تقسیم کے رِستے زخم

| تحریر: لال خان |

الطاف حسین کی جانب سے ہندوستان کے حکمرانوں سے مدد کی فریاد اور پھر ’’مدد نہ کرنے‘‘ پر انہیں بزدل قرار دینے کے بیانات نے چائے کی پیالی میں ایک اور طوفان برپا کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی تاریخ کم و بیش تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس دوران دوسری پارٹیوں اور ریاستی اداروں سے ایم کیو ایم کے تعلقات اتار چڑھاؤکا شکار رہے ہیں۔ یہ جماعت گزشتہ لمبے عرصے سے، ہر دور حکومت میں مرکز اور صوبے کے اقتدار میں شریک رہ کر سیاست اور ریاست کا حصہ بن چکی ہے۔ تنازعات بھی ابھرتے رہے، سیاسی الحاق بنتے بگڑتے رہے۔سیاست پر حاوی سرمائے کی دوسری پارٹیوں کی طرح یہ بھی اسی نظام اور ریاست کی نمائندہ ایک پارٹی ہے۔ لیکن آج لوٹ مار اور کالے دھن کی بندر بانٹ کا عمل اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ ’’مصالحت‘‘ کا پرانا طریقہ کار دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا 60 فیصد بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کراچی سے وابستہ ہے لہٰذا اس شہر کے عام انسان، حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان جاری کراس فائرنگ میں کچلے جا رہے ہیں۔ غداریوں کے مقدمات پہلے بھی بہت چلے ہیں، اب بھی چلیں گے۔لیکن عدالتی نظام ڈیزائن ہی اس طرح سے کیا گیا ہے کہ نان ایشوز کو کولڈ سٹور میں ڈال کر مستقبل میں پھر کبھی استعمال کے لئے محفوظ رکھا جائے۔ بیانات اور پریس کانفرنسوں کا یہ شور بھی مٹ جائے گا۔ اگر مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدل کر واردات جاری رکھوائی جا سکتی ہے تو ایم کیوایم کے اوزار پر بھی کوئی نیا رنگ روغن کیا جا سکتا ہے۔ مقصد مذہبی یا لسانی بنیادوں پر عوام میں مسلسل پھوٹ ڈالے رکھنا ہی ہے۔
bloody division of subcontinent (3)یہ دراڑیں بہت پرانی ہیں۔ انہیں وقتی طور پر ڈھانپا تو جا سکتا ہے لیکن بٹوارے کے رستے ہوئے زخموں کو نہ کوئی دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس نظام میں ان کو بھرنے کی صلاحیت ہے۔ اس حقیقت کا انکار آج کوئی نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ایک جدید قومی ریاست اور یکجا قوم کی تشکیل میں ناکام رہا ہے۔ بحران در بحران کا یہ سلسلہ اسی تاریخی نااہلی کا نتیجہ ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں کی مفلوج سرمایہ دارانہ معیشت ہے۔
برصغیر کے بٹوارے نے 27 لاکھ انسانوں کا نا حق خون بہایا، لاکھوں عورتوں کی عزتیں تاراج ہوئیں اور اس سے جنم لینے والے ممالک کے باسی آج تک استحکام اور آسودگی کو ترس رہے ہیں۔ غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق اس خطے کی ڈیڑھ ارب آبادی نسلی، قومی، مذہبی اور لسانی فرقہ واریت کے تابڑ توڑ حملوں سے گھائل ہے۔لبرل حلقے عام طور پر بھارتی ریاست کو بڑا ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔لیکن تقسیم نے جہاں پاکستان میں مذہبی رجعت کے بیج بوئے وہاں بھارت میں یہ مذہبی جنون پاکستان سے کہیں زیادہ خونخوار ہے۔ نیشنل ازم، ہندو بنیاد پرستی اور کرکٹ ہندوستانی سماج کے لئے زہر بن چکے ہیں۔
معاملے کی نزاکت سے قطع نظر الطاف حسین کا بیان خاصا مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان دشمنی اور ہندو بنیاد پرستی پر سیاست چمکانے والا نریندرا مودی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی مدد کو آئے گا؟ بے جی پی کے رہنما تو وہاں کے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے درپے ہیں۔ الطاف حسین کی دیوانگی بھی بے سبب نہیں ہے۔ جب سیاست کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو زہریلے بیانات اور اشتعال انگیزی کی لیڈری ہی باقی رہ جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کا تو جنم ہی محنت کشوں کی تحریک کی پسپائی اور انقلاب کے زائل ہونے جانے کے نتیجے میں ہوا تھا۔1968-69ء میں یہی کراچی تھا جہاں کے محنت کش اور نوجوان ماضی کے ہر تعصب سے آزاد ہو کر حکمران طبقے اور اس کے نظام کے خلاف سڑکوں پہ آئے تھے، عام ہڑتالیں ہوئی تھیں، فیکٹریوں پر قبضے ہوئے تھے۔ انقلاب برپا ہوا تھا لیکن انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ اس پسپائی نے پرانے زخم پھر سے ہرے کر دئیے۔ ضیا آمریت میں ریاست کی جانب سے نئے تعصبات بنانے اور سماج میں رچانے کا عمل تیز تر ہو گیا۔ مہاجروں کا احساس محرومی بھی ایم کیو ایم کی شکل میں اسی دور میں کیش کروایا گیا۔ یہی کھلواڑ ملک کے دوسرے حصوں میں مذہبی فرقہ واریت، ذات پات، برادریوں اور نسلوں کے تعصبات کو بھڑکا کر کیا گیا۔یوں ایم کیو ایم کے وجود کا مقصد ہی محنت کش عوام کی تقسیم تھا۔ حکمرانوں نے اسے خوب استعمال کیا، جبر کی طوالت کے لئے اس کے روپ بوقت ضرورت بدلے جاتے رہے۔
