یوم مئی: لہو کے ابلنے کا وقت آ رہا ہے!

| تحریر: فارس |

یکم مئی 1886ء کو شکاگو کے محنت کشوں نے کام کے اوقات کار کم کرکے آٹھ گھنٹے کرنے کے بنیادی مطالبے کے ساتھ پرامن ہڑتال کا آغاز کیا۔ محنت کشوں کی ہڑتال میں سرگرم شرکت کی وجہ سے ہڑتال کا دائرہ کار پھیلنے لگا جس سے خوفزدہ ہو کر حکمران طبقے کے مسلح جتھوں نے پرامن ہڑتالی مزدوروں کا قتل عام کیا جس میں 6 مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ہڑتال کی قیادت کرنے والے 8 افراد پر مقدمہ چلا اور بعدازاں 19 اگست 1886ء کو ایک کے سوا باقی تمام افراد کو کسی ثبوت اور صفائی پیش کرنے کی اجازت دئیے بغیر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ پھانسی کی سزا پانے والوں میں سے ایک اسپائز نے کہا تھا کہ ’’اگر تم سمجھتے ہو کہ ہمیں پھانسی دینے سے محنت کشوں کی آواز ختم ہو جائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے، اس شعلے کو جتنا دباؤ گے یہ مزید بھڑکے گا۔‘‘

HaymarketRiot-Harpers Paintingشکاگو کے محنت کشوں کے جسم سے بہنے والے خون کی لالی کو عالمی محنت کش طبقے نے اپنا نشان راہ بنا لیا یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مزدور تحریک کے پرچم کا رنگ سرخ ہے جو عالمی محنت کش طبقے کی جڑت کی علامت بن چکا ہے۔ یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر منانے کا فیصلہ بھی محنت کشوں کی ہی ایک بین الاقوامی تنظیم دوسری انٹرنیشنل نے 1889ء کو پیرس میں منعقدہ کانگریس میں کیا تھا، جس میں مارکسی استاد اور محنت کش طبقے کی تحریک کے عظیم رہنما فریڈرک اینگلز کا اہم کردار تھا۔
مگر 2015ء میں یوم مئی کا دن غیر معمولی حالات اور ان کی کوکھ سے رونما ہونے والے واقعات کے زیراثر منایا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت اور زوال پذیری کی وجہ سے سماجی معمول عالمی سطح پر معطل نظر آتا ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد دہائیوں سے سلگتے تضادات اب ترقی یافتہ دنیا میں بھی اپنا اظہار کرنے لگے ہیں۔ یورپ میں جرمنی سمیت تمام ملکوں کی معاشی گراوٹ اور کٹوتیوں کے خلاف چلنے والی مہم کی کامیابی نے سرمایہ دار طبقات کو نیم پاگل پن میں مبتلا کر دیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور ترقی یافتہ ملک امریکہ میں نسل پرستی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو سرمایہ داری کے بطن سے پھیلنے والی پرگندگی کا اظہار ہیں، ایک سیاہ فام امریکی انقلابی رہنما نے بہت عرصہ قبل کہا تھا کہ نسل پرستی سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ یوکرین کے مسئلے نے عالمی طاقتوں کی منافقانہ سفارتکاری اور بے بسی کو واضح کیا ہے۔ آج پورا مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہے اور تاریخی طور پر قومی ریاستوں کی متروکیت اور نامرادی کی ایک مثال ہے۔ چین اور برکس ممالک کی معیشتیں بھی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جسے مشکل وقتوں میں ان ممالک سے نظام کو سہارا ملنے کی خوش فہمیاں بھی دم توڑچکی ہیں۔ پرانے دوست دشمن جبکہ پرانے دشمن باہمی دوستی کی پینگیں بڑھانے پر مجبور ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی سطح پر حکمران طبقے کی جانب سے صورت حال کو کنٹرول نہ کر سکنے کی غمازی کر رہا ہے۔
