۔65 واں جشنِ آزادی : حکمران آزادی کا جبر۔۔۔ کب تلک؟

[تحریر:پارس جان]
پھر تماشا لگنے والا ہے۔کہتے ہیں جشن ہو گا۔پاکستان 65 سال کا جو ہو گیا۔یہ بوڑھا،ضعیف،قریب المرگ پاکستان اصل میں کبھی جوان ہوا ہی نہیں تھا۔قو موں اور ملکوں کی عمریں تو بہت طویل ہوا کرتی ہیں۔مگر یہ ’پاک وطن ‘ جو قدرت کا انمول عطیہ بتایا جاتاتھا اس کی حالت تو دیکھو 65 سال میں کیا ہو گئی، چلنا تو درکنار یہ تو کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔درحقیقت یہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو ہی نہیں سکا تھا۔یہ شروع سے ہی مفلوج اور اپاہج تھا۔اس کی پیدائش ہی پولیو زدہ تھی کیونکہ اس نے عوام کی خواہشات کے برخلاف منتشر ہوتے ہوئے برطانوی سامراج کی سرطان زدہ کوکھ سے جنم لیا تھا۔یہ تاریخ کے میدان میں بہت دیر سے نمودار ہوا تھا۔جب بطور ریاست اس نے جنم لیا تو اس کا زمانہ ہی گزر چکا تھا۔قومی ریاستیں تاریخی طور پر متروک ہو چکی تھیں۔اس نے جنم تو برطانوی سامراج کی کوکھ سے لیا تھا مگر آنکھیں امریکی سامراج کی آغوش میں کھولیں۔امریکی سامراج نے اسے اس لیے پالا پوسا اور انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تاکہ حسبِ ضرورت وہ اس کا گوشت نوچ نوچ کر اپنی جنونی ہوس کی تکمیل بھی کرتا رہے اور خطے کی معیشت اور سیاست پر بھی اپنے اس بغل بچے کے ذریعے اثر انداز ہوتا رہے۔امریکی سامراج کے اشاروں پر ناچتے ناچتے اور اس کی چاکری کرتے کرتے یہ روحانی اور جسمانی طور پر اتنا بیمار اور لاغر ہو چکا ہے کہ اسے تاریخ کے ایمرجنسی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔یہ مصنوعی آکسیجن بھی شاید زیادہ عرصہ کام نہ کرے۔
یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ جشنِ آزادی کا ڈھنڈورا بھی بہت بے دلی سے پیٹا جا رہا ہے۔’ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق‘ بھی شرمائے شرمائے سے پھر رہے ہیں۔ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ہم ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔آؤ مل کر جشن مناتے ہیں۔ آزادی کا جشن۔ 27 لاکھ معصوم زندگیوں کی قربانی کا جشن،کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتی ہوئی انسانیت کا جشن،ملک کے طول و عرض میں ان گنت بے گور و کفن لاشوں کا جشن،ڈرون حملوں کا جشن،خود کش دھماکوں کا جشن،شہروں اور دیہاتوں کے وسطی محلوں میں با رونق چکلوں کا جشن،سرکاری معیشت سے تین گنا بڑے حجم کے کالے دھن کا جشن،زلزلوں اور سیلاب کا جشن،45 ڈگری درجہ حرارت میں 20 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا جشن،کمر توڑ مہنگائی،آدم خور بیروزگاری،دیو ہیکل غربت کا جشن،ان گنت بیماریوں کا جشن، درندگی مائل جہالت کا جشن،دہشت گردی کا جشن،پھر اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جشن۔آؤ آزادی کا جشن منائیں!
