’’عام آدمی‘‘ سے فریب

| تحریر: لال خان |
ریاستی سرمایہ داری کے معیشت دان اور بھارت میں امریکہ کے سفیر جان کینتھ گلبرائٹ نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا منظم انتشار ہے۔‘‘ دنیا بھر کی برح اس ملک کے حکمران طبقات اور عوام کی روایتی قیادت نے بھی پارلیمانی جمہوریت اور قوم پرستی کے نام پر محنت کش عوام کی معاشی و سماجی حالت زار کو پس پشت ڈال کر سرمایہ دارانہ ریاست کے سیاسی ڈھانچوں پر لایعنی مباحث کا بازار سجا رکھا ہے۔
دہلی کے حالیہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کا مکمل صفایا، بھارتیہ جنتا پارٹی کی شرمناک شکست اور عام آدمی پارٹی کی تاریخی کامیابی بھی اسی نظام کی حدود میں مقید ہے۔ عام انتخابات دنیا میں کہیں بھی ہوں وہ آخری تجزئیے میں عوام کے مسلسل بدلتے ہوئے شعور کے ایک مخصوص مرحلے کی غمازی کرتے ہیں۔ عوام کی نفسیات جامد نہیں ہوتی۔ یہ عروج و زوال، پراگندگی اور مایوسی، رجائیت اور بغاوت کی کیفیات سے گزرتی رہتی ہے۔ وقت اور عہد کا کردار سماجی شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں پر حکمرانوں کی مسلط کردہ ثقافت اور اقدارخاص طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور ہندوستان میں عوام کی کوئی بڑی تحریک نہیں ابھری ہے۔ روایتی قیادت کی غداریوں، میڈیا پر نان ایشوز کی مسلسل یلغار، حکمران طبقے کی چالبازیوں اور اس کے کاسہ لیس دانش وروں کی ذہنی بیماریوں نے عوام کو بددل، مایوس اور لاغر کررکھا ہے۔ طبقاتی تضاد ماند تو پڑ سکتا ہے، ختم بہرحال نہیں ہوسکتا۔ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی محنت کشوں کی چھوٹی بغاوتیں اور ہڑتالیں مختلف اوقات میں ابھرتی رہی ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں کے جنوب ایشیا میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو امید اور رجائیت سے ووٹ ڈالنے کا رجحان کم ہی نظر آتا ہے۔ انتقام اور مسترد کرنے کی نفسیات حاوی ہے۔ پیسے کے اس نظام میں پیسے کے زور پر ہی الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ تکنیکی بدعنوانیوں کو چھوڑ بھی دیں تو سرمایہ دارانہ سیاست کی سب سے بڑی دھاندلی یہ ہے کہ اس میں عوام کے پاس صرف ووٹ دینے کا ہی حق ہے۔ ووٹ لینے کا حق دولت والوں کے پاس ہے۔ محنت کش عوام کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، ووٹ ڈالیں یا فروخت کر دیں۔ عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ شاذ و نادر ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتا ہوگا۔ اصل مقابلہ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے درمیان ہی ہوتا ہے۔مارکس کے بقول ’’مجبوروں کو ہر کچھ سال بعد اجازت دی جاتی ہے کہ وہ خود پر جبر کے لئے جابر طبقے کے نمائندوں کا انتخاب کرلیں۔‘‘بالائی درمیانے اور حکمران طبقے کا ٹکراؤ بھی بعض اوقات نظر آتا ہے لیکن محنت کش طبقے کا برسر اقتدار آنا سرمائے کی اس سیاست اور ریاست میں ناممکن ہے۔
دہلی کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نہیں جیتی بلکہ بلکہ مودی ہارا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے نفرت کا ووٹ عام آدمی پارٹی کو پڑا ہے۔ مودی سرکار کو ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ یکسر مسترد ہوگئی ہے۔ اپریل 2014ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑی فتح سے ’’بائیں بازو‘‘ کے کئی رہنما خاصے ’’گھائل‘‘ ہوگئے تھے۔ جدلیاتی سوچ، مارکسی تجزئیے اور ٹھوس تناظر سے عاری اس بائیں بازو کو محنت کش طبقے پر اعتبار ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی اس قیادت نے اپنے دور اقتدار کے دوران بنگال، کیرالہ، تری پورہ میں کھل کر سرمایہ داری کی جارہانہ پالیسیاں لاگو کی تھیں۔ مودی جب اپنی انتخابی مہم کو چائے والے کے لڑکے اور شہزادے کی جنگ بنا کر پیش کر رہا تھا تو کمیونسٹ پارٹیاں عوام کو ’’آئین، جمہوریت اور سیکولرزم‘‘ کا درس دینے میں مصروف تھی۔یہ اور بات ہے کہ احمد آباد ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے ڈبوں پر چائے بیچنے والے لونڈے کی انتخابی مہم ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی سب سے بڑی سیاسی سرمایہ کاری تھی۔ حکمران طبقے کے پیسوں سے کارپوریٹ میڈیا کے ہر چینل پر ہر سیکنڈ مودی کی اشتہار بازی کی جارہی تھی۔ یہ سرمایہ کار اب اپنی سرمایہ کاری پر بھاری منافع کے حصول کے لئے مودی کی جمہوری ڈوریاں کھینچ رہے ہیں۔
