۔84واں یوم جنم ! ذوالفقار علی بھٹوکی روح سسک رہی ہے!!

تحریر ۔قمرالزماں خاں:-

کچھ لوگوں کو تاریخ بناتی ہے اور کچھ لوگ تاریخ ساز ہوتے ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ان عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جو تاریخ ساز بھی ثابت ہوئے اور پھر تاریخ نے ان کا دامن مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑا۔پاکستان کی سیاست میں جو لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا وہ بلا شبہ ’’بھٹو‘‘ ہے۔پاکستان کی ساری سیاسی تاریخ (جس کا آغاز بھی شاید بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں سے ہی ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوا)بھٹو کے حامیوں اور بھٹو کے مخالفین کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے۔
5جنوری1928ء میں پیدا ہونے والاذوالفقار علی بھٹوآج بھی اپنے حامیوں اور دشمنوں کے خون کو گردش دینے کا باعث ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اپنی عظمت ،ذہانت،اعلی کردار اور تمام تر تاریخی کارناموں کے ساتھ ساتھ اپنی غیر طبعی موت کے المیے کے بعد پے درپے المیوں کا شکار چلا آتا ہے۔عجب تماشہ ہے کہ دشمنوں کی بہتان طرازیوں اور حملوں نے ہمیشہ بھٹو کے قد کو بڑھایا ہے تو بھٹو کے نام لیواؤں کی ایک خاطر خواہ تعداد نے ہمیشہ بھٹو کے لفظ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اس نام اور اسکے نظریات کو تاریخی طور پر غلط پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے اگر ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا کچھ جائزہ لیا جائے تو پھر بات زیادہ سمجھ آسکتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی معرکتہ آراء کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا!!‘‘کے دیباچے میں کچھ اپنی شخصیت کی کچھ یوں وضاحت کی ہے کہ ’’ میری انسویں سالگرہ کے موقع پرکیلیفورنیا، برکلے میں مجھے ایک پارسل موصول ہوا جس میں میرے والد کی طرف سے مجھے بھیجے گئے تحائف میں دو کتابیں تھیں،ایک نپولین بونا پارٹ کی سوانح عمری اور دوسری کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کا لکھا ہوا ’’کیمونسٹ مینی فیسٹو‘‘،میں ساری عمر ان دونوں کتابوں کے سحر سے نہیں نکل سکا۔خاص طور پر جب بھی میرے ذہن میں کیمونسٹ مینی فیسٹو کی آخری سطریں ’’تمہارے پاس کھونے کومحض زنجیریں ہیں اور پانے کے لئے پوری دنیا، دنیا بھر کے محنت کشو !ایک ہوجاؤ‘‘ تو میرے جسم کے تمام رونگٹے فرط جذبات سے کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘۔
تاریخ میں ہمیں دو مختلف قسم کے ذوالفقار علی بھٹو نظر آتے ہیں ایک وہ جو نپولین بونا پارٹ سے متاثر تھا،اس شخصیت کا اظہار ان کی ابتدائی زندگی اور کسی حد تک 1974ء سے 5جولائی 1977ء کے دوران نظر آتا ہے مگر وہ ذوالفقار علی بھٹو جو کارل مارکس اور اسکے کیمونسٹ نظریات سے متاثرتھا اس کا شباب ہمیں 30نومبر1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور اسکے انقلابی مندرجات میں نظر آتا ہے ۔اسی دوران چلنے والی انقلابی تحریک جس نے ایوبی آمریت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے تھے ،کے نعروں اور تحریک کے طبقاتی تشخص سے بھی بھٹو کی انقلابی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،بعد ازاں اس انقلابی تحریک کی تپش کو ہم 1970ء کے انتخابی منشور میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔بعد از جنگ(1971ء) کی رد انقلابی کیفیت کے اپنے اثرات تھے اور بھٹو نے پھر خود کو نپولین ازم کے حصار میں پایا تو ایک نیا پاکستان تعمیر کرنے کے جنون میں وہ اس انقلابی فلسفے ،نظریے اورسرمایہ دارانہ ریاست کے بارے میں مارکسی اساتذہ کے تاریخی تجزیے کو فراموش کربیٹھے جس کے خمیازے میں بالآخر ریاستی اداروں نے ان کا قتل کرکے اپنی پیاس بجھائی۔وہ ٹوٹی پھوٹی ریاست کو جوڑنے کی اپنی خواہش کے تحت ایک انقلابی سے ایک ’’اصلاح پسند‘‘لیڈر کی شکل اختیار کرگئے، باقی ماندہ لٹے پٹے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی اپنی خواہش کے تحت پاکستان کی تاریخ کی ’’عظیم ترین اصلاحات‘‘کرنے کے دوران پھر وہ واپس اپنی انقلابی روش پر دوبارہ تب آئے جب دشمن ان پر وار کرچکے تھے ۔