سونے پر سہاگہ تو دیکھو کہ اس بار ’مقدس‘ارضِ وطن کی سالگرہ رمضان المبارک کے’بابرکت‘مہینے میں منائی جا رہی ہے۔ہر طرف ’رحمتوں ‘ کا نزول ہو رہا ہے۔قدرت کی نعمتیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔بلاشبہ ان کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔دکانیں، بازار،ریڑھیاں پھلوں اور اشیا ئے خورد و نوش سے لدی ہوئی ہیں۔یہ نعمتیں اور رحمتیں صرف انسانوں کے لیے ہیں۔لیکن یہ مفت تو نہیں ملتیں،جتنی بڑی نعمت اتنی بڑی قیمت۔مگر ان دکانوں اور ریڑھیوں کے گرد منڈلاتے ہوئے بھوکی آنکھوں اور زرد چہرے والے بزعمِ خود انسانوں کی جیبیں خالی ہیں۔بھلا خالی جیبوں والے بھی کیا انسان ہوا کرتے ہیں۔انہیں تو جنگل میں چلا جانا چاہیے جہاں سب کچھ مفت ملتا ہے۔ جتنی جس میں طاقت ہو کھا لے۔لیکن اس میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب ان خالی جیبوں والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اس لیے شہروں پر جنگلوں میں تبدیل ہونے کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے صرف ذخیرہ اندوز اور وہ سرمایہ دار ہی مستفید ہو سکتے ہیں جو ایک طرف پرتعیش دستر خوان سجا کر ان نعمتوں کے مزے لیتے ہیں اور دوسری طرف خیرات،صدقات اور عطیات کے ذریعے اپنے احساسِ برتری کے خمار میں بدمست رہتے ہیں۔آبادی کی اکثریت کی جھولی میں بس صبر کی تلقین ہی آتی ہے۔جب 18کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے اس ملک میں 8 کروڑ سے زائد آبادی 24 گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا کھا سکتی ہو تو 24 گھنٹوں میں 2 بار ثواب سمجھ کر پیٹ بھر کر کھانا تو ان کے لیے بہت بڑی عیاشی ہے جو وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ان کے تو 12 مہینے اسی خواہش میں گزر جاتے ہیں کہ وہ کسی دن اپنے بچوں کو دو وقت کھانا کھلا سکیں۔ان لوگوں کو تو خاص طور پر آزادی کا جشن منانا چاہیے کہ اگر یہ مملکتِ خداداد نہ ہوتا تو شاید انہیں یہ ایک وقت بھی کھانے کو نہ ملتا۔جوں جوں عید قریب آتی چلی جائے گی بازار دلہن کی طرح سج جائیں گے۔ان غریبوں کی محرومیاں اور احساسِ محرومی کئی گنا بڑھ جائیں گے۔اپنے حالاتِ زندگی سے مجبور ہو کر یہ سسکتی اور کراہتی ہوئی اکثریت اب یہ سوچنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ نہ تو یہ عید ان کی ہے اور نہ ہی یہ آزادی۔
نظریہ پاکستان کو فوت ہوئے برس نہیں عشرے بیت گئے۔پہلے پہل تو کوئی اسے دفنانے والا ہی نہ تھا۔ اس کی بدبودار لاش لاوارث پڑی رہی اور اس کے تعفن نے سماجی اخلاقیات،ثقافت اور نفسیات کو بیمار اور اوازار کر دیا۔مگر پھر کچھ ایجنسیوں کے وظیفہ خوار ملاں،جرنیل،جج اور بیورو کریٹ اس کو دفنا کر اس کے مزار کے مجاور بن گئے۔وہ پہلے اس کا پھٹا ہوا ڈھول پیٹ پیٹ کر اپنی جیبیں گرم رکھتے تھے اور اب اس کا نوحہ پڑھ پڑھ کر اپنی تجوریاں بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ اب تاریخ کے چہرے کی دھند صاف ہوتی جا رہی ہے اور سب کچھ صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے۔اب تھوڑی سی تحقیق اور تدبر سے بآسانی اس حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کوئی انقلابی یا حریت پسند جماعتیں نہیں تھیں بلکہ یہ دونوں بورژوا پارٹیاں شروع سے ہی سامراجیوں کی گماشتگی کا کردار ادا کرتی رہی ہیں اور برصغیر کی حقیقی انقلابی تحریکِ آزادی کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے سامراجیوں نے ان کی قیادتوں کو مہروں کی طرح استعمال کیا۔ اور آج تک ریڈکلف لائن کے دونوں طرف کانگریس اور مسلم لیگ عالمی مالیاتی سرمائے اور سامراجی طاقتوں کے مختلف دھڑوں کے دم چھلوں کا کردار ادا کررہی ہیں۔ان دونوں دھڑوں کے آپسی معاملات میں اتار چڑھاؤ ہی پاک بھارت تعلقات کے نشیب و فراز کا فیصلہ کرتے ہیں۔
