’’بجرنگی‘‘ کے نکھارے رنگ

| تحریر: لال خان |

جب کوئی عہد بانجھ ہو جائے تو اس کی سیاست، ثقافت اور معاشرت میں روشن خیالی اور انسانیت کے جذبات کی تنزلی ایک سماجی عذاب بن جاتی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں کے دوران برصغیر کی ثقافت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا شعبہ فلمی صنعت رہی ہے۔آج فلم، فنون لطیفہ، فن تعمیر اور مصوری میں تنزلی واضح نظر آتی ہے۔ یہ ’’پرانے خیالات‘‘ نہیں ہیں بلکہ ثقافتی معیاروں کے ایسے قوانین ہیں جو تاریخ اور وقت کی سرحدوں میں قید نہیں ہو سکتے۔ اگر ’’جدیدیت‘‘ کو ایک غیر جدلیاتی انداز میں دیکھا جائے تو پھر احرام مصر اور تاج محل کا شمار فن تعمیر کے شاہکاروں میں نہیں ہو سکتا۔
لیکن جب تک ایک انسانی سماج موجود ہے، محنت کش طبقہ کار فرما رہتا ہے اور انسان کی جمالیاتی حسوں کی موت نہیں ہو سکتی۔ بد ترین ادوار میں بھی اعلیٰ فن پارے تخلیق پا سکتے ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں چیدہ چیدہ ہی ہوتی ہیں۔ کون جانے تاریخ، وقت، حالات اور واقعات کس کے ہاتھوں کیا کروا جائیں!
bajrangi bhai jaan posterموجودہ دور میں ہندوستان، پاکستان اور ہالی ووڈ کی فلموں میں جو تشدد، بیہودگی اور وحشت کا سلسلہ جاری ہے اس کے پیش نظر ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ اس فنی تنزلی کی یلغار کے بالکل برعکس فلم ہے۔ سلمان خان اور کبیر خان نے یہ فلم کیوں اور کیسے بنا ڈالی، اس کو صرف تاریخی حادثہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی فلموں میں عام طور پر تشدد، عریانی اور سطحی مفروضے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن مذکورہ فلم نے سنسر زدہ ہونے کے باوجود رشتے اور محبت کے وہ رنگ پھر سے نکھارے ہیں جو دل کی گہرائی اور روح کی کوکھ میں پھیکے پڑ گئے تھے۔ یہ انسانیت اور محبت کے رنگ ہیں جن پر اس خطے کے حکمرانوں نے نفرت کی سیاہی بکھیرنے کی پوری کوشش کی ہے اور حقارت کے اس زہر نے سوچ کو مجروح کر رکھا ہے۔
فلم میں اگرچہ دشمنی کے اس کھلواڑ کی حقیقی وجوہات اور حکمرانوں کے ان جرائم کے مقاصد کو واضح نہیں کیا گیا ہے لیکن ایک کمرشل فلم کے لئے ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ لیکن ایک حقیقت کو بخوابی واضح کیا گیا ہے کہ باد صبا، کسی بچے کی مسکراہٹ اور بہار کے طلوع ہوتے ہوئے سورج کی پہلی کرنوں کا کوئی دھرم ہوتا ہے نہ دیس اور قوم!
