امریکی انخلاء کے بعد افغانستان؟

[تحریر: لال خان]
کاپوریٹ میڈیااور حکمران طبقات کے اہل دانش تمام تر سماجی تضادات کو حکمرانوں کے مابین سیاسی و معاشی اختلافات تک محدود کر کے رکھ دیتے ہیں۔ عوام کو حکمرانوں کے باہمی اختلافات میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ داخلی معاشی یا اقتصادی پالیسیاں ہوں یا افغانستان جیسا خارجی مسئلہ، ہمارے سامنے صرف حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی حمایت یا مخالفت کی آپشن رکھی جاتی ہے۔ آج کل حکمران اشرافیہ کے ’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ دھڑے پورے زور و شور سے یہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر امریکہ بہادر اس خطے سے چلا گیا توطالبان اور مذہبی جنونی پاکستان کو تاراج کر دیں گے۔ دوسری طرف ریاست اور حکمران طبقے کے مذہبی بنیاد پرست دھڑے پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امریکہ کو قرار دیتے ہیں، اپنے آپ کو امریکہ دشمن قرار دینے والے یہ رجعتی عناصر ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کے قیام کے لئے ہر طرح کی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو جائز سمجھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر براجمان تجزیہ نگاروں کی دانش نہ صرف خود اسی تضاد تک محدود ہے بلکہ لبرل ازم اور بنیاد پرستی کی اس جعلی لڑائی کو محنت کش عوام کی نفسیات پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی سامراج کے خلاف مزاحمت میں برسر پیکار کل 41 گروہوں میں سے صرف 13مذہبی بنیاد پرستوں پر مشتمل ہیں۔ بنیاد پرستوں کے علاوہ بائیں بازو، قوم پرست اور سیکولر رجحانات رکھنے والی بے شمار قوتیں موجود ہیں جو افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے لئے مسلح یا سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستوں کی ’’امریکہ دشمنی‘‘ اور انقلابی سوشلسٹوں کی سامراج کے خلاف جدوجہد،دو متضاد رجحانات ہیں۔ مذہبی جنونیوں کی امریکہ دشمنی کا مطلب امریکی محنت کشوں اور محروم طبقات سے نفرت ہے۔ یہ سوچ دراصل نسلی، قومی اور مذہبی تعصب پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس انقلابی سوشلزم کے تحت سامراج مخالفت کا مطلب امریکی حکمران طبقات اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کے استحصال اور وحشت کے خلاف جدوجہد ہے۔ مذہبی پارٹیاں اور بنیاد پرست سیاست دان بغلیں بجا رہے ہیں کہ نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی حاکمیت قائم کر لیں گے جس سے پاکستان میں مذہبی رجعت کے رجحانات کو فروغ ملے گا، قدامت پرستی کا راج ہوگا اور ملاؤں کو نجی زندگیوں میں مداخلت کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان ملاؤں اور ’’مجاہدین‘‘ کے مختلف گروہوں کی باہمی لڑائیوں نے 1996ء تک افغانستان کو برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ پھر امریکی اور سعودی سامراج کی سیاسی و مالی معاونت اور پاکستانی ریاست کی پشت پناہی کے ذریعے کابل پر طالبان کا قبضہ کروایا گیااور افغان عوام پر جبر و تشدد اور وحشت کے نئے باب کا آغاز ہو۔ خصوصاً خواتین کی زندگیاں عذاب بنا دی گئیں۔ افغانستان پر طالبان کا قبضہ کروانے میں امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ اوکلے نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ملا عمر کے ساتھ مل کر رابرٹ اوکلے نے ایک فوجی اور لاجسٹک پلان ترتیب دیا۔ لیکن امریکی سامراج اور طالبان کے درمیان اختلافات تب پیدا ہوئے جب تیل کی بڑی پائپ لائن کا ٹھیکہ امریکی اجارہ داری یونی کول (جس کا ڈائریکٹر اب رابرٹ اوکلے بن چکا تھا) کی بجائے ارجٹینا کی ایک کمپنی بریڈاس کو دے دیا گیا۔ پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑوں کی سرپرستی میں طالبان خود کو ضرورت سے زیادہ طاقتور سمجھنے لگے تھے۔ یوں امریکی سامراج اور طالبان کے درمیان نئی مخاصمت اور براہ راست جنگ کا آغاز ہوا جو پچھلی ایک دہائی سے اس خطے کو تاراج کر رہی ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد ان جنونی بنیاد پرستوں کے مختلف دھڑوں میں ایک نئی لڑائی کا آغاز ہو جائے اور تباہ کاریوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستانی حکمرانوں اور ریاست کے لبرل اور سیکولر دھڑے اور مغربی امداد پر چلنے والی این جی اوز یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سامراجی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں بہت خونریزی ہوگی لہٰذہ اس خطے میں امریکہ کی موجودگی ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سی خون ریزی ہے جو پچھلے دس سالوں میں نہیں ہوئی اور اب ہونا باقی ہے؟
