراقی کردستان کے تیل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور شمالی عراق میں ترکی کی کٹھ پتلی کرد ریاست قائم کرنے کے لئے وہاں کے کرد رہنماؤں سے ’’خوشگوار تعلقات‘‘ استوار کرنے کا ڈھونگ رچاتا رہا ہے۔
حالات واقعات نے ’’جمہوریت‘‘ اور منافقانہ سفارت میں لپٹے ترک ریاست کے جبر کو خود ہی بے نقاب کر دیا ہے۔ فی الوقت اردگان اور اس کے حواریوں کی پوری خواہش ہے کہ YPG کی مزاحمت کو کچل کر اسلامک اسٹیٹ جلد از جلد کوبانی پر قابض ہو جائے۔ اس کے بعد اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں سویلین آبادی کے قتل عام پر سامراجی آقا مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے اور کارپوریٹ میڈیا خوب شور شرابا کرے گا جسے جواز بناتے ہوئے ترک فوج کوبانی اور گرد و نواح پر قبضہ کرے گی اور ترکی کی سرپرستی میں ’’بفر زون‘‘ قائم کر دیا جائے گا۔ اس بفر زون کا سیدھا مطلب شام کے وسیع علاقے پر ترکی کا قبضہ ہوگا۔
واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن کے ایوانوں میں بیٹھے منافقین اعظم پہلے ہی ’’بفر زون‘‘ کے قیام پر ’’غورو فکر‘‘ کر رہے ہیں۔ ایسا بفر زون یقیناًشام کی قومی خود مختیاری کی کھلی خلاف ورزی ہو گی لیکن عراق اور افغانستان سمیت ملک کے ملک برباد کردینے والوں کو ایسی چھوٹی موٹی خلاف ورزی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مغربی سامراج ترکی کے سامنے ہڈی پھینک کر وہ حاصل کرے گا جو وہ چاہتا ہے: شام کی سرزمین پر اپنے استعمال کے لئے ترکی کی فوجیں۔ ترک فوج شامی یا کرد آبادی کو ’’آزاد‘‘ کروانے نہیں جائے گی بلکہ اس کا مقصد کردعلاقوں کی نیم خودمختیاری اور علاقائی انتظامیہ کو نیست و نابود کرنا ہو گا۔ شام میں تین سال کی خونریز خانہ جنگی سے برباد عوام کے لئے جبر کا ایک نیا باب شروع ہو جائے گا۔
شام کی طرف اردگان اور اس کے بلوائیوں کا جارحانہ رویہ نہ صرف شام بلکہ ترکی کے عوام کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ ترکی میں ایک بار پھر سر اٹھانے والے حکومت مخالف مظاہروں میں مستقبل کی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اردگان کے سامراجی عزائم اور انتشار سے دوچار ہمسایہ ملک میں براہ راست مداخلت کے نتیجے میں شام کی خانہ جنگی ترکی میں باآسانی سرایت کر سکتی ہے۔ مزید برآں کوبانی اور شام کے دوسرے کرد علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ممکنہ قتل و غارت گری کا رد عمل ترکی میں کرد عوام کی دھماکہ خیز بغاوت کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔
تین ہفتوں کی لڑائی کے بعد امریکی جہازوں نے اگرچہ کوبانی کے گرد و نواح میں اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا ہے لیکن یہ بمباری اپنی اساس اور اثرات میں ’’بے ضرر‘‘ قسم کی ہے۔ امریکی دونوں اطراف کے لڑنے اور مرنے کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ کوبانی پر اسلامک اسٹیٹ کے قبضے کو روکنا امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کا حصہ نہیں ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ فلپ ہیمنڈ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیری نے کہا ہے کہ ’’کوبانی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یقیناًخوفناک ہے۔ ۔ ۔ (لیکن بعض اوقات) اسٹریٹجک مقاصد کو سمجھتے ہوئے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔‘‘

کرد عوام کی قومی آزادی کی جدوجہد میں سامراجیوں سے کسی امداد کی امید لگانا سراسر بیوقوفی ہے۔ سامراج نے کردوں کو ہمیشہ اپنے مکروہ عزائم کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ قتل و غارت گری اور ریاستی جبر میں ماہر ترک ریاست اور اشرافیہ سے ’’مذاکرات‘‘ سامراجی امداد سے بھی بڑا دھوکہ ہیں۔ کرد عوام کو اپنے حقوق اور قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنے زور بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔ سامراج اور جابر ریاستوں کے خلاف اس لڑائی میں ان کے فطری اور حقیقی اتحادی ترکی اور دنیا بھر کے مظلوم اور محنت کش عوام ہیں۔ صرف کرد ہی طیب اردگان اور اس کے گینگ سے تنگ نہیں ہیں بلکہ پچھلے سال موسم گرما میں اردگان حکومت کے خلاف شروع ہونے والی ملک گیراحتجاجی تحریک اتار چڑھاؤ کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ ترکی میں قومی مسئلے کا حل سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔ اس ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریک کا نیاابھار پورے خطے پر اپنے اثرات مرتب کرے گا۔ صرف سوشلسٹ انقلاب کے راستے پر چل کر ہی سامراج کی درندگی، طبقاتی استحصال، قومی بنیادوں پر استبداد اور ریاستی جبر سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

متعلقہ:

عراق: وحشت کے ساتھ وحشت کا تصادم

’’یورپی جہادی‘‘

عراق: کالی آندھی کا اندھیر!

ایک سکے کے دو رخ