اس صورت حال نے بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کی روایتی اور اصلاح پسندپارٹیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریک کے نقطہ نظر سے یہ اک اہم پیش رفت ہے۔ محنت کش طبقے نے لمبے عرصے تک اپنی روایتی پارٹیوں کو آزمایا اور اپنی سرگرم حمایت کے ذریعے انہیں بار باراقتدار کامالک بنایا مگر اقتدار میں آ نے کے بعد ان پارٹیوں کی قیادت نے سب سے پہلا وار محنت کش طبقے پر ہی کیا۔ یوں دنیا بھر میں ایک لمبے عرصے سے موجود سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی روایات کو سماجی حمایت میں گراوٹ کا سامنا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں اس مظہر کو بہت واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنی روایتی پارٹیوں سے ملنے والے فریب اور دھوکہ دہی کہ بعد اب محنت کش طبقے کے لیے عالمی سیاسی افق میں کوئی ہمدرد، کوئی اپنا نہیں رہا۔ دائیں بازو کی پارٹیاں تو محنت کش طبقے کی کھلی دشمن ہیں جنہیں وہ بہت اچھی طرح پہچانتا ہے اس صورت حال نے محنت کش طبقے کو ایک سیاسی متبادل قوت کی جانب سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ تاہم اصلاح پسندی کے حوالے سے جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اب اصلاحات کا زمانہ نہیں رہا، منڈی کی معیشت کو زائد پیداوار کے بحران کے ساتھ بڑھی ہوئی پیداواری صلاحیت کا بھی سامنا ہے اور عالمی سطح پر قوتوں کے توازن کی نوعیت بھی ایسی نہیں کہ ماضی کی طرح عالمی جنگیں برپا کر کے پیدوار کو تباہ کر کے دوبارہ پیداوار کے ذریعے معاشی سائیکل کوچلایا جا سکے۔ محنت کش طبقے کی روایتی پارٹیوں کی قیادت کی جانب سے سرمایہ داروں کے ساتھ سمجھوتوں اور غداریوں کے سب سے زیادہ اثرات ٹریڈیونین قیادت پر منتقل ہوئے، ٹریڈیونین قیادت نے بھی محنت کش طبقے کی قوت کو جدوجہد کے لیے ایک پروگرام اور لائحہ عمل دینے کے بجائے اپنے لیے مراعات حاصل کرنے اور ان میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔ اگرچہ سوشل ڈیوکریسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی محنت کش طبقے کو دھوکے اور فریب دینے کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد زیادہ سفاکیت اور ڈھٹائی کے ساتھ محنت کشوں کے ارمانوں کا خون کیا گیا۔ مگر یہ صورت حال اب لمبے عرصے کے لیے نہیں چل سکتی۔ محنت کش طبقہ جب تحریک میں آئے گا تو وہ موجود ٹریڈ یونین قیادت کو انقلابی اقدامات کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور اگر ٹریڈیونین قیادت نے ماضی کے وطیرے کو ہی جاری رکھا تو ٹریڈیونین پرتوں کے زیادہ ریڈیکل رجحان کے متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی گلوبلائزیشن کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے دنیا بھر کے محنت کش طبقے کو رنگ، نسل، علاقے، قوم اور دیگر سماجی تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہونے اور اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بین الاقوامی اثرات کی حامل ہیں، چین یا کسی دوسرے ملک میں رونما ہونے والا کوئی واقعہ صرف اس ملک تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ 2008ء کا معاشی بحران اس کی واضح مثال ہے۔ اس لیے آنے والے ماہ و سال میں ابھرنے والی تحریکیں اور انقلابات کے اثرات بھی بین الاقوامی ہوں گے۔ پاکستان میں بھی موجود صورت حال کو عالمی تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ دائیں بازو کی موجودہ حکومت محنت کشوں کو کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ نجکاری کے ذریعے ریاستی اداروں کو نیلام کرنے کی کوششیں نہایت ہی ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہیں، نجکاری کا سب سے بڑا ہدف مزدور تحریک ہے جس کا نحیف قسم کا وجود بھی سرمایہ داروں کو قبول نہیں۔ نواز حکومت نے اپنے سابقہ دور میں واپڈا کی یونین پر پابندی لگانے اور یوم مئی کی چھٹی ختم کرنے جیسے اپنے مزدور دشمن نظریات واضح کرنے پر کوئی تامل نہیں کیا تھا۔ اس بار پھر نواز حکومت نے واپڈا، پی آئی اے، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن، پاکستان ریلویز اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت 60 سے زائد اداروں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھانے کا عمل شروع کیا ہے۔ مگر محنت کشوں کی مزاحمت، توانائی، بحران اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں تذبذب کی وجہ سے ابھی تک حکومت اداروں کوبیچنے میں ناکام رہی ہے۔ مگر ان کے حملے اب بھی جاری ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ زیادہ شدت کے ساتھ حملے کریں گے، جس کا جواب عالمی محنت کش طبقے کی حمایت اور ملک گیر سطح پر محنت کش طبقے کو نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کے لیے منظم کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر قوتوں کے توازن کو دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام ایک بند گلی میں پھنسا ہوا نظر آ رہا ہے جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا کر یہ مزید وحشی اور خونخوار ہوتا جا رہا ہے۔ منڈی کی معیشت کے محدود پیمانے زائد پیدوار اور زائد پیداواری صلاحیت کو استعمال میں لانے سے قاصر ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو قوتوں کا توازن محنت کش طبقے کے حق میں ہے، حالات و واقعات کے تھپیڑے محنت کش طبقے کے شعور کو جھنجوڑ رہے ہیں اور اس کے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ حالیہ تاریخ میں آکو پائی وال اسٹریٹ تحریک، یونان اور یورپ کے دیگر ملکوں میں محنت کش طبقے کی ریکارڈ ہڑتالیں، عرب بہار کی تحریک (جس نے عرب بادشاہتوں کو مستقل خوف میں مبتلا کر دیا ہے) اس امر کی غماز ہے کہ محنت کش طبقہ گہری نیند سے بیدار ہو رہا ہے۔ ان حالات وواقعات کی کوکھ سے آنے والے عرصے میں ایسے واقعات رونما ہوں گے جو انسانی تاریخ کے ارتقا کے دھارے کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے۔ تاہم اس سارے عمل کو سیدھی لکیر میں سمجھنا بھی ایک غلطی ہو گی۔ ہمیں تمام امکانات کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس تناظر میں موجودہ عہد بحرانوں، تحریکوں، انقلابات، ردانقلابات اور خانہ جنگیوں کا عہد ہے اور یہ سلسلہ کتنے عرصے پر محیط ہو گا اس کا حتمی انحصار رونما ہونے والے واقعات اور ان میں انقلابی سوشلزم کی علمبردار انقلابی قوتوں کی اپنی مقداری اور معیاری ہیئت اور مداخلت پر ہو گا۔ ایک مرتے ہوئے نظام اور عہد کی کوکھ سے ایک نیا عہد جنم لے رہا ہے اس لیے یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے، جس نے کل انسانی سماج کومستقل اذیت میں مبتلا کر رکھاہے۔ مارکسی قوتوں کی تعمیر اور واقعات میں درست لائحہ عمل کے ساتھ مداخلت کے ذریعے اس تکلیف دہ دورانیے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت حال میں محنت کش طبقے کی بین الاقوامی پارٹی کی ضرورت تاریخ میں سب سے زیادہ آج محسوس کی جارہی ہے، محنت کشوں کی بین الاقوامی پارٹی ہی دنیا بھر کے محنت کشوں کے اجتماعی مفادکی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔ ایک انٹرنیشنل کے بغیر محنت کش طبقے کی نجات کا خواب ایک انارکسسٹ تو دیکھ سکتا ہے مگر ہم خوابوں میں گم ہونے والے لوگ نہیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیادت کے بغیر آج تک کسی طبقے نے آزادی حاصل نہیں کی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں کام کرنے والے انقلابیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ وقت کی طرف سے اپنے اوپر عائد کیے جانے والے تاریخی فریضے کو پہچانیں اور محنت کشوں کی عالمی عوامی پارٹی کو بنانے کی جدوجہد کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کریں۔ ایک انٹرنیشنل ہی سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور غیرطبقاتی سماج کے قیام کی جدوجہد کی حقیقی ضامن ہو گی اور اس کی تعمیرہی یوم مئی کا اصل پیغام ہے۔