65 سال گزر جانے کے بعد بھی آزاد ہونا تو درکنار اس ملک کی اکثریت دوہری اور تہری غلامی اور استحصال کا شکار ہو چکی ہے۔بے حس نصاب کی گھسی پٹی تکرار کے باوجود نہ تو مسلمان کبھی کوئی قوم تھے اور نہ ہی انہوں نے یہ ملک انگریز سامراج کو شکستِ فاش دے کر حاصل کیا تھا بلکہ تاریخی طور پر عالمی معیشت اور سیاست کا ارتقا اس نہج پر پہنچ چکا تھا جہاں بڑی سامراجی ریاستوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ دور دراز کی قوموں اور ملکوں کو براہِ راست فوجی ذرائع سے محکوم بنائے رکھیں۔یہ طریقہ کار اب بہت مہنگا ہو چکا تھا اور منافعوں کی مطلوبہ شرح کے ساتھ اس کی مطابقت نہ رہی تھی بلکہ ماضی کی نو آبادیات میں ایک گماشتہ حکمران طبقے کو اقتدار کی نام نہاد منتقلی کے ذریعے سیاسی اور سفارتی چابکدستیوں سے وہاں کے معدنی اور جغرافیائی وسائل کا استحصال زیادہ سود مند اور محفوظ طریقہ کار کے طور پر رائج ہو چکا تھا۔اب غلامی کو زیادہ جمہوری اور عوام دوست بنا کر پیش کیا جاتا تھا اور یوں نہ تو براہِ راست بغاوت کا اندیشہ سر اٹھاتا تھا اور نہ ہی ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے زیادہ وسائل بروئے کار لانے پڑتے تھے۔بلکہ اس کے بالکل الٹ لوٹ مار میں تو بڑا حصہ ان سامراجیوں کا ہی ہوتا تھا مگر براہِ راست نفرت اور حقارت کا سامنا ملکی یا قومی حکمران طبقات کو کرنا پڑتا تھا اور ان بغاوتوں کو کچلنے یا دھوکہ دینے کی ذمہ داری بھی انہیں کو سونپ دی جاتی تھی۔یہ تاریخی طور پر ایک عہد کا خاتمہ تھا اور دوسرے کا آغاز۔صدیوں پر محیط قدیم نو آبادیاتی نظام ایک مرحلہ عبور کر کے دوسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔اسے Neo Colonialismنئے نو آبادیاتی نظام کا نام دیا گیا۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کی معروضی اور موضوعی ترقی کا منطقی عروج اور سرمایہ دارانہ حدود وقیود کے اندر پیداواری قوتوں کی مزید ترقی کے لیے ناگزیر مرحلہ تھا۔مگر یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہو گیا تھا بلکہ اس کو عالمی قوتوں کے مابین تسلیم کیے جانے کے لیے دو خونخوار عالمی جنگوں کے بھیانک چابک کی ضرورت پڑی تھی۔اس کے بعد سرمایہ داری نے اپنی تاریخ کا عظیم ترین عروج دیکھا جسے ’پوسٹ وار بوم‘ (Post War Boom) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔چند عشروں میں پیداواری قوتوں کی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نو آبادیاتی طریقہ کار کے ذریعے تیسری دنیا کے وسائل کے استحصال کی شرح کئی گنا بڑھ گئی تھی اور اس کی لاگت کئی گنا کم ہو گئی تھی۔ استحصال کی اسی شرح کے بطن سے فلاحی ریاست کا جنم ہوا تھا۔
