صیہونیت کی درندگی، آخر کب تک؟

[تحریر: لال خان]
مشرقی یوکرائن میں ملائیشیا کا مسافر طیارہ گرائے جانے کے المناک واقعے سے متعلق قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 9 دن کی فضائی بمباری کے بعد غزہ پر زمینی فوج کشی کا حکم صادر کر دیا۔ دو واقعات کا یہ امتزاج محض اتفاق نہیں ہے۔ 19 جولائی کی سہ پہر تک اسرائیلی جارحیت میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد، 77 بچوں سمیت 347 ہوچکی تھی۔ 21 جولائی کو مزید سو فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں سے 80 فیصد عام شہری تھے۔ زخمی یا اپاہج ہوجانے والے ڈھائی ہزار اس کے علاوہ ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت نازک ہے۔ 50 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ غزہ کی بربادی کو ملائیشین طیارے کی تباہی کے پیچھے چھپانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جہاز پر حملے کو کہیں ریاستی دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے، کوئی اسے ’نیم ریاستی‘ دہشت گردی کہ رہا ہے اور بعض تجزیہ نگار صرف دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ مغربی سامراج کی کٹھ پتلی یوکرائینی حکومت روس پر الزام تراشی کر رہی ہے تو روسی میڈیا یوکرائین کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ غزہ میں صیہونی ریاست کی وحشیانہ قتل و غارت گری پر مغربی میڈیا کی کوریج بذات خود صحافت کا قتل ہے۔
آج کے عہد میں میڈیا وار کی منصوبہ بندی اور تیاری عسکری جارحیت سے بھی پہلے کی جاتی ہے۔ آج سے پانچ سال پیشتر جب 2008-9ء میں غزہ پر جارحیت کے وقت امریکہ میں رجسٹرڈ ’’اسرائیل پراجیکٹ‘‘ اور عوامی رائے عامہ کا جائزہ لینے کے ماہر فرینک لنٹز کو ایک نئے ’’میڈیا گائیڈ‘‘ کی تیاری کا فریضہ سونپا گیا تھا جس کا مقصد اسرائیلی قیادت کے بیانات کو مبہم اور صیہونی ریاست پر تنقید کرنے والوں کے موقف کو مسخ کر کے اسرائیل کو ’’مظلوم‘‘ ثابت کروانا تھا۔ میڈیا پر اسرائیل کے حق میں بولنے والوں کو باقاعدہ ہدایات جاری کی گئیں کہ ٹون کو دھیما رکھا جائے اور بحث کو کچھ اس طرح سے گھمایا پھرایا جائے کہ اگر قبضے کا ذکر ہوتو امن کی بات چھیڑ دی جائے اور اسرائیلی جارحیت پر تنقید ہو تو حماس کی دہشت گردی اور اسرائیلی عوام کے تحفظ پر تقریر شروع کر دی جائے۔ اس حکمت عملی میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ جارحیت کے عروج پر بھی کارپوریٹ میڈیا پر اسرائیل اور اس کے مغربی پشت پناہوں کی جانب سے قیام ’’امن‘‘ کی کوششوں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ اسرائیل کی حمایت میں بولنے والوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بعد سارا زور راکٹ حملوں سے اسرائیل کے ’’خوشحال‘‘ شہریوں کی پریشانی پر دے دیا جائے۔ آج تقریباً پانچ سال بعد یہ سارا ڈرامہ مغربی کارپوریٹ میڈیا پر دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا جارہاہے۔ غزہ میں زخمی یا ہلاک ہونے والے بچوں کی فوٹیج دکھانے کے فوراً بعد ہی دوگنا ائیر ٹائم اسرائیل میں ’’خوف و ہراس‘‘ کے مناظر نشر کرنے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ ’’تصادم‘‘ میں اب تک صرف پانچ اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جن میں فرینڈلی فائر سے مرنے والے فوجی بھی شامل ہیں۔

