سانحہ بلدیہ ٹاؤن: لہو سستا ہے مزدور کا!

| تحریر: قمرالزماں خاں |
11 ستمبر 2012ء کو علی انٹرپرائیزز بلدیہ ٹاؤن کراچی میں آتش زدگی کا ہولناک واقعہ پیش آیا۔ برآمدی غرض سے بنائے جانے والے قیمتی گارمنٹس کی اس فیکٹری میں آگ سرعت سے ہر سو پھیل گئی۔ تنخواہوں کی چلت ہورہی تھی، کل پندرہ سو مزدوروں میں سے فیکٹری کے اندر اور باہر تقریباََ چارسو مزدورموجودتھے۔ آگ لگنے سے بھگڈرمچ گئی مگر دروازے باہر سے تالا لگا کر بند کئے گئے تھے۔ آگ بجھانے کا فیکٹری کے اندر نہ تو کوئی موثر نظام تھا اور نہ ہی آگ کی اطلاع پاکر فائیر برگیڈ کی گاڑیاں فوراََ پہنچیں۔ انہیں آنے میں 75 سے 90 منٹ لگے۔ تب تک عمارت کے اندر پھنس جانے والے تمام مزدورراکھ کا ڈھیر بن چکے تھے۔ فائیر برگیڈ کی گاڑیوں نے 289 مزدوروں کی جلی ہوئی ہڈیوں، راکھ اور انکے خاندانوں کے مستقبل اور امیدوں پر پانی بہاکر اپنا ’’فرض‘‘ پورا کردیا۔
شرمناک حد تک بے حسی کی شہرت رکھنے والی صوبائی اور قومی حکومتیں اور سٹیک ہولڈرز ’’حرکت‘‘ میں آگئے۔ واقعہ پر غم اور صدمے کا اظہار کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے مزدوروں کے بچھے کچھے لواحقین، جن کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیاتھاانہیں مالی امداد کا جھانسہ دیکر انکے پیاروں کے لہو کو ارزاں کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی۔ بیانات پہ بیانات داغے گئے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے تو تین دن کے سوگ کا اعلان کرد یااوراپنے دفاتر پر سیاہ پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے لندن سے اپنے بیان میں حکومت کو بلدیہ ٹاؤن اور اسی روز بندروڈ لاہور کی پلاسٹک فیکٹری میں آتش زدگی کے ان خونی حادثات کی فوری تحقیقات کرانے اور ذمہ داران کو بلا تاخیر سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ ایم کیوایم کے گورنر سندھ نے فوری طورپر علی انٹرپرائیزز کے مالکان عبدالعزیز اور شاہد بھیلا پر سارا ملبہ ڈال کرانکے خلاف مقدمہ درج کرنے اور انکانام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالنے کا عندیہ دے دیا۔
دو چار دن بیانات کی تندی جاری رہی، اسی دوران سندھ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لے لیا۔ ایک تحقیقاتی ٹربیونل ریٹائیرڈ جسسٹس زاہد قربان علوی کی سربراہی میں قائم کیا گیا جس میں انکے ساتھ خلیل الرحمان شیخ شریک تھے۔ اس ٹربیونل نے تین ماہ ’’خوب محنت‘‘ کی اور اپنی رپورٹ میں وہی سارے ’’انکشافات‘‘ کردئے جو کبھی بھی مخفی نہیں تھے۔ مثلاً فیکٹری 1934ء کے ایکٹ میں موجود قوائدوضوابط کے خلاف بنی تھی، عمارت فیکٹری ایکٹ میں بیان کردہ اصولوں کے خلاف تعمیر کی گئی تھی، بلڈنگ میں آتشزدگی کی صورت میں نکلنے کے راستے موجود نہیں تھے، ناقص حفاظتی اقدامات اورآگ بجھانے کا سامان اور پانی نہیں تھا، سول ڈیفنس کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور’’ مردہ ‘‘محکمہ لیبر کو بھی کوسا گیا، آخر میں اس ٹربیونل نے سارا ملبہ شارٹ سرکٹ پر ڈال کر اس خوفناک آتشزدگی کے معاملے کو محض ایک حادثہ قراردے دیا۔ یوں 289 ہلاکتوں اور بلکتے خاندانوں کو’’ قدرت کی ستم ظریفی ‘‘کے روبرو بے آسرا چھوڑ دیاگیا۔ اسی دوران متاثرہ خاندانوں کو لاش کی شناخت، ڈی این اے اور ’’امداد‘‘ کے نام پر خوب ذلیل ورسوا کیاگیا۔ ابھی تک کچھ خاندان اپنے پیاروں کی معیتیں ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔
دو سال پانچ ماہ کے بعد اچانک سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز اور مشترکہ تحقیقاتی ادارے کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا خونی واقعہ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے پیش آیا۔ علی انٹرپرائیزز کے مالکان نے متحدہ قومی موومنٹ کے ایک مشہوراور اعلیٰ عہدے دار کی طرف سے بیس کروڑ روپے بھتہ دینے کے حکم کی تعمیل نہ کی جس کی وجہ سے فیکٹری کو مزدوروں سمیت نذر آتش کردیا گیا۔ علی انٹرپرائیزز کے مالکان ایم کیو ایم کے زبردست حامی تھے اور اپنے کاربار کو قائم رکھنے کے عوض پارٹی کو باقاعدگی سے’’فنڈ‘‘ دیا کرتے تھے۔ مزید بھتے کے تقاضے کی شکایت انہوں نے متعلقہ سیکٹر انچارج سے کی جس نے نائن زیرو میں اس کیس کی وکالت کی اور اپنے کلائنٹ کا بھتہ بڑھائے جانے پر احتجاج کیا۔ مگریہ تو تکرار نہ صرف رائیگاں گئی بلکہ ’’اعلیٰ ذمہ داران‘‘ حکم عدولی پر مشتعل ہوگئے۔ بعدازاں بیس کروڑ بھتے کا مطالبہ ’’کراچی تنظیمی کمیٹی‘‘ اور پارٹی کا متفقہ مطالبہ بن گیا اور اسکو ’’حفاظتی فنڈ‘‘ قراردیدیاگیا۔ انکار پرسانحہ بلدیہ ٹاؤن برپا کردیا گیا۔ ستم یہ کہ بھتہ کی طلبی اور انکار پر علی انٹرپرائیزز کی آتش زدگی کی خبریں واقعے کے فوراً بعد بھی زیر گردش رہیں اور مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے تو باقاعدہ تفصیل کے ساتھ یہ الزام عائد کیا مگر بات ’’آئی گئی‘‘ ہو گئی۔ علی انٹرپرائیزز کے مالکان کو گرفتار کرادیا گیا اورمشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان کی رہائی مزید 15 کروڑ روپے کے بھتے کی ادائیگی پر عمل میں آئی۔ یاد رہے کہ انہی دنوں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے دورہ کراچی میں چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے علی انٹرپرائیزز کے مالکان کے خلاف درج قتل کے مقدمات ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا تاکہ کاروباری لوگوں کا ’’اعتماد‘‘ بحال ہوسکے!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ جے آئی ٹی رپورٹ اگر سچ ہے تو جسٹس زاہد قربان علوی کی رپورٹ کن بنیادوں پر مرتب کی گئی تھی؟ فیکٹری مالکان پر عائد فردجرم کے خاتمے سے بری کرانے تک پوری ریاست کے ڈھانچے ملوث ہیں، متذکرہ بالا تمام اقدامات ایک دو یا چند افراد تو نہیں کرسکتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر عدلیہ اور معافی تلافی کروانے والوں کا باہمی ربط ثابت کرتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ لمبے عرصے تک جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ منظر عام پر کیوں نہیں لائی گئی؟ اور اب کیوں منظر عام پر آئی ہے یا لائی گئی ہے؟ سانحہ پشاور سے کئی گنا بڑے سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر ریاست کے کلیدی اداروں نے وہ تیز طراری اس وقت کیوں نہیں دکھائی جب انکو تو پتا چل گیا تھا 289 مزدوروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت زندہ جلایا گیا ہے؟ مزدوروں کے خلاف اتنی بڑی جارحیت کرنے والے فاشسٹوں کے خلاف دوسال اور پانچ ماہ تک چپ کیوں سادھے رکھی گئی؟
اس خونی واقعے کے نئے رخ کو تاخیر کی ’’زنبیل‘‘ سے نکال کر منظرعام پر لانے کے پیچھے یقیناًحکمران طبقے کی داخلی چپقلش کارفرما ہے۔ داعش نے عراق میں ابھی تک صرف ایک انسان کو زندہ جلایا ہے اور اس پر پوری دنیا میں کہرام مچ گیا ہے مگر پاکستان میں بھتے کی غرض سے ایم کیو ایم نے بچوں اور خواتین سمیت 289 انسانوں کو زندہ جلادیا گیا تو کو ئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ کوئی آل پارٹی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی، کوئی ’’قومی ایکشن پلان‘‘ نہیں بنا، حکمرانوں کے سروں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صرف اس لئے کہ مرنے والے مزدورتھے؟بے بس اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب، جن کے جینے اور مرنے کا نوٹس نہیں لیا جاتا؟ اور پھر الطاف حسین کے نام پر یونیورسٹیاں بنانے والے ملک کے سب سے بڑے ’’مخیر‘‘ شخص کو کس فہرست میں شامل کیا جائے جس نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے لواحقین کے لئے بھی ’’معاوضے‘‘ کا اعلان کیا تھا؟
