مبالغے اور مغالطے

تحریر۔قمرالزماں خاں:-

ماہرین کہتے ہیں کہ جان داروں کی بقاء کا انحصار ’’موجود حالات میں خود کو زندہ رہنے کے لوازمات سے مزین رکھنے اور اسکے اظہار میں مضمر ہے‘‘۔ملک عزیز میں قبل از وقت سیاسی گرماگرمی کی لہراسی قسم کی کیفیت کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔جسے اقبال کے لفظوں میں ’’پلٹنا جھپٹنا ،جھپٹ کر پلٹنا ۔۔لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔مگر اس پلٹنے اور جھپٹنے میں سیاسی عقابوں کے حواس ان کے کنٹرول سے باہر دکھائی دیتے ہیں ۔کوئی دو چار لاکھ کے جلسے کوزندگی کو مٹادینے والی آفت ’’سونامی‘‘ سے تعبیر کررہا ہے اور کسی کو مانگے تانگے کے چالیس پچاس ہزار لوگ طوفان دکھائی دیتے ہیں،کچھ احباب کو پاکستان کا ’’دفاع ‘‘اچانک خطرے کے زون میں دکھائی دے رہا ہے اور کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی نقل و حرکت اپنی خواہش کے بالکل برعکس دکھائی دینے پر جھنجھلاہٹ محسوس ہورہی ہے۔ ویسے توکراچی جیسے شہر میں جہاں کسی بھی سرگرمی کو ’’ خون میں ڈبودینے ‘‘ کی ریت چلی آرہی ہے میں بظاہر مختلف نظر آنے والی قوتوں کے ’’ کامیاب اور بھرپور‘‘ جلسوں کا انعقاد ظاہر کرتا ہے کہ آنے والے الیکشن سے پہلے کئی طرح کے ’’ مفاہمتی معاہدے ‘‘ وجود میں آچکے ہیں اور کچھ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
مگر29جنوری کا دن پاکستانی کی تاریخ میں منفرد تھا کہ ایک ہی دن میں بنیاد پرستوں یا رائیٹ ونگ کے مختلف ،فرقوں اور حصوں کے کراچی،ملتان،لاہور اور گوجرانوالہ میں جلسے تھے۔ان جلسوں میں بہت سی باتیں تاریخی اعتبار سے غلط،بے بنیاد اور محض جوش خطابت کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہیں ۔مگر ایک بات سب سے اہم ہے کہ ان جلسوں میں ایک ہی پکار یا خواہش مشترکہ طور پر دکھائی دیتی ہے وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جم کر بیٹھنے کی آرزو!!! اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پر آنے کی خلش کا اظہار اس کو گالیاں دے کر بھی کیا گیا اور ’’دفاع پاکستان‘‘ جیسے مبہم نعرے سے بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی سعی کی گئی۔
لاہور کے جلسے میں جناب جاوید ہاشمی نے ’’انکشاف ‘‘کیا ہے کہ نواز لیگ نے صرف جیبیں بھریں ہیں اور شریف برادران کے ساتھ انکے گھر والے بھی نہیں ہیں۔اس جملے کے پہلے حصے پر تو کسی کو کسی قسم کاشک نہیں مگر یہ کہنا کہ شریف برادران کے ساتھ ان کے گھر والے بھی نہیں ہیں کافی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔شریف برادران کے گھر والے ان ساری ’’برکات ‘‘ سے مستفید ہورہے ہیں جو ان برادران کی سیاست سے حاصل ہورہی ہیں اس لئے ان کا اپنے ’’کماؤ ‘‘بزرگان سے کیا اختلاف ہوسکتا ہے؟ جاوید ہاشمی خود کو ’’ باغی‘‘ قرار دیتے ہیں مگر ان کی نواز لیگ اور ’’برادران‘‘ سے بغاوت کا اظہار اس وقت ہوا جب ان کو نواز شریف نے خود سے عملاََ الگ کرلیا تھا اور پارٹی میں ان کی کوئی فعال حیثیت نہیں رہنے دی گئی تھی ،اس فرسٹریشن کی کیفیت میں انہوں نے اپنے ذاتی رنج کو سیاسی لفظوں میں پرونا شروع کیا تو اسکو بغاوت کی بجائے ’’ذاتی غصہ‘‘ ہی قراردیا جاسکتا ہے ورنہ جب نواز شریف نے ایک سے چالیس فیکٹریاں بنائی تھیں اور چودویں ترمیم کے ذریعے پارٹی لیٖڈر شپ کی آمریت کو آئینی شکل دی تھی ،ملک میں نفرت اور ذاتی مفادات کی سیاسی کو پروان چڑھایا تھا،’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا تعصب پھیلانے والا نعرہ ترتیب دیا تھاتوتب جناب جاوید ہاشمی نے انکے تمام فیصلوں کا ساتھ دیا تھا،ان کی کسی حرکت سے تب کسی ’’باغی ‘‘کے ان کے وجود میں پنپنے کا ثبوت نہیں ملتا اور پھر اس باغی نے جس ’’سونامی‘‘ کی بیعت کی ہے اس کے بارے میں حافظ حسین احمد نے گوجرانوالہ کے جلسے میں دعوی کی ہے کہ ہمیں ’’سونامی ٹیم ‘‘ کے سلیکٹرکا علم ہے!! چونکہ حافظ حسین احمدعرصہ دراز سے ’’ سلیکشن آفس‘‘ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کے دعوے کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا ۔
گوجرانوالہ کے جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے عجیب و غریب قسم کی باتیں کئیں ۔ایک تو وہ اپنے پرانے رفیقوں پر خوب برسے۔چونکہ ان دنوں ’’ دفاع پاکستان‘‘ نامی ریلیوں اور جلسوں کے انعقاد کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک ’’قدامت پسند ‘‘ دھڑے کی خواہشات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے اس لئے مولانا اسٹیبلشمنٹ پر خوب برسے مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور اپنے ’’مشترکہ کارناموں ‘‘ پر قوم سے معافی مانگنے کی بجائے ان کی نگاہ الفت کے بدل جانے پر دل کھول کر تنقید کی۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر یہ دعوی کیا کہ ماضی میں انہوں نے( افغانستان میں جنگ جوئی کرنے والے عناصر) نے افغانستان میں ایک سپر پاور سویت یونین کو شکست دی اور سوشلزم کا خاتمہ کردیا اور اب خود امریکہ میں سرمایہ داری نظام کے خلاف ’’ آکو پائی وال سٹریٹ ‘‘ تحریک چل پڑی ہے ،مولانا کے بقول آکو پائی وال سٹریٹ کی تحریک میں اسلامی نظام معیشت کے اجراء کے مطالبات کے بینرز نظر آتے ہیں ،جس کی وجہ سے مغربی طاقتیں اسلامی تحریکو ں سے گھبرا رہی ہیں‘‘۔مولانا کی شہرت اگرچہ ایک ’’ چانکیہ سیاست دان‘‘کی تو بہت ہے اسی خوبی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں پر مولانا نے بہت بڑی ڈنڈی ماری ہے ۔ایک تو افغانستان میں جنگ (جس میں لاکھوں افغانیوں کا قتل عام یقینی طور پر مولانا کے تربیت یافتہ کیڈر نے امریکی مدد سے کیا تھا)اگر کسی نے جیتی تو وہ امریکہ تھا نہ کہ اسکے تنخواہ دار اور پالتوجہادی،دوسرا یہ کہ سویت یونین کا انہدام کسی مولوی یا جہادی گروپ کی وجہ سے نہیں ہوا نہ ہی اس انہدام کا تعلق افغانستان کی جنگ و جد ل سےتھا،بلکہ اس کی وہی وجوہات تھیں جو سویت یونین کے بانی لینن نے ’’بالشویک انقلاب ‘‘ کے بالکل آغاز میں ہی کہہ دیا تھا۔