بلوچستان: قومی آزادی کی جدوجہد میں مزدوروں کا قتل عام؟

’’چی گویرا کی تصویر کے سٹیکر لگانے والے اور اسکو اپنا ہیرو ماننے والے بلوچ چھاپہ ماروں کوعلم ہونا چاہئے کہ ارجنٹینا کا یہ مارکسسٹ پہلے کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرتا رہا جو اسکا مادر وطن نہیں تھا۔ ۔ ۔ وہ بین الاقومیت پسند مارکسسٹ تھا نہ کہ تنگ نظر اور رجعتی قوم پرست‘‘

[تحریر: قمرالزماں خاں]
6 اگست منگل کی رات تقریباََ دس بجے کوئٹہ سے 44 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ’’مچھ‘‘ شہر سے نکلتے ہی دو تین بند ہوٹلوں کے سامنے ’’ایف سی‘‘ کی مبینہ چیک پوسٹ پر صادق آباد جانے والی چھ اور راجن پور جانے والی چار بسوں میں سے ستائیس مزدوروں کو نکالا گیا اور پھر چھوٹے ٹرکوں پر ڈال کرقریبی وادی بولان کہلانے والے پہاڑوں پرلے جایا گیا۔ شناختی کارڈ دیکھ کر ان میں سے تیرہ مزدوروں کو قتل کردیا گیا اور باقی افراد کو ان پانچ ایف سی کے جوانوں سمیت چھوڑ دیا گیا جن کے ذریعے بسوں کو روکا گیا تھا۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک ترجمان’’میراک بلوچ‘‘ کے مطابق یہ تیرہ پاکستان کی مسلح افواج کے ملازمین تھے جن کی شناخت کرکے قتل کردیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مقتولین کا کسی طور بھی کسی مسلح ادارے یا ریاستی ایجنسی یا ادارے کے ساتھ تعلق نہیں تھا۔ صادق آباد کی بستی ’’پنڈت دی دڑی‘‘ کارہائشی اور کچی آبادیوں میںآلو پیاز کی رہڑی لگانے والے اللہ دتہ کا ساڑھے اٹھارہ سالہ بیٹا محمد احمد جو اپنے پیچھے چھ ماہ کی یتیم بچی، جواں سالہ بیوہ اور غربت سے چور چور خاندن چھوڑ گیا، محمد احمد کایتیم کزن اور ایک مقامی سکول میں ’’مائی‘‘ کے طور پر کام کرنے والی ادھیڑ عمر صفیہ کا بائیس سالہ بیٹا محمد شکیل اورانکا فیروزہ لیاقت پور کا ایک ساتھی محمد بخش رنگ ساز مزدور تھے، جبکہ دو شیر خوار بچوں اور حاملہ بیوہ کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ جانے والا احمد پورلمہ کا پچیس سالہ محمد نعیم درزی کا کام کرتا تھا، جمال دین والی کا رہائشی بائیس سالہ شوکت علی الیکڑیشن تھا، اسی طرح دیگر مقتولین بھی مختلف قسم کی مزدوری کرتے تھے۔ متاثرہ خاندان اس قدر مفلس تھے کہ ان کے پاس اپنے پیاروں کی لاشیں لانے کے لئے ایمبولینس کا کرایہ تک نہ تھا اور اس مقصد کے لئے محلوں میں چندہ اکٹھا کرنا پڑا۔

 