بی جے پی، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشت، شیو سینا اور دوسرے ہندو بنیاد پرست گروہوں پر اس فلم نے بڑی بھاری ضرب لگائی ہے لیکن اسے بنایا اس طرح سے گیا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ایسے اشارے، ڈائیلاگ اور مناظر فلم بند کئے گئے ہیں جو کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ عام انسان بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ غربت، محرومی اور ذلت کی آگ میں جلتے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے درمیان دشمنی کی دیوانگی ’فطری‘ ہے نہ ہی بے سبب۔
آج اگر ہندوستان کے حکمران مذہبی تعصب کی رجعت کو سماج پر حاوی کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تو سرحد کے اس پار بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ مذہب کے ان ٹھیکیداروں کا سارا کاروبار ہی اس دشمنی اور نفرت پر چلتا ہے۔ ریاستوں کو بھی یہ زہر سماج کی رگوں میں اتارتے رہنے کی ضرورت ہمیشہ درکار ہوتی ہے۔ اس نظام کی سیاست کے پاس عام انسانوں کے حقیقی مسائل حل کرنے کا کوئی نظریہ تو ہے نہیں۔ ایسے میں دشمنی کی نعرہ بازی اور بڑھکیں ہی سیاست میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مذہب، ریاست اور سیاست جس نظام کے آلہ کار بنا کر استعمال کئے جار ہے ہیں اس میں غربت بڑھتی ہی ہے اور ذلت انتہاؤں کو پہنچ کر سماجی زندگی کو تاراج کر رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جبر کے ایسے ادوار میں تحریکوں اور انقلابوں کو زندہ رکھنے میں فن اور ثقافت کا اہم کردار بنتا ہے۔ تمام نقاد سب سے بڑا ادب، مزاحمتی ادب کو قرار دیتے ہیں۔یہاں ضیا آمریت کی درندگی ہو یا چلی میں پنوشے کی وحشت، ایسی اذیتوں میں بھی اعلیٰ پائے کی شاعری بغاوت کے روپ دھارتی رہی ہے۔ لیکن ایسے تلخ عہد امتحان بھی لیتے ہیں اور بہت کم فنکار، ادیب اور شاعر ہی ایسے ہوتے ہیں جو درمیانے طبقے کی سہل زندگی کو ترک کر کے ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ اور جرات رکھتے ہیں۔
جبر بھی صرف آمر یا ریاست کا نہیں ہوا کرتا۔جمہوریت ہو یا آمریت، سرمایہ داری میں سرمائے کا جبر ہمیشہ روا رہتا ہے اور جب سرمائے کا نظام کوئی سماجی یا معاشی استحکام پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو پراگندگی، نفسا نفسی، موقع پرستی، ضمیر فروشی اور رجعت معاشرت کے رگ و پے میں سرایت کرنے لگتے ہیں۔ آج برصغیر کچھ ایسے ہی تاریخی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت کی میٹھی چھری زیادہ گہرائی میں گھائل کرتی ہے۔ یہ زخم نظر بھی نہیں آتے اور اندر ہی اندر تکلیف کی انتہا بھی کر دیتے ہیں۔
برصغیر میں سینما کی تاریخ دیکھیں تو 1950ء سے 1980ء تک کی دہائیوں میں طبقاتی جبر و استحصال کے موضوعات حاوی نظر آتے ہیں۔ ان فلموں کی تھیم ہوا کرتی تھی کہ امارت اور غربت کی خلیج کس طرح رشتوں کو بیگانہ، اپنوں کو پرایا، محبوب کو بے وفا، دوستوں کو دشمن اور پیار کو بیوپار بنا دیتی ہے۔ بنیادی وجہ ہے کہ اس عہد کی سیاست میں بائیں بازو کی گہری چھاپ موجود تھی، ترقی پسند نظریات کی پیاس نوجوانوں میں ہوا کرتی تھی، مزدور تحریک مضبوط تھی، تحریکیں ابھرتی رہتی تھیں اور روایتی قیادتوں کی تمام تر غداری کے باوجود بھی محنت کش طبقہ پسپائی کا شکار نہیں ہوا تھا۔وہ وقت چلا گیا، ایک عہد مٹ گیا۔ آج جھوٹ سچائی پر حاوی ہے۔نظریات سیاست سے سبکدوش کر دئیے گئے ہیں۔ محنت کش طبقہ غداریوں سے مجروح ہے۔ نوجوان نسل میں کسی مستقبل کی امید مٹ گئی ہے اوراس یاس سے جنم لینے والی بیگانگی نے انہیں تشدد، بے راہ روی، بیہودگی، بدتہذیبی اور خود غرضی میں ڈبو رکھا ہے۔ لیکن اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ بھی صدا نہیں چلے گا۔