جیل کی کوٹھری جہاں موت اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان فاصلہ بس چند ساعتوں کا ہی تھا انہوں نے تب اپنا وہ تاریخی تجزیہ دیا جو ان کی جان بچانے کی بجائے موت کے سفر کو تیز کرسکتا تھا، اس میں انہوں نے کہا ’’ میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا کیا گیا ہوں کہ میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے حامل طبقات(محنت کش طبقہ اورذرائع پیداوار پر قابض حکمران طبقہ) کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی ،موجودہ فوجی بغاوت (5جولائی 1977 ء)کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حامل طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے ۔اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے جس کے نتیجے میں ایک طبقہ برباد اور دوسرافتح یاب ہوگا‘‘۔
بھٹو کے مخالفین اسکے نظریات کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کرسکے اس لئے انہوں نے جھوٹ اور بہتان کا سہارا لیا اور پھر ان کا جھوٹ تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنا جب اسکے سب مخالفین کی نسلوں نے اسکے دربار پر اپنا سرجھکا کر اسکی عظمت کے سامنے خود کو سرنگوں کردیا۔مگر المیہ یہ ہے کہ بھٹو کے نام کو استعمال کرنے والوں اور اسکی سیاسی میراث کے دعوے داروں نے بھٹو کو تاریخ کے سامنے شرمندہ کرکے رکھ دیا۔بھٹو کا ذکر اسکے دشمن اسکے حقیقی اورتاریخی پس منظر میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بھٹو کے نام نہاد وارث اس کے ان ’’ کارناموں‘‘ کو اپنی میراث قرار دیتے ہیں جن سے بھٹو نے جیل کی کوٹھری میں قطع تعلقی کرلی تھی۔بھٹو نے جان قربان کرکے مصالحت کی بجائے جدوجہد کا راستہ اختیارکیا مگر اسکے نام پر اقتدار کی بھیک لینے والے مصالحت اور رسوائے زمانہ مفاہمت کے گیت گا گا کربھٹو کی روح کو تڑپا نے سے باز نہیں آتے۔بھٹو دیانت داری اور شخصی کردار کے ساتویں آسمان کا باشندہ تھا مگر بھٹو کا نام لیکر بدعنوانی،لوٹ مار،اقربا پروری کرنے والوں کی زبانیں نہ جانے کیوں مفلوج نہیں ہوتیں؟ بھٹو غریب کا لیڈر تھا مگر اسکے جانشین چینی انقلاب کے غدار ڈنگ ژیاؤ پنگ کے ’’امیر ہونا ہی عظیم ہے‘‘ کی ترکیب کے اسیر نظر آتے ہیں۔بھٹو نے ملک کے ادارے بنائے مگر اسکے نام پر سیاست کرنے والے جو کررہے ہیں وہ اب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔بھٹو مزدور کا دوست تھا مگر بھٹو کا نام لیکر سرمایہ دار کے اثاثوں کو بھرنے کا کام جاری ہے۔بھٹو سامراج کا دشمن تھا اور سامراج نے ہی اسکے قتل کی راہیں ہموار کی تھیں مگر اب پیپلز پارٹی پر قابض مافیا امریکی سامراج کے تلوے چاٹنے کو اپنا دین اور ایمان سمجھتا ہے۔بھٹو منافقت سے نفرت کرتا تھا اور سچ بات کو ببانگ دہل کہنے کی جرا ت رکھتا تھا، مگر اب منافقت کو پارٹی منشور کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔
بھٹو کے 84ویں یوم پیدائش پر پارٹی پر قابض سرمایہ دار ،جاگیردار،گدی نشین،جیب کترے اور ٹھگ بھٹو کا نئی نسل کو کیا تعارف کراسکتے ہیں؟ ان کے چہرے اور کردار ان لفظوں کو ادا کرنے کی تاب نہیں رکھتے جسکی حق دار قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی ذات عظیم ہے۔ایک طرف آج بھٹو کی روح گہری تکلیف میں ہوگی کہ اس کا نام وہ لوگ لے رہے ہیں جن کا ہر ہر عمل جرم اور ذلت کا آئینہ دار ہے ان اقتدار پرستوں کا دین اور ایمان بھٹو شہید کے فلسفے اور نظرے کی نفی کرتا نظر آرہا ہے دوسری طرف بھٹو کی روح اسکے نظریاتی پیروکاروں سے سوال کررہی ہوگی کہ اب کتنا انتظار کرو گے؟ کتنی ہولناکی اور بڑھنے کے منتظر ہو؟ کتنی نسلوں کی جانوں کا خراج دو گے ؟ بس کرو اور آگے بڑھ کر بھٹو کے حقیقی اور انقلابی نظریات کاپرچم بلند کرو اور ان بھٹو کے قاتلوں کو جو اس کے جسم کے بعد اسکے نظریات اور سیاسی میراث کی جان لینے کے درپے ہیں ان سے نجات حاصل کرلو۔

سچے جذبوں کی قسم جیت سوشلسٹ انقلاب کی ہوگی!!