راولاکوٹ: ترقی پسند تنظیموں کا مشترکہ اجلاس

| رپورٹ: دانیال عارف |

راولاکوٹ میں ریاستی پشت پناہی سے بنیاد پرست عناصر کی غنڈہ گردی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر مورخہ 30 نومبر کو راولاکوٹ گلف ہال میں ترقی پسند اور آزادی پسند تنظیموں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں جے کے این ایس ایف، جے کے ایل ایف، جے کے ایس ایل ایف، جے کے نیپ،این ایس ایف، پاکستان پیپلز پارٹی ، پی ایس ایف، ایس ایل ایف (آزاد)، جے کے پی این پی، سروراجیہ انقلابی پارٹی کی قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس کا آغاز مرکزی صدر جے کے این ایس ایف بشارت علی نے موجودہ کشیدہ صورتحال اور اس کی وجوہات بیان کر کے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیاد پرستی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ریاستی پشت پناہی کی بنیاد پر جماعت اسلامی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انقلابیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ پہلے سوشل میڈیا کو جواز بنا کر غلط کیس میں رفعت عزیز کو پھنسایا گیا اور اب اس کی آڑ میں سرخ جھنڈے اور انقلاب کی جدوجہد کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان  جو کہ دہشت گردوں اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن آج دہشت گرد سر عام نہ صرف گھوم رہے ہیں بلکہ سر بازار اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں اور یہاں کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا لیکن سوشل میڈیا کو جواز بنا کر سیاسی کارکنان کو حراساں کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں بنیاد پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے جس کے خلاف متحد ہونا ضروری ہے۔

kashmir-all-parties-conference-called-by-jknsf-1
جے کے ایل ایف کے مرکزی چیئرمین سردار صغیر ایڈوکیٹ نے خطاب میں کہا کہ بطور انسان ہمارا یہ حق ہے کہ جو مرضی مذہب ہم اختیا ر کریں۔ لیکن یہاں مذہب کے ٹھیکیدار مذہب کو تھونپنا چاہتے ہیں جو ہمیں قطعی برداشت نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ المیہ یہ ہے کہ یہاں لبرل بھی مذہب کے خلاف بولتے ہیں لیکن انہیں یہاں کی ریاست اور مولوی حضرات کچھ نہیں کہتے کیونکہ وہ سرمایہ داری کے لئے کوئی خطرہ نہیں لیکن کوئی سوشلسٹ سوشل میڈیا پر رائے بھی رکھے تو وہ جرم بن جاتا ہے۔ یہ پر امن خطہ ہے اور یہاں ان نام نہاد کیسوں کی بنیاد پر انتشار قطعی قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پراکسی جنگ اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو کر لڑائی لڑنا ہو گی۔
نیپ این ایس ایف کے رہنما توصیف خالق نے کہا کہ شہر کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے خلاف لڑائی ملکر لڑیں گے۔ جبکہ جے کے نیپ کے رہنما آفتاب حمید نے 26 نومبر کو این ایس ایف کے پرامن مظاہرے پر دہشت گردوں کے حملے کی بھر پور مذمت کی اور کہا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس طرح شہر کا ماحول خراب کرے۔ تمام ترقی پسندوں کے ساتھ ملکر اس صورتحال سے نبردآزما ہوں گے۔
جے کے پی پی کے مرکزی رہنما جاوید نثار نے کہا کہ انتہا پسندی قطعی برداشت نہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ماضی کے ناکام تجربات کی طرح پھر اب کشمیر میں ایک تجربہ کرنے جا رہی ہے۔ پہلے جہادی تنظیموں کو فروغ دیا اور افغان جہاد کیا گیا جو کہ آج گلے کی ہڈی بن چکی ہے اور آج پاکستان میں قتل و غارت کا موجب ہے۔ یہاں بھی ایک سازش کے تحت ان انتہا پسندوں کو پھر سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں مولویوں کی جانب سے مسجدوں میں سوشلسٹوں اور نیشنلسٹوں کے خلاف فتوے صادر کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ رفعت عزیز کی گرفتاری جیسے واقعات سے ایک طرف ان بنیاد پرستوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ترقی پسندوں کے خلاف کاروئیاں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ایکٹ 1974ء کے تحت ریاست کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس آزادی کو صلب کیا جا رہا ہے۔
ایس ایل ایف (آزاد ) کے رہنما احسن اسحاق نے کہا کہ کشمیر کے اندر تحریک موجود ہے جس کو ڈی ٹریک کرنے کے لئے نئے جہادی پروان چڑھائے جا رہے ہیں۔ نان ایشوز کو ہوا دے کر یہاں کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ترقی پسند اکھٹے ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ اعجاز نے کہا کہ بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس کے خلاف منظم لڑائی لڑیں گے اور اس لڑائی کو بار ایسو سی ایشن تک لے جائیں گے اور اس موضوع پر بار میں سنجیدہ بحث اتاریں گے۔
جے کے پی ایس ایف کے رہنما ریحان سلیم نے کہا کہ دائیں بازوں کی جماعتیں ایکا کر چکی ہیں۔ لیکن بائیں بازو کا المیہ یہ ہے کہ وہ اصل لڑائی کو چھوڑ کر آپسی جھگڑوں میں مشغول ہیں۔ رفعت عزیز کے معاملے میں منبر کو ناجائز استعمال نہ کیا جائے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مشترکہ جدوجہد کی جائے۔
جے کے ایل ایف کے رہنما ایس ایم ابراہیم نے کہا کہ 26 نومبر کو ہونے والا حملہ آزادی پسندوں پر حملہ ہے۔ سرعام اسلحہ کی نمائش ہوتی رہی لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ حزب المجاہدین اور دیگر کالعدم تنظیمیں سر عام پمفلٹ تقسیم کرتی ہیں، ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
سروراجیہ انقلابی پارٹی کے رہنما یاسر ارشاد نے کہا کہ کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں اور نہ ہی دہشت گرد تنظیموں کو اجازت ہے کہ سرعام غنڈہ گردی کریں اور پر امن ماحول کو خراب کریں۔ سرمایہ داری کے خلاف علمی اور شعوری جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
جے کے پی این پی کے رہنما ناصر لبریز نے کہا کہ ایک طرف آزادی پسند قوتیں ہیں اور دوسری طرف رجعت پرست۔ آزادی پسند قوتوں کا مقصد ہے کہ وہ اس نظام کے خلاف لڑائی کو منظم کریں اور نسل انسانی کو اس دلدل سے باہر نکالیں جبکہ رجعت پرست قوتیں اس نظام کی محافظ ہیں اور موجودہ صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مختلف بہانے تراش کر انقلابیوں پر حملہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ اس واقعہ کی آڑ میں دہشت گردوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے خلاف منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ نوشین کنول نے کہا کہ اس رجعت کے خلاف سوچ سمجھ کر لڑائی منظم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ زاہد اقبال نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا پر بھی مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔
آخر میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق:
* رفعت عزیز کیس کے حوالے سے مختلف جہادی تنظیموں کو دباؤ ڈالنے اور بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
* انتظامیہ بنیاد پرستوں کے خلاف کاروائی کرے۔
* مساجد اور مدارس کا آڈٹ کیا جائے۔ منبر کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بند کیا جائے۔ مساجد میں چندے پر پابندی لگائی جائے۔

* مذہبی گروہوں کی طرف سے الصبغا کے نام سے 4 ارب روپے کے غبن کی تحقیقات کی جائیں۔
* ہجیرہ میں حزب المجاہدین کی طرف سے بانٹے جانے والے دھمکی آمیز پمفلٹ پر ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔
* این ایس ایف کے مظاہرین پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