مرتے ہوئے نظام کی وحشت

| تحریر: عمران کامیانہ |

پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی اصطلاحات سرد جنگ کے دوران منظر عام پر آئی تھیں۔ پہلی دنیا سے مراد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ مغربی ممالک تھے جو نیٹو (NATO) کا حصہ تھے۔ دوسری دنیا سے مراد وہ ’’سوشلسٹ‘‘ ممالک تھے جہاں سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے سوویت طرز کی بیوروکریٹک منصوبہ بند معیشت نافذکر دی گئی تھی، یہ ممالک یا تو صنعتی طور پر ترقی یافتہ بن چکے تھے (مثلاًسوویت یونین) یا پھر بڑے پیمانے کی صنعتکاری (چین، ویت نام وغیرہ) کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ ’’تیسری دنیا‘‘ سے مراد سیاسی اور عسکری طور پر غیر جانب دار ممالک تھے جو نہ تو نیٹو کا حصہ تھے اور نہ چین یا سوویت یونین کے اتحادی تھے۔ سوویت یونین اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ممالک کی یا درجہ بندی بے معنی ہو چکی ہے یا اصطلاحات اپنے معنی تبدیل کر چکی ہیں۔

’’پہلی‘‘ اور ’’تیسری‘‘ دنیا
موجودہ عہد میں معاشی اور تکنیکی طور پر پسماندہ ممالک کو عام پر ’’ترقی پذیر‘‘ یا ’’تیسری دنیا‘‘ کے ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے’’ ترقی یافتہ ممالک‘‘ ہیں۔ ایشیا پیسفک اور خلیج کے ’’مڈل کلاس ممالک‘‘ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ گنتی کی کچھ ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ بھی ہیں جن میں سے زیادہ تر کے سماجی و معاشی اعشاریے انہیں بھی غیر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ خاص طور پر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں شدید مشکلات کا شکار ہو چکی ہیں اور معاشی عروج کے عہد میں سطح کے نیچے پنپنے والے تضادات اب منظر عام پر آرہے ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک کے سیاسی، معاشی اور تاریخی پہلو اگرچہ ثانوی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کے تاریخی پس منظر اور سماجی ارتقا کم و بیش ایک جیسا ہے۔ ان ممالک میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے وہ ممالک شامل ہیں جو نوآبادیاتی عہد میں یورپی سامراجی طاقتوں (برطانیہ، فرانس، پرتگال، سپین وغیرہ) کے براہ راست تسلط میں رہے ہیں۔ ان ممالک میں سرمایہ داری کا ظہور اورارتقا یورپ کی طرز پر کلاسیکی اندازمیں نہیں ہوا ہے بلکہ سامراج نے نوآبادیاتی عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کو باہر سے مصنوعی طورپر مسلط کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد براہ راست نوآبادیاتی تسلط کا اگرچہ خاتمہ ہوگیا لیکن اس کے بعد ہمیں ’’نیو کالونیل ازم‘‘ کی شکل میں ملٹی نیشنل اجارہ داریوں، عالمی معاشی اداروں اور بینکوں کی جانب سے سامراجی استحصال کی ایک اور شکل نظر آتی ہے جس کی شدت نوآبادیاتی استحصال سے بھی زیادہ ہے۔ اگر برصغیر کی مثال ہی لی جائے تو ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ نام نہاد ’’آزادی‘‘ کے بعد یہاں کا معاشی، ثقافتی اور تکنیکی طور پر پسماندہ حکمران طبقہ سرمایہ داری کے تاریخی فرائض کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اپنی تاریخی تاخیر زدگی کے باعث ان ممالک کے سرمایہ دار روز اول سے ہی عالمی منڈی کی مقابلہ بازی میں ناکام رہے ہیں اوران کا کردار مغربی اجارہ داریوں کے کمیشن ایجنٹوں سے زیادہ نہیں ہے۔
دوسری طرف وہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک ہیں کہ سرمایہ داری کے معذرت خواہان جن کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ میڈیا پر براجمان بڑے بڑے خود کار دانشور ’’یورپ اور امریکہ نے بھی تو اسی نظام میں ترقی کی ہے‘‘ اور ’’ہمارے عوام ہی کام چور ہیں‘‘ جیسی بکواسیات بکتے نظر آتے ہیں۔ یورپ میں سرمایہ داری کا ارتقا کلاسیکی طرز پر ہوا تھا اور جاگیر داری کو اکھاڑ کر بورژوا انقلابات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام منظر عام پر آیا تھا۔ یہ سرمایہ داری کا ترقی پسندانہ عہد تھا جس میں بورژوا ریاستیں تعمیر کی گئی تھیں اور انہی ریاستوں کی حفاظتی چھتری تلے مختلف ممالک کی قومی بورژوازی نے جدید صنعتی انفراسٹرکچر تعمیر کیا تھا۔ لیکن یورپی اور امریکی حکمران طبقات کے پاس سرمائے کے ارتکاز اور ان ممالک کی صنعتی ترقی میں جس پہلو کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ نوآبادیاتی اور بعد ازاں تیسری دنیا کے ممالک کا بد ترین معاشی استحصال ہے۔

دنیا میں دولت کی تقسیم
مارکس نے داس کیپٹل میں لکھا تھا کہ ’’ایک طرف دولت کے ارتکاز کا مطلب عین اسی وقت دوسری طرف بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے۔‘‘  بورژوا ماہرین معیشت بات کو جتنا بھی گول کرنے کی کوشش کریں آج عالمی سطح پر زمینی حقائق مارکس کے اس دعوئے کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ ممالک یا خطوں کے لحاظ سے دنیا میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہموار ہے۔ کل عالمی دولت (کم و بیش 200 ٹریلین ڈالر) میں سے افریقہ، بھارت، لاطینی امریکہ اور چین کا حصہ بالترتیب 1فیصد، 2فیصد، 4 فیصد اور 8ٰٰٰٖٖٖ ٰٖٖٖٖٖٖٖٖٓٓفیصد ہے۔ یوں دنیا کی کل سات ارب آبادی میں سے 4.2 ارب لوگ جن خطوں میں رہتے ہیں ان کے حصے میں کل عالمی دولت کا صرف 15 فیصد آتا ہے۔ دوسری طرف عالمی دولت میں صرف یورپ اور شمالی امریکہ کا مجموعی حصہ 63 فیصد ہے جبکہ ان دو خطوں کی مجموعی آبادی تقریباً 1.3 ارب ہے۔ عالمی سطح پر خطوں کے لحاظ سے دولت کی یہ تقسیم، تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ کسی بھی ایک ملک یا خطے کے اندر دولت کی تقسیم کہیں زیادہ غیر ہموار ہے۔ امیر ممالک کا ہر شخص امیریا غریب ممالک کا ہر شہری غریب نہیں ہے، تاہم دونوں اقسام کے ممالک میں دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹنے کا رجحان مشترکہ ہے۔ امریکہ معاشی اعتبار سے دنیا کے غیر مساوی ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں کل قومی دولت (تقریباً 57 ٹریلین ڈالر) میں امیر ترین 1 فیصد کا حصہ 35 فیصد جبکہ امیر ترین 10 فیصد کا حصہ 80 فیصد ہے، نیچے کے 80 فیصد امریکیوں کا قومی دولت میں حصہ صرف 7 فیصد ہے۔ اسی طرح بھارت کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن دنیا کے سو امیر ترین افراد میں سے تین (مکیش امبانی، لکشمی متل اور اعظم پریم جی) کا تعلق بھارت سے ہے۔ تیسری دنیا کے ان امیر افراد کی دولت کا زیادہ تر حصہ بھی امیر ممالک کے آف شور بینکوں میں موجود ہے۔
دنیا میں دولت کی تقسیم کا مجموعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو امیر ترین 1فیصد افراد 43 فیصد جبکہ امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 83 فیصد حصے پر قابض ہیں، جبکہ 50 فیصد عالمی آبادی کے حصے میں 2 فیصد جبکہ 80 فیصد آبادی کے حصے میں صرف 6 فیصد دولت آتی ہے۔ امیر ترین 300 افراد کے پاس غریب ترین 3 ارب افراد سے زائد دولت ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق امیر ترین 200 افراد کے کل اثاثے 2.7 ٹریلین ڈالر ہیں جبکہ غریب ترین 3.5 ارب افراد کی مشترکہ جمع پونجی صرف 2.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ دنیا کے امیر ترین 1 فیصد افراد کی آمدن میں پچھلے 20 سال کے دوران 60 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے دولت کے ارتکاز کا یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔

سرمائے کی پرواز
موجودہ عہد کی سب سے بڑی اقتصادی خاصیت ایک خطے سے دوسرے خطے تک سرمائے کی بلا روک ٹوک منتقلی اور مسلسل حرکت ہے۔ عالمی سطح پر مسلسل معاشی عدم استحکام اور انارکی میں سرمائے کی اس ’’آوارہ گردی‘‘ کا اہم کردار ہے جس کے سامنے قومی ریاستیں بے بس ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہ صورتحال مارکس اور اینگلز کی اس پیش گوئی کے عین مطابق ہے جو انہوں نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کی تھی اور جس کے مطابق سرمایہ داری کے ارتقا اور گلوبلائزیشن کے ساتھ قومی ریاست متروک ہو کے رہ جائے گی۔ دنیا بھر میں ریاستوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی اہم وجہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں پر ٹیکس لگانے کی نا اہلیت ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کی آمدن گرتی چلی جارہی ہے اور وہ قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ ٹیکس یا ریاستی قوانین نافذ کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک سے قانونی یا غیر قانونی طور پر سرمائے کی پرواز اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی پر منتج ہوتی ہے جس کے باعث معیشت زیادہ گہرے بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔ ٹیکس سے بچنے کے لئے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرفہرست ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس لوٹ مار سے محفوظ نہیں ہے۔ جنرل الیکٹرک 108 ارب ڈالر، فائزر 73 ارب ڈالر، مائیکرو سافٹ 60 ارب ڈالر، ایپل 54 ارب ڈالر، مرک 53 ارب ڈالر اور جانسن اینڈ جانسن 49 ارب ڈالر ہر سال مختلف ممالک سے نکال کر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کرتی ہیں۔ صرف 60 بڑی کمپنیاں ٹیکسوں سے بچنے کے لئے ہر سال ایک ہزار تین سو ارب ڈالر پیداواری شعبے سے نکال کر مختلف بینکوں میں جمع کرواتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے امیر افراد نے 32 ہزار ارب ڈالر مختلف آف شور بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ رقم تیسری دنیا کے مجموعی بیرونی قرضے (تقریباً 4000 ارب ڈالر) سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔
یونان کا معاشی بحران اس عمل کی واضح مثال ہے۔ 2009-11ء کے صرف دو سالوں میں22 ارب یورو یونان سے باہر منتقل ہوئے۔ یونان کے سابق وزیر اعظم جارج پاپاندریو کے ایک بیان کے مطابق اگر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی پر قابو پا لیا جاتا تو ’’یونان کو بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘‘ یونان کے امرا کے ذمے 60 ارب یورو صرف قانونی ٹیکس کی مد میں واجب الادا ہیں جبکہ سالانہ ٹیکس چوری 20 ارب یورو سے زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں کالی معیشت (Black Economy) سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فروری 2012ء میں بھارتی سی بی آئی کے چیف کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق بھارتی امرا نے اپنے 500 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ 2 اکتوبر 2013ء کوجاری ہونے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر یاسین انور کے بیان کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالر ہر ماہ پاکستان سے باہر ’’سمگل‘‘ کئے جارہے ہیں۔ پاکستان سے سرمائے کی ’’قانونی‘‘ اور غیر قانونی پرواز آئی ایم ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یوں تیسری دنیا کی بورژوازی کا سماجی اور معاشی کردار بھی سامراجی اجارہ داریوں سے مختلف نہیں ہے۔ گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2008ء تک کے عرصے میں انگولا، ایتھوپیا اور یمن جیسے غریب ترین ممالک سے 197 ارب ڈالر امیر ممالک میں منتقل ہوئے۔
بورژوا معیشت دان تیسری دنیا کی ’’ترقی‘‘ کے لئے نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری اور نیو لبرل اکانومی کے دوسرے نسخے تجویز کرتے ہیں۔ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام تر اقدامات ڈاکہ زنی کے مترادف ہیں۔ آج سے دو سو سال قبل امیر ممالک، غریب ممالک کی نسبت تین گنا زیادہ امیر تھے، 1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی دور کے خاتمے تک یہ شرح 35 گنا تک پہنچ چکی تھی، موجودہ عہد میں امیر ممالک کے پاس غریب ممالک سے 80 گنا زیادہ دولت موجود ہے، یعنی پچھلی پانچ دہائیوں میں تیسری دنیا کا استحصال نوآبادیاتی عہد کے دو سو سالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ (۱)
امیر ممالک ہر سال 130 ارب ڈالر ’’امداد‘‘ کی مد میں دیتے ہیں۔ (۲) اس کے برعکس:
1: ملٹی نیشنل اجارہ داریاں تیسری دنیا کے ممالک سے 900 ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک کے بینکوں میں منتقل کرتی ہیں۔ (۳)
2: تیسری دنیا کے ممالک ہر سال 600 ارب ڈالر بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ (۴)
3: آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے نافذ کئے گئے تجارتی قوانین (کم اجرتیں اور سستا خام مال وغیرہ) کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو ہر سال 500 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ (۵)
4: صرف پچھلی ایک دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں مغربی یورپ کے رقبے کے برابر زمینوں پر قبضے کئے ہیں۔ ان زمینوں کی مجموعی مالیت 2000 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ (۶)
5: مجموعی طور پر 2000ارب ڈالر ہر سال غریب ممالک سے امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں۔

اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار اس ویڈیو میں زیادہ آسان فہم انداز میں پیش کئے گئے ہیں*

سرمائے کا ارتکاز سرمایہ دارانہ نظام کی قوت محرکہ ہے۔ یہ عمل نئی سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہے۔ تاہم دولت کے ارتکاز کی ایک خاص حد کے بعد جدلیات کے قوانین کے مطابق مقدار، معیارمیں تبدیل ہوجاتی ہے اور سرمایہ داری کو آگے بڑھانے والا عامل اس کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ موجودہ عہدمیں اپنی آخری حدوں کو چھوتا ہوا استحصال اور دولت کا ارتکاز سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کا مطلب منڈی کا سکڑاؤ اور قوت خرید میں کمی ہے۔ عالمی سطح پر منڈی کی حالت اس نچڑے ہوئے لیموں کی مانند ہے جس میں سے مزید رس برآمد کرنے کے لئے ہتھوڑے برسائے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تمام تر صورتحال اپنا اظہار زائد پیداوار اور زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کی شکل میں کر رہی ہے، چنانچہ پیداواری شعبے میں یا تو سرمایہ کاری کی ہی نہیں جارہی اور اگر کی بھی جاتی ہے تو اس کی نوعیت انتہائی غیر ترقی پسندانہ ہوتی ہے جس کے تحت کسی سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بجائے بدترین استحصال کے ذریعے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں قوت خرید میں کمی کے باعث چین اور بھارت جیسی ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ ابھرنے سے پہلے ہی گہری گھائی کے دہانے پر جاپہنچی ہیں۔ چینی معیشت کی نمو گزشتہ بیس سالوں کی کم ترشرح یعنی 7.8فیصد تک جبکہ بھارتی معیشت کی شرح نمو 2010ء کے 10.5 فیصد کے مقابلے میں 2012ء میں 3.2 فیصد تک گر گئی ہے۔ معاشی شرح نمو میں یہ تیز گراوٹ بڑے سماجی دھماکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
2008ء سے شروع ہونے والا سرمایہ داری کا عالمی بحران معاشی اتار چڑھاؤ کے عمومی چکرکی بجائے معاشی و سیاسی عدم استحکام، بیروزگاری، نجکاری، ریاستوں کے دیوالیہ پن اور بڑھتی ہوئی غربت کے نئے عہد کا آغاز ہے جس میں انقلابات اور رد انقلابات ساتھ ساتھ چلتے نظر آئیں گے۔ جب تک انارکی، مقابلہ بازی اور منافع کی ہوس پر مبنی منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ نظام انسانیت کو برباد کرتا رہے گا۔ جنوری 2013ء میں جاری ہونے والی ’’آکس فیم‘‘ نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سو امیر ترین افراد کی سالانہ آمدن سے دنیا میں سے غربت کا چار بار خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع پیداوار اور ٹیکنالوجی آج اس سطح پر پہنچ چکے ہیں انسانی ضروریات کی تسکین کے لئے پیداوار پر مبنی سوشلسٹ معیشت کے تحت چند ایک پانچ سالہ منصوبوں کے ذریعے اس سیارے پر سے قلت، غربت اور مانگ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف ملکی اور عالمی سطح پر اس سیاسی قوت کو تعمیر کرنے کی ہے جو محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں کو درست سمت فراہم کرتے ہوئے سرمایہ داری کے ناسور کو انسانی سماج پر سے اکھاڑ پھینکے۔

*ویڈیو میں پیش کئے گئے اعداد و شمار حقائق پر مبنی ہیں جن کے حوالہ جات ساتھ میں پیش کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ویڈیو شائع کرنے والے ادارے سے طبقاتی جدوجہد کا کوئی نظریاتی یا تنظیمی تعلق نہیں ہے۔