برصغیر کے باسیوں میں کون خوش ہے؟ ہندوستان یہاں سے بھی زیادہ بدتر غربت کا گڑھ ہے۔ پاکستان میں مہاجروں کے اپنے گِلے ہیں، سندھیوں کے اپنے خدشات اور دکھ ہیں۔ ہر قومیت کے عوام عذاب در عذاب میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب عوام کو انقلابی راستہ میسر نہ آئے تو حکمران طبقات کے لئے انہیں منقسم رکھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن تعصبات کی آگ میں جلتے غریب ہی ہیں چاہے ان کاتعلق کسی بھی مذہب، قوم یا نسل سے ہو۔
دنیا میں اور بھی کئی بڑی ہجرتیں ہوئی ہیں۔لیکن ہجرت کرنے والے مختلف رنگ و نسل کے انسانوں کو ایک قوم میں سمو دینے کا انحصار سماجی و معاشی نظام کی اپنی کیفیت پر ہوتا ہے۔ امریکہ ملک ہی مہاجروں کا ہے لیکن وہاں کوئی مہاجر نہیں ہے۔ 18ویں اور خصوصاً 19ویں صدی میں لڑی جانے والی انقلابی جنگوں کے ذریعے ابراہم لنکن جیسے اس عہد کے مختلف ترقی پسند بورژوا جمہوریت پسندوں نے دنیا کے مختلف خطوں کے ان مہاجرین کو ایک قوم بنایا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اس عہد کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جو تیز صنعتی اور معاشی ترقی دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ’’قوم‘‘ حب الوطنی کے کھوکھلے نعروں پر نہیں بلکہ ٹھوس مادی بنیادوں پر تشکیل پاتی ہے۔ لیکن آج یہی سرمایہ دارانہ نظام جس تاریخی متروکیت اور زوال پزیری کا شکار ہے اس کے تحت امریکہ میں نسلی اور مذہبی تعصبات کی آگ پھر سے بھڑکنے لگی ہے۔
پاکستان کی سرمایہ داری تو روز اول سے ہی کھوکھلی اور دیوالیہ تھی۔ ان بوسیدہ معاشی بنیادوں پر ایک نئی قوم بھلا کیونکر تعمیر ہو سکتی تھی؟ ریاست تضادات کا شکار رہی، معاشرہ عدم استحکام میں بھٹکتا رہا، باعزت زندگی کے مواقع عوام کی اکثریت کے لئے محدود ہوتے چلے گئے۔ ایک روٹی کو کھانے والے چار ہوں تو آدمی انسان نہیں بن سکتا، ’’قوم‘‘ تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ صورتحال ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے حکمرانوں کو اپنی تاریخی نا اہلی کا پورا احساس اور ادراک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے برعکس آج انہوں نے جدید ترقی یافتہ قومی ریاست اور قوم بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔نسلی، مذہبی اور قومی تعصبات کو پروان چڑھا کر استعمال کرنا ان کی بنیادی پالیسی بن چکی ہے۔ رعایا کو ایک دوسرے سے دست و گریباں رکھنا ان حکمرانوں کے لئے استحصال اور لوٹ مار جاری رکھنے کی بنیادی شرط ہے۔
’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ پر آج دنیا کی قدیم ترین رجعت سے بھری بنیاد پرستی کا راج ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔پاکستان میں ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔ لیکن محنت کش عوام ایک تحریک میں ابھر کر اس نظام زر کا خاتمہ نہیں کرتے تو بربریت کے سائے یہاں بھی گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ تہذیب کو خطرہ لاحق ہے۔ وقت اور عہد کا کردار اگرچہ انقلابی نہیں ہے لیکن وقت رکتا نہیں ہے، بدل جاتا ہے۔ ان بربادیوں کے خلاف بغاوت سطح کے نیچے لاوے کی طرح سلگ رہی ہے۔ پہلے سقوط ڈھاکہ کے وقت دو قومی نظرئیے کو دھچکا لگا تھا، اب ایم کیو ایم کا بڑھتا ہوا انتشار اس پر پھر سے سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ نئی نسل ان تعصبات اور خونریزیوں سے تنگ آ چکی ہے۔ وہ جب میدان میں اترے گی تو سب کچھ بدل کے رکھ دے گی، حکمرانوں سے ماضی کے ہر جرم کا انتقام لیا جائے گا۔ کابل سے رنگون تک، برصغیر کے ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں انضمام کا آغاز ہوگا!