8 مارچ کا پیغام

| تحریر: مریم حارث |
Protesters carry candles as they shout slogans during a protestماہ و سال کی گردش میں ایک بار پھر وہ دن آرہا ہے جب سرکاری و غیر سرکاری سطح پر فائیو سٹار ہوٹلوں میں ’’خواتین کے حقوق‘‘ پر سیمینار منعقد کئے جائیں گے۔ خواتین کی حالت زار کا رونا دھونا کرکے محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخ اور کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 1910ء میں امریکی شہر نیویارک میں محنت کش عورتوں نے اپنے حقوق کی لڑائی کا آغاز اس لئے نہیں کیا تھا کہ دنیا بھر میں ڈاکہ زنی کرنے والے سامراج اور حکمران طبقات کی بھیک پر پلنے والی ’’این جی اوز‘‘ تقاریب منعقد کریں جن میں نام نہاد ’’سول سوسائٹی‘‘ کی زرک برک خواتین کو جمع کرکے تقاریر کی جائیں اور مال کمایا جائے۔ المیہ ہے کہ خواتین کیلئے بدترین ممالک کی فہرست میں تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دینے والے اس ملک کے ریاستی آقا بھی 8 مارچ کو ’’خواتین کے تحفظ‘‘ اور’’فلاح و بہبود‘‘ کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔ اب کی بار بھی یہی سب کچھ ہوگا۔ 8 مارچ کو ’’غیر سرکاری ادارے‘‘ استحصال کی فروخت کاری کے اس عمل میں مظلوم خواتین کے دکھوں کا سودا کرنے کیلئے رنگ برنگ کے حربے استعمال کرینگے، خواتین کے حقوق اور انکے فرائض پر لیکچر دیئے جائیں گے، نغمے اورترانے ترتیب دیئے جائیں گے۔ مذہب کی روشنی میں بھی عورت کی عظمت کے قصیدے سنائے جائیں گے لیکن اس ساری منافقت کے ذریعے محنت کش خواتین کے اذیت ناک مسائل اور سلگتے ہوئے مصائب کی حقیقی وجوہات کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ’’اپنا آپ ٹھیک کرنے‘‘ کو مسئلے کا حل قرار دیا جائے گا۔ مذہبی جغادری مردوں کو ’’سوچ تبدیل کرنے‘‘ اور خواتین کو پردہ کرنے کا درس دیں گے اور لبرل اشرافیہ قانونی پیچیدگیوں کی بحث میں سارے معاملے کو غرق کر دے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود کو مقدس جان کر دئیے جانے والے یہ درس اور قانون سازیاں خواتین کی وسیع اکثریت کی مشکلات میں رتی برابر کمی کر سکے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی آبادی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن ان میں سے پچاس فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں، ہر نو میں سے ایک عورت چھاتی کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے، ہر سال چالیس ہزار اموات صرف اس مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ غذائی قلت اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث حاملہ خواتین کی بڑی تعداد د روزانہ حمل یا زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ہر دوسری بچی خون کی کمی کا شکار ہے۔ مذہبی رجعت کی خونخوار یلغار نے عورت کوبالعموم گھر کی چار دیواری میں قید کررکھا ہے۔ حصول روزگار کے لئے گھر سے نکلنے والی خواتین کو ہر جگہ خوانخوار نظروں کا سامنا رہتا ہے۔ محنت کش خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ ایک طرف مردانہ شاونزم پر مبنی رویوں سے سماجی استحصال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف مردوں کی نسبت کم اجرت دیکر معاشی استحصال روا رکھا جاتا ہے۔ خاندان میں جنسی بنیادوں پر عدم مساوات اس کے علاوہ ہے۔ سماجی گراوٹ کے ساتھ جنسی استحصال کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ مذہبی کتابوں سے عورت کا نکاح صرف جائیداد کے بٹوارے سے بچنے کیلئے کروا دیا جاتا ہے۔ مرضی سے جینا تو درکنا، مرضی سے مرنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ ’’حقوق نسواں‘‘ کی علمبرداری کرنے والے اس نظام کے خیر خواہوں کے پاس ان معاشی اور سماجی مسائل سے نجات کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور پروگرام نہیں ہے۔ ’’سول سوسائٹی‘‘ کے یہ خواتین وحضرات ایک ایسے طبقاتی سماج میں ’’عورت اور مرد کی برابری‘‘ کی بات کرتے ہیں جہاں مرد، مرد کے اور عورت ، عورت کے برابر بھی نہیں ہے۔