اس عہد میں حکمران طبقات کے پرفریب ہتھکنڈوں کو چیلنج کرنا ہی ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کا کما ل ہے۔ معلوم نہیں ہندوستان میں ہندو بنیاد پرستوں نے کتنے سینما گھر جلائے ہوں گے اور پاکستان میں سینسر کی تلوار کیا کچھ کاٹے گی۔ لیکن پیغام ضرور پہنچ گیا ہو گا کہ انسانوں کے درمیان رشتہ انسانیت کا ہے اور اس سے بڑا رشتہ کوئی نہیں ہے۔ انسانیت کا رشتہ زندگی سے ہے لیکن زندگی کا دارومدار اس بنیاد پر ہے کہ اس کو کس طرح گزارا جاتا ہے۔ کون ساری زندگی مشقت میں گزار کر بھی محرومی میں تڑپتا ہے اور کون محنت کی دولت لوٹ کر بیہودہ عیاشی کی انسان دشمن زندگی جیتا ہے۔یہ فلم سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں موجود اس طبقاتی استحصال کو عیاں نہیں کرتی۔ لیکن اس کمی کے باوجود ہندوستانی حکمرانوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے اس تاثر پر کاری ضرب ضرور لگا گئی ہے کہ ہر پاکستانی مذہبی جنونی ہوتا ہے۔
بہت کم فلمیں ہیں جن کے اختتام پر ناظرین کھڑے ہو کر تالیوں کے ذریعے داد دیتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ دیکھنے والے برصغیر کے تارکین وطن جو قومی یا مذہبی منافرت لے کر سینما میں داخل ہوئے تھے وہ شاید سینما میں ہی کہیں دفن ہو گئی۔ باہر نکلتے وقت محبت اور بھائی چارے کے جذبات چہروں پر نمایاں تھے۔ فلم میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب نا انصافی کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوں تو بڑی سے بڑی ریاست اور فوج بھی ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے، سرحدیں مٹ جاتی ہیں، نئے راستے کھلتے ہیں اور عوام آگے بڑھتے ہیں۔ ظلم کو برداشت تو کیا جاسکتا ہے لیکن انسان اسے قبول کبھی نہیں کرتا اور جو قبول کر لیتے ہیں وہ انسان سے آدمی بن جاتے ہیں۔
یہ فلم گھٹن کے اس عہد میں برصغیر کے عام لوگوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ سلمان خان جیسا غیر سنجیدہ اور ’ہلڑ باز‘ قسم کا اداکار اپنے پیسے سے جو پہلی فلم بنائے گا وہ اتنا کمال کر جائے گی کہ جعلی دشمنی پر قائم اقتدار کے ستون ہی ہل جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ عظیم فلسفی ہیگل نے واضح کیا تھا کہ بظاہر حادثہ یا ’معجزہ‘ معلوم ہونے والے ایسے واقعات تاریخ کے گہرے تقاضوں کا اظہار ہوتے ہیں۔
برصغیر میں رائج سرمایہ دارانہ استحصالی ڈھانچے کے دوسرے بہت سے پہلوؤں کی طرح مذہبی و قومی منافرت کی واردات بھی اس خطے کے حکمرانوں کو برطانوی سامراج سے ورثے میں ملی ہے۔ دشمنی کے تمام تر فریب اور ناٹک کے باوجود یہ حکمران اندر سے ایک ہیں۔ نفرتوں پر مبنی ظلم، جبر اور استحصال کی ان سرکاروں کے خلاف برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر لڑنا ہوگا۔قومی اور مذہبی جنگیں ان حکمرانوں کے ہتھکنڈے ہیں۔ اپنی نجات کے لئے محنت کش عوام کو طبقاتی جنگ لڑنی اور جیتنی ہو گی۔