اس تمام تر تاریخی عمل میں ایک اور اہم کیمیائی عامل اکتوبر انقلاب کے بعد عالمی محنت کش طبقے کے غیض و غضب کا مسلسل بڑھتا ہوا خوف تھا جس کے پیشِ نظر سرمایہ داری کو اپنے آپ کو زیادہ قابلِ قبول بنا کر پیش کرنا تھا اور سٹالنسٹ بیوروکریسی کی مصالحانہ حکمتِ عملی نے سرمایہ دارانہ استحصال کی اس نئی شکل کو عملی جامہ پہنانے میں فیصلہ کن کردارا دا کیا۔ جب سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں سامراجی غلبے اور جبر و استبداد کے خلاف بغاوتوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا اور سامراجیوں کے لیے ان بغاوتوں اور آزادی کی تحریکوں کو ناکام بنانا مشکل سے ناممکن ہوتا چلا جا رہا تھا اور اس بات کے قوی امکانات موجود تھے کہ نو آبادیات کے محنت کش سامراجیوں کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے قریب قریب پہنچ گئے تھے تو اس فیصلہ کن مرحلے پر سٹالنسٹ بیوروکریسی نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غداری کا ارتکاب کیا اور وہ ساری انقلابی تحریکیں خون میں نہلا دی گئیں۔اکتوبر انقلاب مظلوم قومیتوں اور طبقات کے لیے بغاوت کی علامت بن کر ابھرا تھا اور چند ہی سالوں میں کبھی نہ دیکھی گئی ترقی کی رفتار کی وجہ سے عالمی تحریکوں پر اس کی سیاسی اتھارٹی بھی بے پناہ وسعت اختیار کرتی چلی گئی تھی اور یہ عالمی محنت کش طبقے کے سروں پر کوہ ہمالیہ سے بھی بڑا بوجھ بن چکی تھی۔ محنت کشوں کی قیادتیں رہنمائی کے لیے ماسکو کی طرف دیکھتی تھیں مگر جب راہبر ہی راہزن بن جائیں تو منزل مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جایا کرتی ہے۔یہ سراسر جبریت پسندانہ نقطہ نظر ہے اور اس کا تاریخی مادیت کے سائنسی اور جدلیاتی طریقہ کار سے قطعاً کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ تاریخ کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا جس پر سے چل کر وہ یہاں تک پہنچی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس مرحلے پر مارکسی نظریات سے مسلح کمیونسٹ انٹرنیشنل موجود ہوتی تو سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکا جا سکتا تھا اور آج انسانی تاریخ بالکل مختلف ہو سکتی تھی۔
یوں تاریخ کے غیر سائنسی مطالعے اور حکمران طبقات کی آشیر باد سے لتھڑے ہوئے تجزیوں سے مرتب کردہ تاریخ آئینے میں الٹے نظر آنے والے عکس کی طرح ہوتی ہے۔ اسے سیدھا کرنا پڑتا ہے اور اس میں سے حقائق اخذ کرنے پڑتے ہیں۔مسلم لیگ اور کانگریس کی جدوجہدوں پر مبنی تاریخ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔آزادی کی حقیقی تحریک مسلسل سطح کے نیچے چلتی رہی اور بے مثال قربانیوں اور شجاعتوں کی داستانیں رقم کرتی رہی مگر یہ مسلط کردہ قیادتیں ہمیشہ مذاکراتی عمل میں اس حقیقی تحریکِ آزادی کا گلا گھونٹتی رہیں۔کانگریس کو بھی بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈز کی مسلسل بڑھتی ہوئی مقبولیت کے دباؤ میں مکمل آزادی کے نعرے پر آنا پڑا تھا۔کانگریس کے اندر بھی بائیں بازو کی مقبولیت کا گراف مسلسل بڑھتا چلا جا رہا تھا جس کی واضح مثال یہ ہے کہ 1937 ء میں کانگریس کی پارٹی کانگریس میں سبھاش چندر بوس کو کامیابی ہو ئی تھی مگر ٹھوس مارکسی اور لیننی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے اس سارے عمل کو حتمی فتح تک نہیں پہنچایا جا سکا تھا۔اس کے بعد بھی جہازیوں اور ریلوے کے مزدوروں کی بے مثال تحریکیں چلیں مگر انہیں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔یوں 1947ء کے خونی بٹوارے کے تاریخی فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی۔