قدیم اشتراکی عہد سے سرمایہ داری کی چکاچوند ترقی تک عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ سماجی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ کے بڑے واقعات میں سے عورت کے کردار کو ختم کر دیا جائے تو تاریخ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ غلاموں کی بغاوتوں سے لیکر انقلاب فرانس جیسے بورژوا انقلابات تک اوربالشویک انقلاب سے لیکر آکو پائی وال سٹریٹ تحریک اور عرب بہار تک، خواتین ہر انقلابی جدوجہد کی ہراول پرتوں میں شامل رہی ہیں۔ وحشت اور بربریت کے نئے معیار مقرر کرنے والی ’’داعش‘‘ کو کرد خواتین ملیشیا (YPJ) نے کوبانی میں عبرتناک شکست دے کر ’’وجود زن کو آہن‘‘ ثابت کیا ہے۔
8 مارچ ’’خواتین‘‘ کا نہیں ’’محنت کش خواتین‘‘ کا عالمی دن ہے۔ حکمران طبقے کی خواتین کے مفادات، روایات، رویے اور اقدار محنت کش خواتین سے مختلف ہی نہیں متضاد ہیں۔ یہ دن تقاضا کرتاہے کہ اس پس منظر اور مقصد کو سمجھا جائے جس کی بنیاد پر نیویارک کی محنت کش خواتین نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس جدوجہد کا پرچم تھام کر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی حتمی منزل کی طرف بڑھا جائے۔ تاریخ غیر مبہم انداز میں بتاتی ہے کہ خواتین کے استحصال کا آغاز انسانی سماج کے طبقات میں تقسیم ہونے کے ساتھ ہوا تھا۔ جب تک طبقاتی استحصال پر مبنی یہ سماج قائم ہے، خواتین کے استحصال اور محرومی کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقہ بحیثیت مجموعی استحصال اور جبر کا شکار ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے ترقی پسندانہ عہد میں دوسرے تاریخی فرائض کی طرح ترقی یافتہ ممالک میں صنفی تفریق کو بڑی حد تک ماند کیا تھا۔ اس عہد میں اصلاحات کی گنجائش موجود تھی اور محنت کش طبقے نے مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین جدوجہد کے ذریعے کئی مراعات حاصل کیں لیکن 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے یہ مراعات ایک ایک کر کے واپس چھینی جارہی ہیں۔ عوام کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، آمدن سکڑ رہی ہے اور محنت کشوں کی زندگیاں اجیرن ہیں۔ آج ترقی یافتہ مغرب میں بھی خواتین پر جبر و استحصال میں اضافہ ہورہا ہے اور عورت کو کموڈیٹی بنانے کا مکروہ عمل عروج پر ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں تاخیر زدہ مفلوج سرمایہ داری جہاں دوسرے تاریخی فرائض پورے کرنے میں ناکام رہی ہے وہاں جنسی تفریق کا مسئلہ بھی حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہی ہوا ہے۔
آج جب یہ نظام پوری دنیا میں اپنی موت آپ مر رہا ہے تو ایسے میں 8 مارچ کا عالمی دن پیغام دیتا ہے کہ محنت کش خواتین سماج سے طبقاتی تفریق کے خاتمے کیلئے مرد محنت کشوں کے ساتھ ملکر سوشلسٹ انقلاب کی مشترکہ جدوجہد کو منظم کریں اورپاکستان سمیت اس کرۂ ارض سے سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ پھینک کرایک ایسے سماج کی بنیاد رکھیں کے جس میں جنسی تفریق سمیت انسان پر انسان کے جبر کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جاسکے۔ خواتین کی متحرک شمولیت کے بغیر سوشلزم کی جدوجہد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ محنت کش خواتین کا عالمی دن پکار رہا ہے کہ نسل در نسل استحصال سہنے والا طبقہ یکجا ہو کر آگے بڑھے اور اپنی زنجیریں کاٹ پھینک کر سارے جہاں کو پالے!