لینن کسی طور بھی روس میں انقلاب کو کسی قومی تناظر میں کامیاب ہوتا نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ اس نے متعدد دفعہ کہا تھا کہ سویت یونین روس کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا نیا نام ہے جو عالمگیر سوشلسٹ انقلابات کے بعد تکمیل پائے گا،لینن نے تو یہاں تک کہا تھاکہ اگر جرمنی کے انقلاب کے لئے روسی انقلاب کی قربانی دینی پڑی تو ہمیں ایک منٹ کے لئے سوچنا نہیں چاہئے۔مگر لینن کی انقلاب کے فوراََ بعد بیماری اور پھر موت ،خانہ جنگی،قحط،24سامراجی ممالک کا روس پر یکجا ہوکر حملہ اور اسکے تحفظ میں لڑتے ہوئے انقلابی کیڈر کی اکثریت میں مارے جانے کے اسباب پر ’’سٹالن ازم ‘‘ کا قیام جس نے ایک بین الاقوامی انقلاب کو ایک ملک کی سرحدوں میں مقید کرکے رکھ دیا جس سے روس کا انقلاب کلاسیکل مارکسسٹ بنیادوں پر عالمگیریت کی طرف بڑھنے کی بجائے محض ایک قومی انقلاب بن کر رہ گیا اور اسکی تمام تر ’’ منصوبہ بند معیشت‘‘ کی عظیم ترین حاصلات کو زائل کردیا گیاجس کی وجہ سے انقلاب کا زوال پذیر ہونا ناگزیر تھا۔ جس کا آغاز 1926ء سے شروع ہو گیا تھا اور انت1991میں ہوا ۔اس میں کسی اور کو ئی کارنامہ نہیں ہے بلکہ روسی انقلاب کو آغاز میں ہی رد انقلاب نے آن گھیرا تھا ۔روسی انقلاب کے زوال کی پیش گوئی خود انکے بانیوں نے کردی تھی اور تب اسلامک بنیاد پرستی اس قابل بھی نہیں تھی کہ اس قسم کا تجزیہ تو کیا ایسا سوچ بھی سکتی۔ مولانا فضل الرحمان نے جو تبصرہ امریکہ میں چلنے والی’’آکو پائی وال سٹریٹ ‘‘ تحریک کے متعلق کیا ہے اس میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔چونکہ اس تحریک میں ہر طرح کے عناصر موجود ہیں لہذا کسی ایک آدھ مسلمان ’’تحریکی‘‘ کے ہاتھ میں ایسا بینر ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے جس کا تذکرہ مولانا نے اپنے گوجرانوالہ جلسے میں کیا ہے مگر یہ کہنا کہ پوری وال سٹریٹ تحریک کا کردار ’’اسلامی معیشت کے مطالبے‘‘پر مبنی ہے اس صدی کا سب سے گمراہ کن جھوٹ ہے۔’’آکو پائی وا ل سٹریٹ ‘‘ تحریک میں اگر کسی ایک آدھ شریک کے ہاتھ میں ’’کسی قسم کے اسلامی نظام معیشت ‘‘کے حق میں نعرے پر مبنی بینر دیکھنے میں آگیا ہے تو اسکے مقابلے کوئی دس ہزار بینرز سوشلزم کے حق میں بھی وہاں دیکھے جاسکتے ہیں مگر جسیے ’’آکو پائی وا ل سٹریٹ ‘‘ابھی تک کوئی ’’سوشلسٹ ‘‘تحریک نہیں ہے اسی طرح وہ اسلامی پسند تحریک تو بالکل ہی نہیں ہے ۔لیکن اس تحریک کے اگر اکثریتی نعرے دیکھیں جائیں تو اس تحریک کا کردار واضع طور پر ’’طبقاتی ‘‘ ہے۔اس کو 99فی صد لوگوں کا ایک فی صد حکمرانوں کے خلاف احتجاج بھی کہا جارہا ہے۔بیشتر شرکاء کے ہاتھ میں کارل مارکس کی کوٹیشنز والے پلے کارڈ ہیں۔نوجوانوں نے چی گویرا کے فوٹو والی شرٹیں پہنی ہوئی ہیں۔یہ سب کچھ اسلامی نہیں ہے۔پھر’’ اسلام کا نظام معیشت‘‘ خود کوئی واضع ترکیب نہیں ہے۔