65 سال گزر جانے کے باوجود آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس ملک کے بانی محمد علی جناح اسے کس قسم کا ملک بنانا چاہتے تھے۔ سیکولر ازم کے حامی آج تک محمد علی جناح کو ایک سیکولر لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل کے طور پر اس کی تقاریر کے کافی اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں جب کہ دائیں بازو کے قدامت پسند بھی کچھ تقاریر کا حوالہ دے کر یہ باور کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ الگ ملک کا حقیقی مقصد ایک تھیوکریٹک اسلامی ریاست بنانا تھا۔شاید محمد علی جناح کی شخصیت کا یہی تذبذب اور ابہام ہی ان کی پر اسرار ہلاکت کا باعث بنا تھا۔مگر محمد علی جناح کا وژن کچھ بھی ہو اس کا تاریخی عمل کے ارتقا سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نومولود مسلمان اشرافیہ اور بورژوازی سرحد پار کے حکمرانوں کی طرح جدید قومی ریاست کی تعمیر و تشکیل کی اہل ہی نہیں تھی۔اپنے تاریخی مقام کی تلاش میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھا ہونے والامسلمان سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا گروہ آج مٹھی بھر فوجی جرنیلوں،جاگیرداروں،قبائلی سرداروں،ملاؤں، سرمایہ داروں،ججوں اور بیوروکریٹوں کے باطل مگر طاقتور اکٹھ کی شکل اختیار کر چکا ہے جو سامراجیوں کی ایما اور پشت پناہی سے نہ صرف تمام سرکاری و غیر سرکاری معیشت بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے اور اس کی لوٹ مار اور وحشت نے آج 18 کروڑ عوام کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔
1948 ء میں پاس ہونے والی قراردادِ مقاصد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قدامت پسند ملاں روزِ اول سے ہی حکمران طبقات کی ضرورت بن گئے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جعلی نظریہ پاکستان کو مصنوعی طور پر عوامی شعور پر مسلط رکھنے کے لیے ان کی ضرورت مسلسل بڑھتی رہی۔خاص طور پر معیشت اور سیاست میں فوجی اشرافیہ کے اثرو رسوخ میں جوں جوں اضافہ ہوتا رہا اور دفاعی بجٹ کے نام پر لوٹ مار کو جائز اور لازمی باور کروانے کے لیے انڈیا مخالف شور شرابے کی انہیں جتنی ضرورت پڑتی رہی وہ ان ملاؤں کو کمیشن ایجنٹوں کی طرح استعمال کرتے رہے اور پھر افغان جنگ کے اندر امریکیوں نے بھی ان جنونی ملاؤں کی خدمات سے بھر پور استفادہ حاصل کیا۔ یوں اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی قوتوں کو اپنی خدمات بار بار فروخت کرنے کی وجہ سے یہ ملاں اور ان کے ریاستی پروردگار معاشی طور پر اتنے مضبوط اور مستحکم ہو چکے ہیں کہ اب وہ ملک کے کالے دھن کے بڑے حجم کو براہِ راست کنٹرول کرتے ہیں اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کی صنعت پر سامراجی طاقتوں کے مختلف دھڑوں کی سرپرستی میں بے پناہ منافع حاصل کر رہے ہیں اور ان منافعوں پر ہونے والی بندر بانٹ کی لڑائیوں میں عوام کا خون اتنا سستا ہو چکا ہے کہ افغانستان اور عراق میں مجموعی طور پر روزانہ اتنے لوگ قتل نہیں ہوتے جتنے صرف پاکستان میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
قبائلی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے جس جدید فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر کی ضرورت تھی اس کی مالیاتی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے حکمران طبقات نے قبائلی سرداروں سے مفاہمت کر کے وہاں کے وسائل کو لوٹنے اور سامراجی آقاؤں کو پیش کر کے اس میں سے مناسب کمیشن وصول کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جس سے پسماندہ قومیتوں کے معاشی اور سماجی حالات مسلسل دگرگوں ہوتے رہے اور آج قومی مسئلہ انتہائی پیچیدہ اور پر انتشار شکل اختیار کر گیا ہے۔بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔آزادی کے وقت محمد علی جناح نے نواب آف قلات کے ساتھ پاکستان سے الحاق کے لیے مشروط قسم کے معاہدے کیے تھے جن میں ان کا حسبِ منشا علیحدگی کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔مگر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حکمران طبقات کبھی بھی محکوم قومیتوں کو رضاکارانہ طور پر آزادی نہیں دیا کرتے۔یہی وجہ ہے کہ 65 سالوں میں کئی مرتبہ بلوچ حکمران طبقات کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تنازعات بنتے رہے اور کئی فوجی آپریشن بھی کیے گئے۔ہر مرتبہ بلوچ سردار مفاہمت کر کے اقتدار میں مناسب حصے پر رضامندہو گئے مگر اب بحران کی شدت اور بیرونی قوتوں کی وسیع تر مداخلت کی وجہ سے حالات کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں رہے اور بلوچستان میں معصوم عوام کا قتل،مسخ شدہ لاشیں،اغوا اور دیگر انسانیت سوز واقعات معمول کی بات بن چکے ہیں۔بلوچ سرداروں کو آزادی چاہیے تاکہ وہ بلوچستان کے وسائل اور بلوچ قوم کی تقدیر کو بدستِ خود سامراجیوں کے آگے نیلام کر کے اپنی دولت اور مراعات میں اضافہ کر سکیں۔ جبکہ بلوچ عوام اور محنت کشوں کو بھوک،محرومی،بیماری،لاعلاجی،بیروزگاری سے آزاد ایک ایسا سماج چاہیے جہاں وہ پر امن طریقے سے بنیادی ضروریات کی تکمیل کر سکیں اور نسلِ انسانی کے اجتماعی تخلیقی عمل میں شریک ہو سکیں۔مگر یہ آزادی تو پاکستان کی ساری 18 کروڑ عوام کو بھی چاہیے۔کونسا خطہ ایسا ہے جہاں بھوک،ننگ اور وحشت کا ننگا ناچ جاری نہیں۔یہ پوری نسل جو اب جوان ہو رہی ہے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بقا،سلامتی اور با عزت زندگی کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی اور قوموں،نسلوں،رنگوں اور مذہب کے امتیاز سے بالا تر ہو کر ہی اس جدوجہد میں کامیابی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
سات کروڑ چھیانوے لاکھ چھیانوے مربع کلو میٹر کا یہ ملک کس کا ہے؟اس میں سے نکلنے والی معدنی دولت کس کی ہے؟دہقانوں کا خون پسینہ پی کر اس پر اگنے والی غذائی اجناس کس کی ہیں ؟اس پر موجود فیکٹریوں،کارخانوں اور ان کی پیداوار کا مالک کون ہے؟اس کی نہریں،دریا،سمندر،صحرا،میدان اور پہاڑ کس کے ہیں؟ان تمام وسائل اور دولت سے مستفید ہونے کی آزادی کس کو حاصل ہے ؟18 کروڑ عوام کو یا چند طفیلیے خاندانوں کو؟جواب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔80 فیصد سے زائد آبادی ایک مرلے کی بھی مالک نہیں ہے۔ان کے پاس اپنی قوتِ محنت بیچنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ملکیت اور جائیداد کی محافظ فوج،پارلیمنٹ اور عدلیہ ان کے کیسے ہو سکتے ہیں۔ان تمام تر دھوکوں اور سرابوں کی دلدل سے نکلنا ہو گا۔ہم آزاد نہیں ہوئے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ غلام ہو گئے ہیں۔یہ ریاست جابر ہے، یہ آزادی جھوٹی ہے۔آزادی کے نام پر اس غلامی کا طوق اتار پھینکنا ہو گا۔پہلے ہمیں مذہبی،قومی اور نسلی تعصبات سے آزاد ہونا ہوگا پھر ہمیں سرمائے کے شکنجے اور خونخوار اقلیت کے شکنجے سے آزاد ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔یہی ہماری حقیقی عید ہوگی اور یہی ہماری آزادی کا جشن ہو گا۔

متعلقہ:

۔23مارچ؛ دو قومی نظریے کا دیوالیہ پن

اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟

پاکستان؛ ناکام ریاست کی بدمست وحشت

سرمایہ دارانہ جمہوریت کا خونخوار کھیل

پاکستان:معاشی انہدام، سیاسی زلزلوں اور سماجی دھماکوں کی طرف گامزن

بلوچستان: معافیوں سے بات نہیں بنے گی