ایک طبقاتی سماج میں حکمران طبقے کا محنت کشوں کی طرف رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ سرمایہ دار کے لئے مزدور کی حیثیت پیداوار کے اوزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ محنت کش طبقہ کتنی بے چارگی، بے بسی اور بیگانگی کا شکار ہے۔ کبھی انکے بچے تھرمیں بھوک اور بیماریوں سے مرتے ہیں، کبھی کسی کو حق مانگنے کی پاداش میں ’’بلاسفیمی‘‘ کا الزام لگا کر زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ کبھی بھوک سے بلکتے بچوں کی ماؤں کے پاس اجتماعی خود کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنے جسم وجان سے زیادہ عزیز بچوں کی اذیت نہیں دیکھ سکتیں۔ بوری بند لاشیں ہوں کہ سیاسی کارکنوں کی نہ رکنے والی اموات اور مسخ شدہ لاشیں، ان تمام کا تعلق محروم طبقات سے ہی نکلتا ہے۔ ساری اذیتیں، عقوبت خانے، جیلیں اور مصیبتیں غریبوں کے حصے آتی ہیں۔ پھرحادثات کی نوعیت جتنی بھی مختلف ہو، مرنے والوں کی اکثریت غریبوں اور محنت کشوں کی ہوتی ہے۔ سیلابوں، زلزلوں، روڈ ایکسیڈنٹ، وباؤں، بیماریوں اوردھشت گردی میں کتنے سرمایہ دار، جاگیر دار، سیاستدان یا بیوروکریٹ مرتے ہیں؟
وجہ بہت سادہ اور سیدھی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے یا برابر رہنے والی آبادی ہر قسم کے تحفظ، ضروریات، سہولیات اور معقول انفراسٹرکچر سے محروم ہے۔ بنیادی غذائی ضروریات پر مبنی خوراک ہے نہ پینے کا صاف پانی، ادویات اور علاج تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسے سماج میں غریب کی زندگی، پیدائش سے بڑھاپے تک کا سفرجوانی کے بغیر ہی مکمل کرکے ختم ہوجاتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں جس جسم کوخرید کر اس کے ساتھ بم باندھا جاتا ہے وہ بھی غریب ہوتا ہے اور اس خودکش بمبارکے ذریعے جن جسموں کوگوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل کردیاجاتا ہے ان کی اکثریت بھی غریبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ بیس کروڑ روپے کابھتہ علی انٹرپرائیزز کے مالکان نے نہیں دیا مگر ایم کیو ایم کے بھتہ خوروں نے زندہ جلادیا 289 محنت کشوں کو!  گویا حکمرانوں کی آپسی جنگ کا ایندھن بھی ہر حال میں غریب کو ہی بننا ہے۔ یہ نظام اشرافیہ کے مفادات اور زندگیوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی حکمران طبقے کے اثاثوں، دولت اور منافعوں کو بڑھانے اور بچانے کے لئے محنت کش طبقے کی زندگی یا موت کو بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ نام نہاد جے آئی ٹی رپورٹ کے سامنے آجانے کے بعد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ لواحقین کو انصاف ملے گا اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی چھوٹے مہرے کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے گا۔ طبقاتی سماج میں ’’قانون‘‘ صرف غریبوں کے لئے ہوتا ہے جسے طاقتور چیر کر نکل جاتے ہیں۔ سرمائے کے اس نظام میں مزدور کا لہو بہت سستا ہے!
محنت کشوں کواپنا جہاں تخلیق کرنے کے لئے، سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کی زنجیروں کوتوڑنے کے لئے اپنے طبقے کا وسیع تراتحادبناکرجدوجہد کرنا ہوگی۔ اس نظام اور اس کے علمبرداروں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے 1789ء کے فرانس اور 1917ء کے روس میں بنایا گیا تھا۔ ورنہ کبھی سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز میں سینکڑوں مزدوروں کا اجتماعی قتل عام ہوگا توکبھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذریعے سینکڑوں کو زندہ جلا کر راکھ میں بدلا جاتا رہے گا۔

متعلقہ:

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا سبق

سانحہ بلدیہ ٹاؤن: وہ جھلسے بدن آج بھی سلگ رہے ہیں!

کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں زندہ جل کر ہلاک ہونے والے مزدوروں کی قیمت؛ 1930یورو؟

’’قاتل نظام‘‘

مافیا کی سیاست