دیگر تمام سائنسز کی طرح معیشت بھی اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی بلکہ دیکھنے والی بات صرف یہی ہوتی ہے کہ کسی نظام معیشت میں ’’پیداواری ذرائع ‘‘ پر کس کا طبقے کا غلبہ ہے۔اگر کسی بھی معیشت خواہ وہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی ،پیداواری ذرائع سے اکثریتی محنت کش طبقے(جو ان پیداواری ذرائع پر اپنی محنت صرف کرکے پیداوار حاصل کرتے ہیں) کا رشتہ محنت صرف کرکے پیداوار سے لاتعلق کردیے جانے کا ہے او ر نتیجے کے طور پرپیداوارکسی اقلیتی طبقے کے پاس چلی جاتی ہے تو پھرآج کے دور میں یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کہلائے گا اس میں چاہئے جیسی مرضی ترمیم کرکے اصطلاحات کے نام مذہبی رکھ دیے جائیں۔ذاتی ملکیت اور شرح منافع کے قوانین کی موجودگی میں نظام معیشت کا نام سرمایہ داری ہی بنتا ہے کچھ اور نام دینا دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن اتنے بے خبر نہیں ہیں کہ وہ نظاموں کے نظریات اور ترکیبوں سے واقف نہ ہوں مگر لگتا ہے کہ عرب انقلابات کے بعددنیا بھر میں موجودہ نظام اور اسکے نظریاتی حلیفوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں نے مولانا او ر انکے ساتھیوں کے اعصاب پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔یہ تحریکیں اگر چہ کچھ آمریتوں کو اکھاڑ چکی ہیں اور کچھ کا دھڑن تختہ ہونے کے قریب ہے مگر ابھی تک یہ تحریکیں اپنے عبوری دور سے گزر رہی ہیں۔مصر کے انتخابات اور نتائج کے غلط معنے اخذ کرنے والوں کو جلد اندازہ ہوجائے گا کہ عام لوگ حکمرانوں کی تبدیلی کی بجائے سرمایہ داری کے خاتمے اور محنت کش طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے والے نظام کے علاوہ اور کوئی خواہش نہیں رکھتے ۔ان تحریکوں کا آغاززندگی کے انتہائی سادہ تقاضوں کے تحت ہوا۔بے روزگاری،مہنگائی،محنت کا استحصال،سرمایہ دارانہ جبر(جس کی ایک شکل اقتدار پر قابض گروہ کی صورت ہوتی ہے)جیسے مسائل کے سرمایہ داری کے اند ر ناقابل حل ہونے کی وجہ سے لوگ اس نظام کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔جس قسم کی زندگی وہ چاہتے ہیں اوروہ کیسے ملے گی ان سوالوں کا جواب وہ جلد حاصل کرلیں گے۔ ابتدائی طور پرانقلابی پارٹی اور کیڈرکے فقدان کے نتیجے میں جن مضمرات کا انہیں سامنا کرنا پڑا ہے وہ خود لوگوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔کہا جاسکتا ہے کہ مصر ،تیونس ،یمن ،لیبیا سمیت باقی تمام ممالک جہاں تحریکیں کسی نہ کسی شکل یا ھئیت میں ہیں انکو اپنے اگلے مراحل میں درپیش سنجیدہ نظریاتی معاملات کو حل کرنا پڑے گا۔ اور ایسا ہونے پر مولانا اور ان کے نظریاتی اتحادی (امریکی سامراج ) جن کے ساتھ ان کا آج کل معمولی قسم کا اختلاف چل رہا ہے ،پھر اکھٹے ہوکر محنت کش طبقے کے خلاف لڑ رہے ہوں گے ۔مگر اب کسی مردہ یا نیم مردہ نظام کے بس کی بات نہیں کہ وہ نئے نکلنے والے سورج کی راہ روک سکے!!