محکمہ ڈاک کی نجکاری

رپورٹ: کامریڈ نذرمینگل (کوئٹہ)

پچھلے سال موجودہ ارباب اقتدار نے 26قومی اداروں کو نجکاری میں دینے کا عمومی فیصلہ کیا تھاکہ ان اداروں کو فی الفور فروخت کیا جائے گا ۔ ویسے تو موجودہ حکومت کل 52اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر فروخت کرنے کا اصولی فیصلہ کر چکی تھی لیکن موجودہ حکومت کی اپنی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے ۔ ملک میں بے تحاشا مہنگائی ، بے روزگاری ، لوڈشیڈنگ ، دہشت گردی اور معاشی زوال کی وجہ سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے اتحادیوں کو خوش رکھ کر اور مزید سیاسی یتیموں کو اپنے ساتھ شامل کر کے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ سرمایہ داری کے عمومی زوال سے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کم تر ہو گئی ہے وہیں پر حکمران طبقہ جارحانہ نجکاری کے نتائج سے بھی خوف زدہ ہے کیونکہ محنت کش طبقہ موجودہ حکمرانوں سے نہ صرف تنگ ہے بلکہ ان کے ظالمانہ اقدامات ، سامراجی گماشتگی ، لوٹ کھسوٹ ، کرپشن اور قومی اداروں کو برباد کرنے سے بھی نا لا ں ہے اور نجکاری کے عمل کو تیز کر نے سے محنت کش طبقے کا پیمانہ صبر لبریز ہوجانے اور پورے ملک میں ایک زبردست تحریک کی طرف جا نے کا امکان تھا ۔ یہ حکومت چھوٹی تحریکوں سے بھی پسپا ہو جاتی ہے ۔ جس طرح محکمہ ڈاک کی نجکاری کا جب اعلان ہو ا تو ڈاک کے پانچ CBUs نے اکھٹے ہو کر مشترکہ طور پر نجکاری کے خلاف جد وجہد کا اعلان کیا اور ملک کے تمام GPOsکے سامنے احتجاجی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ اس تحریک سے خوف زدہ ہو کر حکمرانوں نے وقتی طور پر محکمہ ڈاک کی نجکاری کو موخر کر دیا تاکہ ریلوے ، پی آئی اے‘ واپڈا اور دوسرے اداروں کے محنت کشوں کی ایک مشترکہ تحریک نہ بن جائے جو کمزور حکومت کے دھڑن تختے کا موجب بن سکتی تھی۔ اب حکمرانوں نے محکمہ ڈاک کے حوالے سے اپنا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے ۔ اگر محکمہ ڈاک کو کوئی سرمایہ دار خرید لیتا تو وہ صرف محکمے کے قیمتی اثاثوں ، زمینوں ، عمارتوں اور رہائشی کالونیز کی خاطر خرید تا ۔ محکمہ ڈاک کے اراضی کی قیمتیں اربوں روپے میں ہے۔
حالیہ دنوں میں ڈاک کی اراضی پر قبضہ جمانے اور مال بنانے کے لئے محکمہ ڈاک کی نام نہاد فاؤ نڈیشن کی جانب سے نوٹیفکشن جا ری کیا گیا جس کے تحت پورے پاکستان میں قیمتی اراضی رکھنے والے جی۔پی۔اوز کی زمینوں کو لیز پر فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور باقاعدگی سے مختلف اخبارات میں ٹینڈر بھی جاری کیے گئے ہیں ۔ اس وقت 33بڑے جی پی‘اوز کے نام سامنے آئے ہیں جن کو آنے والے دنوں میں لیز پر اونے پونے بیچ دیا جائے گا ۔ یہ تمام کاروائی غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن کا ایم‘ ڈی اعجاز خان درانی سابق وزیر جنگلات خیبر پختونخواہ اور مرکزی نائب صدر مسلم لیگ (ق) کر رہا ہے ۔ جو غیر قانونی طور پر ایم ڈی تعینات کیا گیا ہے ۔ ایم ڈی فاؤنڈیشن کو کبھی اس قسم کا اختیار نہیں کہ وہ ڈاک کے اثاثوں کو فروخت کرے ۔ اُس نے کہا کہ فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر نا ہے ۔ لیکن اس قسم کے جو بھی ادارے عوام اور محنت کشوں کے مفادات کے نام پر بنا ئے جاتے ہیں ، بعد میں ورکروں کی فلاح و بہبود کی بجائے کر پشن ، لوٹ کھسوٹ اور ادارے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔ پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن ادارے کے لئے اسٹیشنری کا سامان ، ملازمین کے لئے وردی ، فرنیچر ، کمپیوٹر ، موٹر سائیکل خریدنے اور ملک بھر کے ڈاک ملازمین کی ڈسپنسریوں کے لئے دوائیں خرید کر سپلائی کر تا ہے ۔ ان تمام خرید اریوں میں بڑے پیمانے پر کمیشن کمایا جا تا ہے ۔ جو بھی چیزیں فاؤنڈیشن کے توسط سے خریدی جا تی ہیں وہ انتہائی ناقص اور غیر معیا ری ہو تی ہیں جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کو مالی نقصانات کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ اب یہ فاؤنڈیشن ڈاکخانو ں کو بیچنے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ ملازمین میں جی پی اوز کی اراضی کو فروخت کرنے کے حوالے سے سخت غم و غصہ اور تشویش پا ئی جا تی ہے ۔ فاؤنڈیشن کے ان غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے ملازمین اپنی نوکریوں کے بارے میں عدم تحفظ کا شکا ر ہیں اور ڈاک کی اراضی کو فروخت کرنے سے بالکل خوش نہیں ہیں بلکہ ورکرز اپنی نمائندہ تنظیم نوپ کے لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ محکمہ ڈاک کے حکام بالا کی ان سازشوں اور مزدور دشمن اقدامات کے خلاف کیوں علم بغاوت بلند نہیں کیا جا رہاہے ۔
نوپ یونین کے مرکزی لیڈروں کی روش اور خاموشی
مشرف آمریت کے دوران محکمہ ڈاک پر ایک ریٹائرڈ جنرل آغا مسعود الحسن کو غیر قانونی طریقے سے مسلط کر دیا گیا تھا۔مذکورہ ریٹائرڈ جنرل کرپشن اور مزدور دشمنی کا بے تاج بادشاہ تھا ۔ اپنی کرپشن کو دوام بخشنے کے لئے ڈاک ملازمین کی نمائندہ تنظیم پر پابندی عائد کر دی اور یونین کے مخلص عہدیداروں کے خلاف کاروائی کر تے ہوئے انہیں نوکریوں سے بر طرف کر دیا گیا ۔ ڈاک ملازمین اور ادارے کو یر غمال بنا یا گیا ۔ نوپ کی موجودہ قیادت اس وقت بھی بر سر اقتدار تھی ۔ جس نے آغا مسعود الحسن کے تمام تر ظلم ، جبر اور نا انصافیوں کے سامنے نہ صرف گھٹنے ٹیک دیئے بلکہ نوپ کی قیادت سے بھاگ کر اپنے بلوں میں چھپ گئے ۔ جب آمریت کا سورج غروب ہوا تو یہی لیڈر ایک بار پھر اپنے بلوں سے نکل کر نوپ کی قیادت کے دعوے دار بن گئے ۔ الیکشن اور کارکنوں کی رائے دہی کے بغیر NIRC کے رجسٹرار کے ساتھ ساز باز کر کے دو سال کے لئے اپنے آپ کو ایک بار پھر غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے منتخب کرایا یعنی بغیر الیکشن اور جمہوری عمل کے ڈاک کے 46ہزار ملازمین پر مسلط ہوئے ۔جونہی یہ لوگ غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر براجمان ہوئے تو قیادت کی سابقہ روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے بیوروکریسی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ۔ اس دوران نوپ کی قیادت بیوروکریسی کے اشاروں پر اپنی لیڈری چمکانے کی کوشش کر تے رہے اور کارکنوں کے اجتماعی مفادات کا سودا کر تے ہوئے خوب مالی فوائد حاصل کیے۔جبکہ افسر شاہی کے مزدور دشمن اقدامات پر مکمل خاموشی اختیار کر لی ۔
اب نوپ کی موجودہ قیادت کو تین سال ہو چکے ہیں جو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے یونین پر قابض ہے اور الیکشن کر نے سے گریزاں ہے ۔افسر شاہی کی ملی بھگت سے این‘ آئی‘ آر‘ سی میں 660بوگس کونسلروں کی فہرست جمع کرا دی ہے اور ان کونسلروں کو منتخب دکھا یا گیا ہے جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔ محکمہ ڈاک کے کسی بھی یونٹ میں نو پ کا کوئی الیکشن نہیں ہو ا ہے۔ لیکن نوپ کے حقیقی نمائندوں ، جو کارکنوں کے لئے درد رکھتے ہیں اور ادارے کو بچانا چاہتے ہیں ، نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کر دی ہے کہ نام نہاد جعلی نوپ قیادت کو منتخب ہونے سے روکے اور پورے پاکستان میں گراس روٹ لیول پر الیکشن کرا یا جائے۔