افغانستان اور عراق کی جنگوں میں امریکی سامراج نے چار ہزار ارب ڈالر صرف فوجی کاروائیوں پر خرچ کئے۔ اس بڑے پیمانے کے جنگی اخراجات نے امریکی معیشت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ میدان جنگ سے واپس جانے والے امریکی فوجیوں کی خودکشیاں، جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ذہنی توازن کھو کر پاگل خانوں میں داخل ہونے والی فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ افغانستان میں امریکی شکست اسی وقت عیاں ہوگئی تھی جب جنگ کے عروج پر امریکی فوج کے سپہ سالار جنرل سٹینلے میکرسٹل نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج امریکی سامراج کی بے بسی اور نامرادی کا یہ عالم ہے کہ نہ وہ افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ان نظام میں سامراجی فوجوں کامکمل انخلاء ممکن نہیں ہے۔ بی بی سی کو دئیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں امریکی کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی نے برملا کہا ہے کہ ’’نیٹو کی تمام تر کاروائی نے افغانستان کو بہت اذیتیں دی ہیں۔ بہت جانیں ضائع ہوئی ہیں اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ ملک بدستور عدم تحفظ کا شکار ہے۔‘‘ کرزئی کے اس قسم کے بیانات نے امریکی جرنیلوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے لیکن ان کے پاس اسے برداشت کرنے کے سوا فی الحال کوئی چارہ نہیں ہے۔ کرزئی کے متبادل صدارتی امیدوارزیادہ گستاخ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک ممکنہ متبادل عبدالرسول سیاف ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے افغانستان میں القاعدہ کی بنیادیں قائم کی تھیں۔ صدارت کا ایک اور امیدوار قندھار کا موجودہ گورنر گل آغا شیرازی ہے جس کے طالبان سے قریبی مراسم رہے ہیں۔ گل آغا زشیرازی اپنے کردار کے حوالے سے ’’بل ڈوزر‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ رشید دوستم جیسے ’’موسمی اتحادی‘‘ بھی فہرست میں موجود ہیں۔ رشید دوستم ایک انتہائی مکار اور ظالم جنگجو سردار ہے جس کی غداری نے 1992ء میں نجیب اللہ حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ورلڈ بینک کے سابقہ عہدہ دار اشرف غنی کو سامراج کی خفیہ حمایت حاصل ہے۔ 2014ء افغانستان میں صدارتی ’’انتخابات‘‘ کے ساتھ ساتھ نیٹو فورسز کے انخلا کا سال بھی ہے۔ سب جانتے ہیں افغانستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ انتخابی نظام کی خستہ حالی ، خانہ جنگی اور خونریزی کی اس کیفیت میں علامتی قسم کے انتخابات کا انعقاد بھی پورے ملک میں ممکن نہیں ہے۔ کابل اور صوبائی گورنروں کے دفاتر سے باہر افغان ریاست کا عملی طور پرکوئی وجود نہیں ہے۔
قطر میں طالبان امریکہ مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا ہے۔ طالبان کے کئی دھڑے موجود ہیں جو مختلف علاقائی اور سامراجی قوتوں کے لئے کرائے پر خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ایسے کسی بھی مذاکرات کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے اور اگر کوئی معاہدہ طے پاتا بھی ہے تو وہ نا دیر پا ثابت ہوگا۔ افغانستان میں سرگرم ہر عسکری قوت منشیات، اسلحے کی سمگلنگ ، بھتہ خوری اور دوسرے جرائم پر مبنی کالے دھن کی معیشت میں حصہ دار ہے۔ ان تمام تر قوتوں کا باہمی تضاد دراصل کالے دھن کی زیادہ سے زیادہ حصہ داری پر لڑائی اور تنازعات پر مبنی ہے۔ 1978ء میں افغان ثور انقلاب کے خلاف سامراجی قوتوں نے جو ’’جہاد‘‘ شروع کیا تھا وہ آج ان کے اپنے قابو سے باہر ہوچکا ہے۔ ان ’’جہادیوں‘‘ کی بربریت نے افغان اور پاکستانی عوام کی نسلوں کو برباد کر دیا ہے۔
انگریز سامراج نے پشتون قوم کو چیرنے کے لئے جو ڈیورنڈ لائن تراشی تھی آج اس میں چھید ہی چھید ہیں۔ افغانستان کی یہ خانہ جنگی آج پاکستا ن میں بھی بہہ نکلی ہے۔ یہ نظام زر اور اس کے محافظ اس خطے کے عوام کے اصل مجرم ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے محنت کش عوام سامراجیوں، ان کے مقامی گماشتوں اور مذہبی جنونیوں کو ایک طبقاتی جنگ کے ذریعے ہی شکست دے کر ہی اس خون ریزی اور بربریت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

متعلقہ:
امریکی سامراج: ماضی، حال اور مستقبل
افغانستان: امن کے ناٹک
افغانستان: ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
افغانستان :انقلاب سے رد انقلاب تک