رہائشی علاقوں پر اسرائیلی بمباری کا منظر۔ غزہ کا شمار دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں ہوتا ہے

صرف فوجی اہداف پر نشانہ لگانے کا اسرائیلی دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کی جانب سے ’’پیشگی وارننگ‘‘ کا پراپیگنڈا فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس پیشگی وارننگ میں چھٹی منزل پر رہنے والے خاندان(جس میں کئی چھوٹے بچے اور بیمار یا معمر افراد بھی شامل ہوسکتے ہیں) کو صرف ایک منٹ کا وقت دیا جاتا ہے۔ غزہ نام کے جیل خانے میں قیدعام فلسطینی شہری ہی اسرائیلی بموں اور گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غزہ کی 500 اسکوائر کلومیٹر کی پٹی میں 20 لاکھ فلسطینی مقید ہیں۔ مصر کی سرحد بند ہے، ایک طرف سمندر ہے اور باقی ہر طرف اسرائیل۔ انہیں محصور اور مفلوج کر کے مارا جارہا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں طبی امداد فراہم کرنے والی ایک تنظیم (MSF) کے عہدہ دار جوناتھن وٹال کے مطابق ’’انسانوں کی وسیع آبادی ایک کھلی فضا والی جیل میں پھنسی ہوئی ہے۔ وہ اسے چھوڑ بھی نہیں سکتے اور یہاں زندگی گزارنا بھی ایک عذاب ہے۔ اہم ترین ضروریات زندگی کی ترسیل بند کر دی گئی ہے۔ اس جیل میں رہنے والوں نے اپنے نمائندے منتخب کر رکھے ہیں اور سماجی خدمات کو منظم کیا ہوا ہے۔ کچھ قیدیوں نے مسلح گروہ بنا رکھے ہیں اور اس عمر قید سے تنگ آکر وہ جیل کی دیواروں کے اس پار راکٹ پھینکتے ہیں۔ لیکن جیل خانے کا داروغہ بھیانک تباہی کے آلات سے لیس ہے اور اپنے قیدیوں پر بارود برساتا رہتا ہے۔ ‘‘
اسرائیلی حکام کے مطابق آپریشن ’’حفاظتی فوقیت‘‘ (Protective Edge) حماس کا انفراسٹرکچر ختم ہوجانے تک جاری رہے گا۔ جس ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ وحشت برپا کی گئی ہے وہ اور بھڑکے گی۔ سامراجیوں کو یہ آپریشن بڑامہنگا پڑے گا۔ الجزیرہ کو انٹریو دینے والے غزہ کے ایک مسلح نوجوان کے مطابق ’’یہ کیا جہازوں اور بحری جہازوں سے ہم پر بم برسا رہے ہیں۔ غزہ میں فوج بھیجیں تاکہ ہم دشمن کی آنکھ سے آنکھ ملا کر جنگ لڑ سکیں۔ ‘‘
امریکی اور یورپی سامراج کی منافقت کا پردہ بھی ایک بار پھر چاک ہوچکا ہے۔ ملائیشیا کے مسافر طیارے کی تباہی کو ’’نا قابل برداشت دہشت گردی‘‘ قرار دینے والا اوبامہ اپنے وزیر خارجہ جان کیری سمیت صیہونی درندگی کی کھلی حمایت کررہا ہے۔ یورپی سامراجیوں کا کردار اگرچہ مختلف نہیں ہے لیکن امریکی حکمرانوں سے ذرا زیادہ سمجھدار ہونے کے باعث ان کی منافقت بے نقاب ہونے میں تھوڑا وقت لگ رہا ہے۔ سامراج کی داشتہ تنظیم اقوام متحدہ کا کردار سب سے زیادہ شرمناک ہے۔ ہمیشہ کی طرح غیر منتخب ’سکیورٹی کونسل‘ کا اجلاس ہوا۔ ’’جنگ بندی‘‘ کی اپیل کچھ ایسے کی گئی گویا اسرائیلی ریاست اور حماس کوئی ہم پلہ قوتیں ہیں۔ پچھلے 67 سال کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی درجنوں قرادادوں کو صیہونی ریاست گندے کاغذ کے ٹکڑے سمجھ کر کوڑے دان میں پھینکتی آئی ہے۔ نصاب کی کتابوں سے لے کر کارپوریٹ میڈیا تک ، اقوام متحدہ کے ذریعے مسائل کے حل کا بھاشن بہر حال جاری و ساری ہے۔ اسرائیلی ریاست کی صیہونی بربریت کا حالیہ سلسلہ مزید کچھ عرصہ جاری رہے گا۔ پھر ’’مذاکرات‘‘ ہوں گے اور ایک مخصوص عرصے کے لئے ایک غیر یقینی جنگ بندی ہوگی۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔
اسرائیل اگر خطے میں امریکی سامراج کا ’’پارٹنر‘‘ ہے تو محمود عباس سمیت بیشتر عرب حکمران اس کے دم چھلے ہیں۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ فلسطین کے عوام، خصوصاً نوجوانوں نے نامساعد ترین حالات، جبر کی انتہا اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی ایک دیوہیکل اور وحشی دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ دوسری جانب ’’جمہوری‘‘ اسرائیل بھی اتنا خوشحال اور آسودہ نہیں ہے۔ حالیہ خلفشار کا اہم پہلو اسرائیل کے اندر صیہونیت کے خلاف ہونے والے مظاہرے ہیں جنہیں کارپوریٹ میڈیا کا کوئی دھڑا کوریج نہیں دے رہا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (Kenneset) کے مطابق 75 فیصد اسرائیلی شہری حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ دوسرے ہر سرمایہ دارانہ ملک کی طرح اسرائیل کے حکمران بھی عوامی اخراجات میں سخت گیر کٹوتیاں کر رہے ہیں۔ 2011ء کی ’’عرب بہار‘‘ کے دوران، اسرائیل میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے (آبادی کے تناسب کے لحاظ سے) سب سے بڑے تھے۔ جولائی 2011ء اور اس کے بعد کے مہینوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اسرائیل کی کل آبادی کا 10 فیصد یروشلم، تل ابیب اور حائفہ کی سڑکوں پر ’’سوشلزم اور سماجی انصاف‘‘ اور ’’مبارک، اسد، نیتن یاہومردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔
فلسطینی نوجوانوں کی جرات اور عزم اپنی جگہ لیکن ایٹم بم سے لے کر جدید ترین ٹینک، فضائیہ، بحریہ اور میزائل سسٹم سے لیس اسرائیل کی جنگی مشینری کا مقابلہ پرانی کلاشنکوف، پتھر اور پٹاخہ راکٹوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ مذاکرات ایک بیہودہ مذاق بن کے رہ گئے ہیں۔ پچھلی چھ دہائیوں کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کی صیہونی ریاست کبھی بھی اپنے پڑوس میں ایک آزاد اور خودمختیار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہونے دے گی۔ صیہونی ریاست کو اکھاڑے بغیر آزادی فلسطین ایک خواب ہی رہے گی۔ صیہونیت کی وحشت کے خلاف جدوجہد میں فیصلہ کن کردار اسرائیل کے محنت کش اور نوجوان ہی ادا کر سکتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے عوام کی یکجہتی صرف طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ آج فلسطین اور اسرائیل میں ایک نئے مشترکہ انتفادہ کی ضرورت ہے جس کی فتح پورے مشرق وسطیٰ میں سامراجی جبر و استحصال اور ریاستی دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز بنے گی۔ ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی مشرق وسطیٰ کو اس نظام کی بربادیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔

متعلقہ:
مسئلہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ کا کہرام
آزادی فلسطین کہاں کھو گئی؟
مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