چونکہ ایک طرف حکومت ڈاک کو نجکاری میں دینا چاہتی ہے اور دوسری جانب ڈاک کی تمام اراضی کو کوڑیوں کے مول فروخت کر کے کمیشن کے ذریعے مال بنانا چاہتی ہے جس سے موجودہ 46ہزار ملازمین کا مستقبل تاریکی میں چلا جائے گا ، اس لئے ضروری ہے کہ ملک کے تمام کارکن فاؤنڈیشن کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملائیں اور انتظامیہ کے گماشتوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں ۔ اسی جعلی قیادت کی ملی بھگت سے ہی اراضی فروخت ہو نے جا رہی ہے اور کل کو نجکاری بھی ہو جائے گی۔ آئیے محکمہ ڈاک کے 46ہزار ملازمین یک زبان ہو کر یہ آواز بلند کریں کہ محکمہ ڈاک چند مٹھی بھر حکمرانوں اور بیوروکریسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ڈاک سمیت تمام قومی ، سر کاری اور صنعتی ادارے پاکستان کے 18کروڑ عوام اور محنت کشوں کی ملکیت ہیں ۔ کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ قومی فلاحی اداروں کو اپنے مفادات کی خاطر نجکاری میں دیں اور اداروں کی قیمتی اراضی کو کوڑیوں کے مول لیز پر فروخت کریں ۔ آج ہم عہد کر تے ہیں کہ اداروں کی بحالی اور ان کو بچانے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کر یں گے ۔
اس کے ساتھ ہم یہ عہد کر تے ہیں کہ محنت کشوں کی صفوں میں جو لوگ کالی بھیڑوں کی شکل میں موجود ہیں انہیں اپنے اتحاد اور اتفاق سے نکال باہر کریں گے۔اپنی قیادت کو سامنے لائیں گے جو نجکاری کے خلاف انتظامیہ کے سامنے آواز بلند کرے اور محکمے کے ملازمین کے حقوق کا سودا کرنے کی بجائے ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔
سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی!
مطالبات
۱۔ محکمہ ڈاک سمیت تمام اداروں کی نجکاری کو فی الفور ختم کیا جائے ۔
۲۔ نام نہاد ڈاک فاؤنڈیشن کے توسط سے 33 جی پی اوز کی اراضی کو لیز پر دینے کے فیصلے کو فی الفور واپس لیا جائے۔
۳۔ محکمہ ڈاک کے ملازمین کی یونین نوپ میں انتظامیہ کی جانب سے بے جا مداخلت بند کی جائے ۔ نیز محکمہ ڈاک نوپ یونین میں فی الفور گراس روٹ لیول پر الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ جمہوری پراسیس مکمل ہو سکے ۔
۴۔ محکمہ ڈاک میں نام نہاد فاؤنڈیشن کو ختم کیا جائے ۔ فاؤنڈیشن کے توسط سے ڈاک کے لئے مختلف چیزوں کی خریداری ، جو کمیشن خوری کے لئے کی جا تی ہے ، فی الفور بند کی جائے ۔ فرنیچر ، کمپیوٹر ، موٹر سائیکل ، دوائیں اور اسٹیشنری وغیرہ کی خریداری مقامی سطح پر کی جائے ۔
۵۔ محکمہ ڈاک کے سٹاف کو ناقص وردی دینے کی بجائے رقم فراہم کی جائے تاکہ مقامی سطح پر سٹاف خود وردی خرید کر سلائی کروائیں ۔
۶۔ یوٹیلٹی بلز پر ملنے والے Incentive کو بحال کیا جائے ۔
۷۔ مہنگائی کے تناسب سے ڈاک ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ ملازمین کے بچوں کو تعلیم اور علاج مفت فراہم کیا جائے ۔
۸۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ڈاک ملازمین کو ہاؤس ریکوزیشن دیا جائے نیز ریکوزیشن حاصل کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنا یا جائے ۔
۹۔ محکمہ ڈاک بلوچستان کے تمام ملازمین کو صوبائی ملازمین کی طرح 40 فیصدمہنگائی الاؤنس دیا جائے ۔
۱۰۔ وفاقی وزیر ڈاک خانہ جات کی جانب سے سیاسی وابستگی اور اقربا پروری کی بنیاد پر محکمے میں ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کو بند کیا جائے ۔ نیز سن کوٹہ کی بنیاد پر فوت شدہ ملازمین کے بچوں کو
ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیا جائے ۔