ہلاک ہونے والے محنت کش

اس قتل عام کے لیے ’’پنجابی مزدوروں کا قتل‘‘ جیسی اصطلاح کا استعمال کیا جانا حیران کن ہے۔ یہ تو پنجابی طالبان کے آہنگ میں بیہودہ تکرارکی گئی ہے۔ کیسے مسخ کیا جاتا ہے طبقات کا تشخص! کوئی مزدورپنجابی، سندھی، بلوچ، پختون، پاکستانی، مسلمان، شیعہ، سنی یا کالا گورا کیسے ہوسکتا ہے؟ محنت کش تو خود اپنے وطن میں جلا وطن ہوتے ہیں، ان کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ مگر یہ بنا دیا گیا ہے، آخر کیوں اور اسکے مقاصد کیا ہیں؟ یہ سوال اتنا ہی اہم ہے اور اسی طرح سے نظر انداز کیا جارہا ہے جس طرح خود بلوچستان کا مسئلہ! کیا بلوچستان میں لڑائی محض پنجابیوں اور بلوچوں کی ہے؟ تو پھر 7 اگست کو مستونگ میں دو بلوچ بچوں اورخاتون سمیت چار بلوچوں کو کیوں بم دھماکہ کر کے مارا گیا؟ ہزارہ کمیونٹی پر متعدد حملے اور سینکڑوں کی تعداد میں قتل وغارت گری، نماز جنازوں پر خود کش حملے؟ اس میں ملوث ’’دہشت گردوں ‘‘ کے کیا عزائم ہیں؟ بندوق اور موسیقی کے تضادکے حامل قوم پرست گلوکار کچکول بہار کو کس نے مارا؟ مسخ شدہ لاشیں کون گرا رہا ہے اور بلوچ قوم پرست نوجوان غائب ہوکر کس کی تحویل میں جارہے؟ کیا ریاستی پشت پناہی کے بغیر اور پاکستانی فوج اور مختلف خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر یہ دہشت گرد اپنی کاروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں؟کیا طالبان اور دیگر رجعتی قوتوں کو بنانے والی اور پالنے والی پاکستانی ریاست اور سامراجی قوتیں نہیں ہے؟ کیا پاکستانی ریاست نے ہمیشہ قومی آزادی کی جدوجہد کو خون میں ڈبونے کی کوشش نہیں کی اور اس کے لیے قتل عام یا اجتماعی عصمت دری جیسے گھناؤنے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے؟ کیا قومی آزادی کی تحریک کو مسخ کرنے کے لیے مخصوص عناصر کو اس میں دھکیلا نہیں جا سکتا؟ اس کے ساتھ ضروری سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں اس وقت فوجی آپریشن کے لئے کون سی بیرونی طاقت بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے؟

تصویر کو بڑا کرنے کے لئے اس پر کلک کریں

اس ’’دوست ملک‘‘، جس کی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی کا غلغلہ مچایا جاتا ہے، کے تجارتی، کاروباری، راہ داری اوراقتصادی مفادات کے ساتھ ساتھ علاقائی مفادات اورحکمت عملی کاتقاضاہے کہ افغانستان کے ساتھ کی راہ داریوں پر اسکی گرفت ہو۔ اس طرح اس کا نہ صرف تجارت میں منافع کئی گنا بڑھ جائے گا بلکہ دوسری طرف افغانستان کی تانبے کی کان اور دوسری معدنیات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سونے، تانبے، کرومائیٹ، یورینیم، تیل، گیس اور متعددقسم کی معدنیات، تعمیرات اور ٹھیکوں کا کام اس کے سرمایہ داروں کو ملے جس سے وہ اربوں ڈالر کا فائدہ حاصل کرے۔ اس ضمن میں اس کو قریبی ایرانی ریاست کی حمایت حاصل ہے۔ ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے اس سامراجی طاقت کو ’’امن و امان‘‘ چاہئے، قومی جدوجہد کی مزاحمت کے خاتمے کے لئے پاکستانی ریاست کا ساتھ چاہئے جو اسے مل رہا ہے۔ دوسری طرف مملکت خداداد پاکستان کے گاڈ فادر امریکہ بہادر اور اسکے حلیف عرب ممالک جو ہمارے حکمرانوں کے لیے مذہبی مقامات کی طرح مقدس ہیں، ہمسایہ ’’ہمالیائی سامراج‘‘ کا راستہ روک رہے ہیں کیونکہ انکے افغانستان، ایران، بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح خلیج میں گہرے مفادات پنہاں ہیں اور وہ کسی طور نہیں چاہتے کہ یہاں چین اور ایران کا اقتصادی (بالآخر سیاسی) گٹھ جوڑ بنے۔ اس معاملے میں ڈالر اور ریال پانے والے ملکی فرقہ ورانہ ’’لشکر‘‘ اور ا نکی مدد گار تنظیمیں بلوچستان میں خانہ جنگی کا سماں پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اس قتل عام کو شیعہ سنی لڑائی بنا کر پیش کیا جارہا ہے جس کے لئے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ پاکستانی سماج میں اس وقت ایسی کوئی نفرت موجود نہیں کہ جس میں کوئی عام سنی کسی شیعہ کو قتل کرنے کے درپے ہو یا کوئی شیعہ سنیوں کے بارے میں ایسی سوچ رکھتا ہو۔ دوسری طرف وادی بولان جیسے ’’پنجابی مزدوروں کے قتل‘‘ کے واقعات سے نہ صرف بلوچ قومی آزادی کی لڑائی کے طبقاتی تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے بلکہ مظلوم قوم کے زیر دست طبقے کے لئے درکار وہ حمایت جو حاکم قوم کے نچلے طبقے سے حاصل کرنا ضروری ہے اور کی جاسکتی ہے، کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے قتل عام سے، جن میں مرنے والے درزی، رنگ ساز اور غیر ہنر مند مزدور ہوں، سے قومی آزادی کی جدوجہد کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ظالم قوم کا نچلا طبقہ اپنے حکمران طبقے کے جبر کا پہلا شکار ہوتا ہے جو خود اس استحصال، بربریت اور لوٹ مارسے نجات چاہتا ہے ان کو طبقاتی بنیادوں پر مظلوم قوم کی لڑائی میں اپنے ساتھ ملایا جاسکتا ہے مگر گولی مار کر نہیں بلکہ انکے سامنے طبقاتی نجات کا پروگرام رکھ کر۔ قومی استحصال سے نجات کی جدوجہد کرنے والے اگر طبقاتی پروگرام کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر وہ خواہ علیحدہ مملکت ہی کیوں نہ حاصل کرلیں اس قوم کا اکثریتی محنت کش، غریب اور پچھڑا ہو طبقہ کبھی غربت، بے چارگی، جہالت، پسماندگی، بیماریوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے استحصال سے نجات نہیں حاصل کرسکتا۔ بالا دست قوم کو طبقاتی تقسیم سے ماورا قرار دے کر اسکے محنت کشوں کا قتل عام قابل مذمت ہے اور اس سے مظلوم قوم کے استحصال کی جدوجہد زیادہ پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔

مقتول کچکول بہار

اس امر سے قوم پرست دانشور اور چھاپہ مار آگاہ ہوں نہ ہوں لیکن بالا دست ریاست اور اسکے تھنک ٹینک ضرور آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ بات خارج ازامکان نہیں کہ ’’پنجابی مزدور‘‘ کی طرح ڈالنے اور ان کو قتل کرنے جیسے المناک واقعات کے پیچھے ’’ریاستی قوتیں‘‘ کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ اس قسم کا قتل عام قومی تحریک کا تشخص تباہ کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں اور عوامی حمایت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں، تنہائی کا شکار ہوکر ریاستی حملوں کا ترنوالہ بنتے ہیں۔
ایران کی پاکستان میں بڑھی ہوئی مداخلت (جس میں اس نے دولت کی بوریاں کھول کر ملک بھر میں ایک مخصوص تنظیم بنا کر الیکشن لڑا اور بلوچستان میں ایک فریق کے طور پر اپنا اظہار کرنا چاہا) کے رد عمل میں ریاست کی پروردہ اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کے فنڈز پر چلنے والی فرقہ پرست عسکری قوت لشکر جھنگوی (جس کا بڑا مرکز مستونگ میں بتایا جاتاہے) نے ہزارہ قبائل اور شیعہ کمیونٹی کو خون میں نہلادیا ہے۔
بلوچستان میں دو دیو ہیکل سامراجی قوتوں کی لڑائی، انکے حلیف ممالک کی مداخلت، ریاستی اداروں کی سفاکانہ پالیسیوں کی موجودگی کے باوجود بلوچستان کے محکوموں کی اپنے قومی حقوق کی جدوجہد اہم نتائج اخذ کرتے ہوئے بائیں بازو کے درست نظریات کی جانب مڑ رہی ہے اور نوجوانوں میں انقلابی مارکسزم کے نظریے، طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لیے پیاس بڑھتی جا رہی ہے جس کا اظہار ان نوجوانوں کے درمیان ہونے والی مختلف نظریاتی بحثوں اور مارکسی اساتذہ کی تحریروں کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ بالشویک طریقہ کار اور قومی سوال کے متعلق لینن اسٹ مؤقف ہی قومی استحصال سے نجات کا واحد رستہ ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو تنگ نظر قوم پرستی کی کھائی میں گرتے جارہے ہیں اور ان میں وسیع تر عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات اور اثر و رسوخ کا حصول حاوی ہوتا جا رہاہے، جس کے لیے ایک یا دوسری خفیہ ایجنسی یا سامراجی طاقت کا آلہ کار بننے میں عار محسوس نہیں کی جاتی۔ غلط نظریات اور غلط طریقہ کار کی وجہ سے قومی جدوجہد میں ایک طرف جرائم پیشہ، راہزنوں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کی سرائیت ہوچکی ہے تو دوسری طرف کئی گروپ، ریاستی اعانت میں ایسی کاروائیاں کرکے قومی حقوق کی جدوجہد کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے اسکو سبوتاژ کررہے ہیں۔ منڈی کی معیشت کے کردار اور مقاصد اور بین الاقوامی اجارہ داریوں کے رسوخ اور طریقہ کار کو سمجھنا، بالادست قوم کے حکمران اور محنت کش طبقے کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے محنت کش طبقے سے یکجہتی اور مددکی اپیل کرنا، قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی نجات کے پروگرام سے جوڑنا اور ریاستی جبر کے خلاف مسلح جنگ کی بجائے سیاسی جدوجہد کا استوار کیا جاناہی وہ بنیادی نقاط ہیں جن کے بغیر بلوچستان کے محکوم اور استحصال زدہ عوام کو نہ آزادی دلوائی جاسکتی ہے اور نہ ہی جبر اور لوٹ مارکے اس نظام میں وہ بنیادی حقوق دلوائے جاسکتے ہیں جو ان کا ہر حال میں حق ہیں۔ پاکستانی ریاست کے سرمایہ دارانہ اور طبقاتی کرداراورسامراجی اطاعت گزاری کی وضاحت کیے بغیر کی جانے والی لڑائی کسی ایسے انجام سے دوچار نہیں ہوسکتی جو صدیوں کے غلام بلوچ عوام کو آزاد اورخوشحال بنا سکے۔
چی گویرا کی تصویر کے سٹیکر لگانے والے اور اسکو اپنا ہیرو ماننے والے بلوچ چھاپہ ماروں کوعلم ہونا چاہئے کہ ارجنٹینا کا یہ مارکسسٹ پہلے کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرتا رہا جو اسکا مادر وطن نہیں تھا اور پھر افریقی ملک کانگو میں جدوجہد آزادی میں شریک ہونے کے بعد بر اعظم لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا کی معاشی آزادی کی جنگ لڑتا ہوا شہید ہوا تھا۔ وہ بین الاقومیت پسند مارکسسٹ تھا نہ کہ تنگ نظر اور رجعتی قوم پرست۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور برصغیر کی تمام اقوام کے محنت کشوں کو مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کے لئے جن انقلابی نظریات کی ضرورت ہے ان کے حصول کی راہ میں حائل قومی شاونزم، تنگ نظری، فرقہ واریت اور رجعتیت کاخاتمہ کرکے پنجابی، سرائیکی، سندھی، کشمیری، پختون،  بلوچ اور دیگر ہمہ قسم کی اقوم کے محنت کشوں کا طبقاتی اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو خطے کی غالب اکثریت کو استحصال کرنے والی اقلیت کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی طرف بڑھا سکتی ہے۔ صرف منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرکے ہی ایسی فضا تیار کی جاسکتی ہے جہاں معاشی، سماجی، قومی، ثقافتی، فرقہ ورانہ، صنفی، علاقائی اور دیگر قسموں کے استحصال کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اوریہاں کے وسائل کو یہاں کے محنت کشوں کے مقدر بدلنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکے۔

متعلقہ:
حصہ اول: چے گویراکون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
بلوچستان: ظلمتوں میں انقلاب بھی سلگ رہا ہے۔ ۔ ۔
ویڈیو: بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل۔ ۔ ۔ ذمہ دار کون؟
بلوچستان کی بیگانگی