پیپلز پارٹی کا بحران: گھر، آگ اور چراغ!

| تحریر: تصور قیصرانی |

جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی ہمیشہ سے ہی سرمایہ دارانہ ثقافت کی بنیادی خصلتیں ہیں۔ لیکن نظام کے عروج اور ترقی کے دنوں میں کم از کم جھوٹ پر سچ، منافقت پر سمجھداری اوردھوکہ دہی پر احساسِ ذمہ داری کا لبادہ چڑھا دینے کا تکلف ضرور برتا جاتا تھا۔ اور طویل معاشی عروج اور سیاسی جمود کے ادوار میں تو حکمران طبقات کے لیے صورتحال اس حد تک موافق ہوتی تھی کہ ان کے ہر بیان، پالیسی اور حکمتِ عملی کو ہی اخلاقیات کے مستند اصولوں کا درجہ حاصل ہو جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ حکمران طبقات کی انتہائی تیز ترین اور مسلسل بڑھتی ہوئی شرحِ منافع کی وجہ سے دولت اور آمدنی کا اس حد تک وسیع الجثہ ہونا ہوتا تھا کہ جس کے باعث حکمران طبقات کی تمام تر پرتوں اور شعبوں میں استحکام یقینی ہو جاتا تھا۔ اور وقتی طور پر ہی سہی لیکن حکمران طبقات کے مابین پیشہ وارانہ اور شعبہ جاتی مسابقتوں کے باوجود ہم آہنگی، رواداری اورباہمی تعاون کی فضا برقرار رہتی تھی۔ حتیٰ کہ حکمران طبقے کو مکمل طور پر ایک یکسانیت سے بھرپور (Homogenius) اکائی کے طور پر تصور کیا جانے لگتا تھا کہ جن کے مابین کسی قسم کے مالیاتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی عدم توازن کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکتا ہو۔
zulfiqar mirza cartoonلیکن مشہورِ زمانہ کہاوت ہے کہ ’اچھے دن ہمیشہ نہیں رہتے‘۔ پھر بحران کے ادوار ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ وہی تمام عوامل جو ترقی اور عروج کے ضامن ہوتے ہیں وہی اپنی نفی میں بدل کر تباہی اور زوال کا باعث بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ داری کہ ساری تاریخ عروج و زوال کے انہی چکروں سے بھری ہوئی ہے۔ ان بدلتی ہوئی کیفیات میں جب معیشت بحران سے نکل کر عروج یا عروج سے نکل کر زوال کی طرف گامزن ہوتی ہے تو حکمران طبقات کی مختلف پرتوں اور شعبوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اپنا اظہار کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جب معیشت گہرے زوال کے بعد دوبارہ ابھار کی طرف جاتی نظر آنے لگتی ہے تو ہر کوئی اس ابھارسے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب عروج کے بعد زوال کا آغاز ہوتا ہے تو سب یہی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ اس کی قیمت حکمران طبقے کے کسی اور دھڑے اور پرت کو چکانی پڑے اور وہ خود اس معاشی زلزلے کی تباہکاریوں سے محفوظ رہ پائے۔ یوں حکمران طبقے کی مصنوعی یک رنگی اور رواداری کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ ان بدلتی ہوئی کیفیات میں محنت کش عوام کے اجتماعی شعور کو لگنے والے بڑے بڑے دھچکے ہوتے ہیں جو انقلابی تحریکوں کی شکل میں اپنا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے حکمران طبقات میں بے چینی اور خوف وہراس بہت تیزی سے بڑھتا ہے جس کی وجہ سے ایک نفسانفسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور حکمران طبقے میں پھوٹ اور تنازعات منظرِ عام پر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لینن کے الفاظ میں یہ انقلابی کیفیت کی پہلی اہم علامت ہوتی ہے اور اسکی وجہ عوامی لاوے کی حدت اور اس کے پھٹ جانے کے امکانات کا آشکار ہو جانا ہوتا ہے۔
لیکن پاکستان کی طرز کے معاشرے جہاں سرکاری معیشت کے متوازی اس سے زیادہ بڑے حجم کی غیر قانونی اور کالی معیشت نہ صرف یہ کہ موجود ہو بلکہ سرکاری معیشت سے کئی گنا زیادہ شرح سے ترقی کر رہی ہو تو وہاں حکمران طبقے کی پھوٹ تمام ثقافتی پراگندگیوں اور نفسیاتی غلاظتوں کی تمام حدیں پار کر جاتی ہے۔ لعن طعن، گالم گلوچ، الزام تراشی، سینہ زوری، دھکم پیل اور عزتوں کا اچھالا جانا معمول کی بات بنتا چلا جاتا ہے۔ چند سالوں سے پاکستان میں بھی اسی طرح کی روایت چل نکلی ہے۔ خاص کر سیاست دانوں کاوہ تعارف جو ان کے اچھے وقتوں کے سیاسی دوست رنجش کا اظہار کرنے کے لیے کرارہے ہیں، وہ قابلِ توجہ ہے۔ ایک طویل عرصہ عمران خان نے نواز شریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کو ننگا کیا، اس کے بعد پھر الطاف حسین کی MQM اور نواز شریف کی نون لیگ نے بھی عمران خان کو آئنہ دکھانے کی کوشش کی۔ افتخار چوہدری کا حقیقی تعارف پہلے فیصل رضا عابدی نے کرایا پھر یہ ذمہ داری بھی عمران خان نے لے لی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کاآج کل چہرہ آصف علی زرداری ہے اور آصف علی زرداری کو آئنہ دکھانے (یعنی بلیک میل کرنے) کی ذمہ داری ذوالفقار مرزا کو سونپ دی گئی ہے۔ حالانکہ اس تعارفی پروگرام میں کیے جانے والے انکشافات بہت ہی سنسنی خیز ہیں مگر اس سے سیاست دان شرمندہ ہونے کی بجائے اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ الزامات کی بوچھاڑ کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اگر وہ خود بدعنوان ہیں بھی تو کیا ہوا ان کے ماضی کے ’دوست‘ بد عنوانی میں ان سے بڑھ کر ہیں۔
آصف علی زرداری اور ذوالفقار علی مرزا کے بیچ میں جاری آجکل کی (کبھی سرداورکبھی گرم) جنگ درحقیقت خود کلیدی حیثیت کی حامل نہیں ہے بلکہ محض اس خاموش وائرس کی علامت ہے جو بہت عرصہ قبل پیپلز پارٹی کے ’جگر‘ میں گھس گیا تھا اور اب فعال ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی کے سیاسی جسم میں خون کی گردش کو خشک کرتا چلا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اب اپنے ارتقا کی انتہائی فکر انگیز منزل پر پہنچ چکی ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے عمومی ارتقا پر نظر ڈالنی ہو گی۔ پاکستان میں پہلی بار اپنی مدت حکومت مکمل کرنے والی پیپلز پارٹی پر قابض قیادت اسے اپنا کارنامہ قرار دیتی رہی۔ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جس میں پارٹی ہونے کی کوئی خصوصیت موجود ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ہجوم ہے جس کی قیادت آجکل سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نو دولتیوں اور سیاسی مسخروں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی یوں تو 1968-69ء میں بھٹو کی قیادت میں سوشلزم کے نعرے پر وجود میں آئی تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی سوشلزم کی بجائے مصالحت کی راہ پکڑ لی گئی (جس کا اظہار ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا میں کیا تھا) لیکن پھر بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں عوام اور محنت کش طبقے کو بہت سی مراعات دی گئی تھیں۔ یقیناًاس کی وجہ 1968-69ء کی انقلابی تحریک تھی، عوام کی طاقت تھی اور محنت کش طبقے کا رعب تھا۔ لیکن پھر بھی جو کچھ پیپلز پارٹی نے اس دور حکومت میں دیا تھا اس نے اس پارٹی کو محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی بنا دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی عوامی پارٹی تھی، محنت کش طبقے نے اپنی تمام تر امیدیں اس سے وابستہ کر دیں۔ پاکستان میں سیاسی پارٹی سے مراد ہی پیپلز پارٹی لیا جاتا تھا۔ فوجی آمریتوں کے بعد اس روایت کو عوام میں فوج کی ساکھ بحال کرنے کے لیے برسرِ اقتدار لایا جاتا رہا ہے۔ لیکن عوام کی اس پارٹی سے وابستگی اور امیدوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارٹی کو مظلوم بنایا جاتا رہا۔ پھر بھی محنت کشوں نے پارٹی کو نہیں چھوڑا۔ سانحہ کارساز (کراچی) میں شہید ہونے والے افراد اس امر کا ثبوت ہیں کہ غریب عوام نے پارٹی کا آخری حد تک ساتھ دیا۔ لیکن پارٹی نے اپنا پہلا مکمل اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو کچھ عوام کے ساتھ کیا اس نے عوام کی امیدوں پر صرف پانی نہیں پھیرا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ اب اس پارٹی کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پارٹی کے پاس نہ تو قیادت ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے۔ بلکہ اب پیپلز پارٹی ذوالفقار مرزا کے الفاظ میں ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ جس کی ہر چال، ہر فیصلہ اور ہر عہدیدار منافع جمع کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ منافع پیپلز پارٹی کے عہدیدار وں کے اثاثوں میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ 1998ء میں احتساب بیورو کے سنیٹر سیف الرحمن نے انکشاف کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے، آصف زرداری کے اوراپنے مہروں کے نام پر 22 ارب روپے کی زمین خریدی تھی۔ اسی رپورٹ میں ان مہروں کے ناموں کا بھی انکشاف کیا گیا۔ جس میں اقبال میمن، ذوالفقار مرزا، غنی انصاری، حسین لوائی، سلمان فاروقی، عثمان فاروقی اور جاوید پاشا کے نام نمایاں ہیں اور ان میں سے کچھ پہلے ہی ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب آصف علی زرداری کا نام (مسٹر ٹین پرسنٹ) کافی شہرت حاصل کر گیا تھا۔ خیر کچھ بھی ہو اس وقت لوٹ مار کے بھی قاعدے تھے، اخلاقیات تھی مگر اب تو سب بدل چکا ہے۔ لوٹ اب نہ صرف سیاست کا حصہ بنا دی گئی ہے بلکہ اخلاقیات کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے اس میں بدعنوانی کو باقاعدہ ایک قدر کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی اندرونی لڑائی اب اندرونی نہیں رہی اس کے تضادات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اور وہ تضادات در اصل ہیں کیا؟ کیا کوئی بہت بڑی نظریاتی جنگ چل رہی ہے۔ کیا واقعی ذوالفقار مرزا اپنی ہوس سے توبہ کر چکا ہے اور اسے پیپلز پارٹی کے باقی عہدیداروں کی بد دیانتی سے نفرت ہو گئی ہے؟کیا واقعی اسے آج پتا چلا ہے کہ زرداری سندھ حکومت کو ایک کاروبار کے طور پر چلا رہا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں کوئی نظریاتی لڑائی نہیں چل رہی بلکہ زیادہ درست الفاظ میں پاکستان پیپلز پارٹی میں اب کوئی نظریہ باقی نہیں رہا۔ بلکہ یہ ایک خالص مالیاتی جنگ ہے جس میں ایک طرف ذوالفقار مرزا ہے جس سے مراعات چھین لی گئی ہیں اور دوسری طرف وہ عہدیدار ہیں جن کی پانچوں انگلیاں ابھی تک گھی میں ہیں۔ اور عوام یہ تماشہ بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔
peoples party cartoonذوالفقار مرزا 1992ء سے ہی پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے اثاثوں کو محفوظ بنانے کے کام پر معمور رہا ہے۔ اور اس نے اپنے اثاثے بھی بنائے۔ اس وقت ذوالفقار مرزا کے بدین میں دو شوگر ملز ہیں۔ ایک بنگلہ کلفٹن میں ہے، گلشن اقبال میں دو فلیٹس ہیں، اسلام آباد F-6میں ایک مہنگا مکان ہے، بدین میں ہی ایک سنیما ہال کا مالک ہے، 400 ایکڑ زرعی رقبہ بنایا ہے جبکہ سوئس بینک میں ایک اکاؤنٹ ہے جس میں موجود رقم کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ یہ سب اثاثے پیپلز پارٹی کی چھتری تلے ہی بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح خورشید شاہ، آغا سراج درانی، سعید غنی اور دیگر بے شمار پارٹی قائدین نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اب جب زرداری اور ذوالفقار مرزا کے مابین مالیاتی اور ملکیتی اختلافات ہوئے تو اس نے آصف زرداری کے راز فاش کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ لیکن پارٹی کے بحران کی یہ کیفیت یہیں رکنے والی نہیں ہے۔ فریال تالپور اور قیادت کی دیگر مسلط کردہ شکلیں بہت سے لوگوں کو چبھ رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں پارٹی میں مزید خلفشار بڑھتا چلا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محنت کش عوام کب تک اس سارے ڈرامے کو دیکھتے اور برداشت کرتے رہیں گے۔ وہ اہم تاریخی اسباق سیکھ رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا جیسے بدعنوان اور داغدار ماضی والے شخص کے کہنے پر وہ یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ تمام مسائل اور پارٹی کی موجودہ حالت کی وجہ محض آصف علی زرداری ہے اور جب بلاول پارٹی قیادت سنبھالے گا تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ بلکہ بے نظیر کے قتل اور تحریکوں کی پسپائیوں کے تجربے سے اب وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوں گے کہ اپنی آئندہ نسلوں کی نجات کے لیے خود تاریخ کے میدان میں کود کر اپنا مقدر اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ اور اب کی بار جب محنت کش میدان میں اترے تو کسی روایت کی ’زنجیر‘ ان کا راستہ روک نہیں پائے گی اور وہ اس نظام کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔

متعلقہ:

بھٹو تیرے قاتل؛ تیرے وارث؟

پیپلز پارٹی: یہاں سے کہاں؟

نظریات کی دھوکہ دہی!

سیاست کی کمرشلائزیشن

5 جولائی: چار دہائیوں پر محیط یومِ سیاہ