دہلی میں مودی سرکاری کی شکست پتا دیتی ہے کہ ہندوستان کے عوام وقتی طور پر پسپا ضرور ہوئے ہیں، ہارے نہیں۔ لیکن اس نظام کے انتخابات کا مسئلہ یہ ہے کہ عوام صرف اپنا احتجاج ہی رجسٹر کرا سکتے ہیں، اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے، غلامی کا طوق اتار پھینک کر معاشی اور سماجی آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ آروند کیجری وال کے پاس کوئی متبادل نظام ہے نہ ہی محنت کشوں کو اس جبر و استحصال سے نجات دلانے کا کوئی پروگرام اور لائحہ عمل۔ ’’سادگی‘‘ سے مسائل حل ہوتے ہیں نہ بھوک مٹتی ہے۔ ’’نیک خواہشات‘‘ اور ’’دیانتداری‘‘ سے سرمائے کا جبر نہیں توڑا جاسکتا اور جب بنیادی نظام اور ڈھانچہ ہی نہ بدلا جاسکے تو یہ ساری کاروائیاں ناٹک بن کے رہ جاتی ہیں۔
ناٹک کی اس سیاست کا بانی موہن داس کرم چند گاندھی تھا جس نے ’’آہنسہ‘‘ کا نظریہ ظالم اور مظلوم کی جنگ کو ’’پرامن‘‘ طریقے سے زائل کرنے کے لئے گھڑا تھا۔ اس کا مقصد حکمران طبقے اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے ذریعے آزادی کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ برطانوی آقاؤں سے سمجھوتے کے تحت طاقت اس طرح سے یہاں کے بھورے انگریز حکمرانوں کو منتقل کرنا چاہتا ہے کہ استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کے شعلے نہ بھڑکیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ’’عدم تشدد‘‘ کے اس علمبردار نے وائس رائے لارڈ ارون کے ساتھ ’’صلح‘‘ کے سمجھوتے پر اس وقت دستخط کئے تھے جب راج گرو اور بھگت سنگھ کو تختہ دار پر لٹکانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ 23 مارچ 1931ء کو’ سوشلسٹ انقلاب زندہ باد‘کے نعرے لگا کر پھانسی گھاٹ پر چڑھنے والے بھگت سنگھ نے اس ’’آزادی‘‘ کو مسترد کیا تھا جس میں حکمرانوں کے نام بدل جائیں لیکن سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی ڈاکہ زنی جاری رہے۔
کرکٹ، جمہوریت اور قوم پرستی جہاں ہندوستانی سیاست اور ثقافت کے زہر ہیں وہاں گاندھی گیری منافقت اور فریب کی وہ افیون ہے جس سے محنت کش عوام کے شعور کو ماؤف کیا جاتا ہے۔ کیجری وال کی سیاست اسی گاندھی گیری پر مبنی ہے۔ تمام تر ’’سادگی‘‘ کے باوجود دہلی میں اس کی حکومت غربت مٹا سکے گی نہ غریبوں کو علاج، تعلیم، پانی اور بجلی فراہم کر پائے گی۔ اس نظام میں یہ ساری سہولیات منافع بخش کاروبار ہیں۔ہر کام ٹھیکوں پر ہوتا ہے اور ٹھیکے تجوریاں بھرنے کے لئے ہوتے ہیں، عوام کو سہولت دینے کے لئے نہیں!
اس نظام میں بدعنوانی کے خاتمے کا مطلب ہے کہ پیسے دے کر ’’عام آدمی‘‘ جو چھوٹے موٹے کام کروا لیتا ہے وہ بھی بند ہو جائیں گے۔ کلرک یا کانسٹیبل اگر ’’اوپر کی کمائی‘‘ نہیں کرے تو صرف ’’نیچے کی کمائی‘‘ میں اس کے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کے بارے میں اس نظام زر کے ٹھیکیدار اور ’’اخلاقیات دان‘‘ سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ کرپشن اس نظام کا ناگزیر حصہ ہے اور سماج کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ نظام اتنا زنگ آلود ہوچکا ہے کہ کرپشن کے تیل کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ بدعنوانی کے سہارے کے بغیر یہ گلا سڑا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائے گا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان دیوہیکل محنت کش طبقے کا گڑھ بھی ہے جس کی شاندار انقلابی روایات ہیں۔ قوم پرستی، کرکٹ، بالی ووڈ، سیکولر ازم اور نام نہاد جمہوریت کی افیون سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 87 کروڑ انسانوں کی ذلت، بھوک اور محرومی کا درد مٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ محنت کش جب بغاو ت کریں گے تو فریب کی سیاست اور استحصال کی معیشت کو غرق کر ڈالیں گے۔ یہیں سے اٹھے گا روز محشر، یہیں پہ یوم حساب ہوگا!

متعلقہ:

’’عام آدمی‘‘ کی ناکامی؟

ہندوستان: کوئلے سے اٹھتی چنگاری

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی

۔23مارچ: بھگت سنگھ کا یوم شہادت

نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام