واپڈا میں نجکاری کیخلاف تحریک!

جن کا سر منتظرِ تیغِ جفا ہے ان کو . . .
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

تحریر: چنگیز ملک :-

کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ مزدوروں کی محنت سے تخلیق پانے والا سرمایہ خود مزدوروں کو ہی کچلنے لگتا ہے چھوٹے چھوٹے مالکوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور بے روز گار وں کی ایک فوج ظفر موج بنا ڈالتا ہے۔

موجودہ گلوبلائزیشن کے تحت سامراجی ادارے پوری دنیا میں ٹھکیداری نظام لا رہے ہیں جس کی وجہ سے بھوک ، ننگ،بے روزگاری اور افلاس میں اضافہ ہورہا ہے آج ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بین الاقومی اجارہ داریوں کے ہاتھوں حکومتیں بھی بے بس نظر آ تی ہیں ۔بلکہ مالیاتی مفادات کے پیش نظر یہ ریاستیں ان کمپنیوں کی دم چھلابن چکی ہیں۔سرمایہ کی اس ہیت و تشکیل کے نتیجے میں دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں کہ جہاں پر بے روز گاری بھوک ،بیماری ،لاچارگی صاف نظر نہ آرہی ہو ۔دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی بے روزگاری کا شکار ہے اسی طرح کی صورت حال ہمیں باقی ترقی یافتہ ممالک‘ جس میں جاپان‘ جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک شامل ہیں‘ میں نظر آتی ہے ۔جہاں بے روز گاری میں دن بدن اصافہ ہورہا ہے اور لوگوں کا معیارِ زندگی گراوٹ کا شکار ہے۔ موجودہ عالمی بحران نے ان تجزیہ نگاروں ،دانشوروں کے ان نظریات جو انھوں نے سوویت یونین کے انہدام اور دیواربرلن کے گرنے کے بعد پیش کیے تھے‘ کہ تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب لوگوں کے لیے اگر حتمی اورابدی نظام ہے تو وہ سرمایہ دارنہ نظام ہے ‘ کو عیاں کردیا تھا اور عرب سے اٹھنے والی انقلابی تحریکوں اور وال سٹریٹ کے ساتھ پوری دنیا کے 950 شہر وں میں سرمایہ داری نظام کے خلاف ہونے والے مظاہروں نے ان کے نظریات یکسر مسترد کر کے رکھ دیا۔

موجودہ عالمی بحران سے قبل اور اب زیادہ شدت کے ساتھ پوری دنیا میں مزدور دشمن پالیسیوں کو لاگو کیا جارہا ہے جن میں نجکاری ،ڈاؤن سائزنگ ،رائٹ سائزنگ ، لبرلائزیشن اور مراعات میں کٹوتیاں شامل ہیں ان تمام تر مزدرو دشمن پالیسیوں کو اس لئے لا گو کیا جا رہا ہے ۔ کیونکہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں ، عالمی مالیاتی اجارہ دار اداروں کے منافعوں کو برقرار رکھا جاسکے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی چیز کے بنانے کا مقصد ،کسی بھی ادارے کو چلانا ، لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں بلکہ ان تمام تر اقدامات کا حتمی مقصد منافع اور شرح منافع کا حصول ہے۔ سرمایہ داروں کو منافع نہ حاصل ہو رہا ہو تو وہ فیکٹریوں کی تالابندی کرنے، اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو سمندر برد کرنے اور اپنے منافع کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے دنیا پر جنگیں مسلط کر دیتے ہیں۔

لیکن موجودہ کیفیت میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران سے نکلنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ بورژوا معیشت دان کے پاس اس بحران سے نکلنے کا نہ ہی کوئی حل ہے اور نہ راستہ۔
اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہاں کے حکمران اور ریاست کبھی بھی خود مختار نہیں رہی۔ ہمیشہ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتے ہوئے معیشت کو چلانے کی کوششیں کی جاتی رہی۔ پاکستان کے سب سے با اختیار اور طاقتور آمر جنرل ایوب خان اپنی ڈائری میں لکھتا ہے ۔’’پاکستانی سرمایہ دار اس قدر درندہ صفت ہیں کہ اگر ان کے بس میں ہو تو یہ یہاں محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں‘‘۔

مشرف آمریت کے بعد پاکستا ن پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کو محنت کشوں نے ایک دفعہ پھر مسند اقتدار پر بٹھایا کہ شاید ان کی روایت ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی لیکن پیپلزپارٹی میں براجمان اشرافیہ پیپلزپارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف اور غداری کر چکے ہیں۔ محنت کش طبقے کے خلاف نجکاری ، ڈاؤن سائزنگ ، رائٹ سائزنگ جیسی مزدور دشمن پالیسیاں،WTO اور IMF، کے کہنے پر محنت کشوں پر لاگو کر رہے ہیں۔

انہی اداروں میں سے ایک واپڈا کا محکمہ بھی ہے اس ادارے میں کم وبیش ایک لاکھ 50 ہزار محنت کش کام کرتے ہیں‘ جو انتہائی باصلاحیت اور اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ حکومت کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ان محنت کشوں کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو نا صرف بجلی کی سہولت میسر آئے بلکہ عوام کو سستی بجلی فراہم ہو ۔
1995ء تک واپڈا ایک منافع بخش ادارہ تھا ، 1995ء میں ہی IPP’s کے ساتھ جومعاہدات کیے گئے اس کے فوری نتیجہ میں واپڈا جو مختلف اداروں کو خود بجلی فراہم کرتا تھا کوبجلی IPP’s سے خرید کر باقی اداروں کو سپلائی کرنا پڑی۔ اس خود مختار ادارے کو IPP’s کا مرہون منت بنا کر رکھ دیا گیا اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1 روپے 20 پیسے فی یونٹ بننے والی بجلی کے نرخ 8 روپے سے لے کر 100 روپے تک ہو چکے ہیں۔

کیا نجکاری مسائل کا حل ہے؟
PTCL اور KESC کی نجکاری ہمارے سامنے ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں ملازمین کو ان کی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے اور باقی ماندہ مزدوروں سے بہت ساری مراعات چھین لی گئیں۔KESC کے محنت کشوں نے 4500 مزدوروں کے نکالے جانے کے خلاف ایک شاندار جدوجہد کی اور اپنے برطرف محنت کشوں کو بحال کروایا۔ اگلے ہی روز KESC انتظامیہ کے MD نے ایک اخباری بیان میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم نے حکومتی دباؤ میں آ کر محنت کشوں کو بحال کیا ہے ہماری ذمہ داری بجلی فراہم کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا ہے، ہم ان مزدوروں کو نکال باہر کریں گے ۔ کچھ ہی دنوں کے بعد KESC انتظامیہ نے 4500 محنت کشوں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا۔ جس کے بعد 82 دن کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں انتظامیہ نے محنت کشوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، مطالبات تو تسلیم کر لیے گئے لیکن ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ۔بلکہ الٹا محنت کشوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیئے گئے، KESC کے مزدوروں کی حالت زار یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ نجکاری کبھی بھی محنت کشوں کے لیے سود مند نہیں ہوتی بلکہ نجکاری کا حتمی نتیجہ محنت کشوں کا معاشی قتل ہی ہوا کرتا ہے ۔

بیوروکریسی اور حکومتی عہدیداروں کا کردار
باقی صنعتی اداروں کی طرح واپڈا کی بیوروکریسی حکومتی عہدیداران سے ملکر واپڈا کو تباہ کر چکی ہے۔ آج اپنے کمشنز اور اپنے مالی مفادات کیلئے واپڈا کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ بیوروکریسی نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ جیسی سامراجی پالیسیوں کو محنت کشوں پر لاگو کروانے کیلئے حکومت کا مکمل ساتھ دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف اداروں اور صنعتی یونٹس کے اربوں روپے کے بل، جو ان اداروں نے واپڈا کے ادا کرنے ہیں ، صرف اپنے مالی مفادات کی خاطر واپڈا کو ادا نہیں کئے جا رہے اور ان سے بھتے اور کمیشن لے کر انہیں چھوٹ دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ان تمام سامراجی پالیسیوں کو یہ حکومتی عہدیداران کے ساتھ ملکر اس لئے بھی لاگو کروا رہے ہیں کہ اس سے متاثر اگر ہوں گے تو پھر محنت کش ہی ہونگے، کیونکہ ہم پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی میں نجکاری کے نتیجے دیکھ سکتے ہیں۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ
مختلف اداروں کی طرح واپڈا کے محنت کشوں کو بھی 12فیصدحصص بے نظیرایمپلائز سٹاک آپشن کے تحت دے دیئے گئے ہیں۔ جو بنیادی طور پر نجکاری کی ہی ایک شکل ہے اور محنت کش اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کو شاید واپڈا کا مالک بنا دیا گیا، اگر اس کی زیادہ گہرائی میں نہ بھی جائیں تو 12فیصدحصص والا زیادہ باختیار ہو گا یا 88فیصدوالا، کیونکہ 88فیصدحصص موجودہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پرائیویٹ شعبہ کو فروخت کرنے ہیں۔ جس سے مزدوروں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دھوکہ ہے، فریب ہے اور اپنی ٹریڈ یونین قیادت سے مطالبہ رکھنا چاہیے کہ محنت کشوں کو سو فیصد کا مالک بنایا جائے۔

سہولیات کا فقدان
لوگوں کو روشنی مہیا کرنے والے محنت کشوں کی زندگی کس قدر اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کام کے دوران محنت کش جو حفاظتی آلات استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی غیر معیاری اور ناقص میٹریل سے بنے ہوتے ہیں۔ سیفٹی بیلٹس ، سیفٹی گلوز اور بوٹس اس قدر ناکارہ اور غیر معیاری ہیں کہ آئے روز محنت کش حادثات کا شکار ہوتے ہیں، ان حادثات کی صورت میں تمام عمر کی معذوری اور موت جیسے واقعات ہونا معمول بن چکا ہے۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، واپڈا کے اپنے ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں پہنچ کر محنت کش صحت یاب ہونے کی بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں اور جان لیوا امراض کا علاج تو ان ہسپتالوں میں ہونا ہی ناممکن ہے۔ واپڈا کی رہائشی کالونیوں کی حالت یہ ہے کہ صرف پندرہ فیصد محنت کشوں کو یہ ٹوٹی پھوٹی رہائش میسر ہے۔ حادثاتی موت کی صورت میں صرف تین لاکھ روپے اضافی وہ بھی محنت کشوں کے لواحقین کو دفاتر کے چکر لگا لگا کر ملتے ہیں۔ واپڈا کا کوئی بھی محنت کش دوران ملازمت اپنے بچوں کو بھرتی نہیں کروا سکتا، اس کیلئے معذور ہونا ، ریٹائرڈ ہونا یا پھر مرنا ضروری ہے، کوئی بھی محنت کش اپنے بچوں کواچھی تعلیم نہیں دے سکتا، ساری عمر اپنا گھر نہیں بنا سکتا۔

دوسری طرف واپڈا کے پاس رینٹل پاورپلانٹس اورs ’IPPکو ملا کر جو پیداواری صلاحیت موجود ہے، وہ کم و بیش 23000میگاواٹ ہے، جس میں سے 18000میگاواٹ ملکی ضرووریات کو پورا کر کے باقی ماندہ درآمدکر کے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن موجودہ نظام کے اندر یہ ممکن نہیں۔جبکہ اس نظام کو اکھاڑ کر ہر ادارے کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے کر ان تمام محرومیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

واپڈا کے محنت کشوں کی جدوجہد
واپڈا کے محنت کشوں کی جدوجہد ایک شاندار ماضی رکھتی ہے۔واپڈا کے مزدوروں نے 1968/69ء کے سوشلسٹ انقلاب میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اس وقت کے واپڈا ہائیڈروسنٹرل الیکٹرک ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری بشیر بختیار نے GHQ اور ایوانِ صدر کی بجلی بند کر کے ایوب خان جیسے جابر اور طاقتور آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج ایک مرتبہ پھر ہائیڈرو یونین کی قیادت اور محنت کشوں کا تاریخی فریضہ بنتا ہے کہ آج کے عہد کے اندر ان تمام تر مزدور دشمن پالیسیوں کا نہ صرف قلع قمع کریں بلکہ باقی اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ ایک طبقاتی جڑت بناتے ہوئے اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔ یکم نومبر کو پورے پاکستان میں ہائیڈرو یونین کے زیر اہتمام نجکاری کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں حکومت اور ریاستی مشینری کو نجکاری کے احکا مات واپس لینے پڑے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نجکاری نہیں ہوگی ؟۔ محنت کش ساتھیو یہ ریاست پھر کسی نئے طریقے سے حملہ کر سکتی ہے اور حملہ کرے گی۔ مزدوروں کو جھوٹے وعدوں سے بہلایا نہیں جا سکتا جس ادارے سے ان کا روزگار وابستہ ہے اور جسے انہوں نے اپنا خون پسینہ دے کر پروان چڑھایا ہے اسے وہ اتنی آسانی سے سرمایہ داروں کے ہاتھوں بکنے نہیں دیں گے اور نہ ہی اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہونگے۔

سرمایہ داری کے حا لیہ بحرانات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اب یہ نظام انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔وقت اور حالات کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم محنت کشوں کا یہ انقلابی فریضہ بنتا ہے کہ ہم سب اکٹھے ہو کر اس نظام کے خلاف ایک طبقاتی جڑت بناتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک ایسے نظام کی بنیا د ڈالیں جو حقیقی معنوں میں مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کا نظام ہوگا اور محنت کی حکمرانی ہوگی۔ محنت کشو آگے بڑھو کہ ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے۔