| تحریر: لال خان |
ویسے تو نواز شریف نے پناہ موٹرویز بنائی ہیں لیکن شریفوں کے لیے اقتدار کا سفر بہت ہی جھٹکوں اور ہچکولوں کا شکار رہا ہے۔ ان کا سب سے بڑ ا کمال وہ سیاسی اور شعوری بے نیازی ہے جس سے شاید وہ ان طوفانی تھپیڑوں کو محسوس ہی نہیں کرتے۔ ویسے آجکل کے دور میں بے حس ہونا بھی کتنی غنیمت ہے اور شاید ان کی بے حسی ہی ہے کہ معیشت، معاشرے اور اخلاقیات کا شدید زوال بھی ان پر اثرا انداز ہونے سے قاصر ہے۔ لیکن شاید وہ اتنے گھاک بھی ہوچکے ہیں کہ اس مرتبہ وہ تمام وارداتوں کو زائل کرنے کی تیاری کرکے آئے تھے۔ عوام ایک میٹھے زہر والی مہنگائی سے کراہ رہے ہیں، غربت اور محرومی سے بیزار ہیں، تعلیم اور علاج کے اذیت ناک عمل میں خواری سے تنگ ہیں۔ موٹرویز سے نیچے دیہاتوں اور لاہور جیسے شہروں کی بھی اندرونی سڑکوں کے کھڈوں میں سائیکل سے لے کر گاڑی تک کے سفر میں جھنجھلا بھی رہے ہیں اور جسم کی دردوں کو بھی برداشت کررہے ہیں لیکن ہر سفر کو آخری سفر سمجھ کر اس کو ختم کرکے پھر سے ایسے ہی سفروں پر روانہ ہونے پر مجبور ہیں۔ ان حالات زندگی سے تنگ بھی ہیں اورچھٹکارا بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن سیاست میں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی اور سماجی زندگی ایک پل رک کر سوچنے کا وقت نہیں دیتی۔
سیاست میں سب سے زیادہ شور عمران خان کا نواز شریف کو برطرف کر کے خود وزیر اعظم بننے کے جنون کا بھی ہے جو دن کو کسی اور درجے پر ہوتا ہے اور رات کو اس جنون کا مزاج کچھ اور ہی بن جاتا ہے۔ اگر نواز شریف کو اتنے جھٹکے لگے ہیں تو عمران کو بھی کم تضحیک اور پسپائیاں اٹھانی نہیں پڑیں۔ لیکن خان صاحب کی ڈھٹائی ان کی کرکٹ کے ریکارڈوں کو کب کی توڑ کر آگے نکل گئی ہے۔ اس ملک میں جتنی پسپائیاں عمران خان نے اختیار کی ہیں یہ بذات خود ایک سیاسی ریکارڈ ہیں۔ اگر میڈیا اور سیاسی خلا نہ ہو تو عمران خان کی سیاست کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ میڈیا تیسری قوت کے طور پر پیپلزپارٹی کو آگے لا رہا ہے۔ لاہور میں ہونے والے حالیہ ’’بند محل‘‘ کے کنونشن میں کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو نئی ہو۔ محروم اور محنت کش طبقات کو ایک عندیہ بھی ایسا نہیں دیا گیا جو پیپلزپارٹی کی بنیادی دستاویزات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہاں تک کہ ’’نئی‘‘ قیادت کو یہ کہنے کی جرأت بھی نہیں ہوئی کہ پیپلز پارٹی کس طبقے کی پارٹی ہے۔ گول مول بیانات اور رویے ویسے بھی معاشرے میں ایک معمول بن گئے ہیں۔ کوئی بھی چیزتوسیدھی نہیں ہے، توپھر سید ھی بات یا سچی سیاست اس سماجی نظام میں ہو کیسے سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس قیادت میں نہ نظام کو بدلنے کا انقلابی اعلان کرنے کی ہمت ہے اور نہ ہی مروجہ مالیاتی سرمائے کی سیاست میں اتنی دولت ہے کہ وہ مسلط دولت کے مگر مچھوں کو ہرا سکیں۔ کیونکہ انکے فنانسر صرف ان کوہی فنانس نہیں کرتے، اگر ان کے کنونشن کے خرچے اٹھاتے ہیں تو دوسری پارٹیوں اور رجعتی ملاؤں کی مذہبی پارٹیوں اور تہواروں پر بھی اپنے حاتم طائی ہونے کا مکمل ناٹک کرتے ہیں۔
ٖٖپھر ان مخلوط حکومتوں اور مصلحت پرستی کی سیاست میں دوسری پارٹیاں بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مالیاتی لوٹ کے حصے دبائے سیاست میں سرگرم ہیں۔ اس کاروبار میں وہ حصہ داری سے مطمئن تو نہیں ہیں لیکن آنے والے وقتوں میں حکومتوں کی تشکیل کے لیے درکار ہارس ٹریڈنگ کا انتظار کررہی ہیں۔ پورا سیاسی اکھاڑہ ایسے ہی کھلا ڑیوں سے بھراپڑا ہے۔ پیسے کے بغیر تو اس اکھاڑے میں داخلے پر ہی پابندیاں ہیں۔
عمران خان اور بلاول بھٹو، نواز شریف کیخلاف کرپشن کی مہم چلا کر اس کو سبکدوش کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ویسے کرپشن پر بہت سی حکومتوں کو گرایا گیا۔ کرپشن بھی جاری رہی اور وہی کرپٹ سیاستدان پھر الیکشن جیت کر اقتدارمیں آگئے۔ عوام کیااتنے ہی کند ذہن ہیں کہ وہ ا س حقیقت کو پہچان نہیں سک رہے۔ انہوں نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس نظام میں کرپشن ایک ناگزیر معمول ہے۔ اس لیے وہ کرپشن کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ لیکن صرف اقتدار میں آنے سے کرپٹ ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہاں کے عام باسیوں کو اب اتنا ادراک ضرور ہے کہ اس سیاست میں پیسے کے علاوہ اوپر آنے کا کوئی ذریعہ نہیں اور ایسا ناجائز پیسہ صرف کرپشن کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے ایک لامتناہی شور اور بوچھاڑ کے باوجود عوام کی دلچسپی’’پاناما لیکس‘‘ یا دوسری ’’لیکوں‘‘ میں پیدا نہیں کروائی جاسکی۔ دھرنوں کی ناکامی اسی امر کی گواہی دیتی ہے۔ لیکن عمران خان اور بلاول، نواز شریف کے خلاف کرپشن کی بجائے ان محرومیوں اور ذلتوں کے ایجنڈے اور پروگرام پر کوئی تحریک کیوں نہیں چلاتے۔ سندیسہ بھی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ ہے کہ یہ حضرات خود اس نظام کے کھلاڑی ہیں جو غریبوں کو غریت تر اور امیروں کو امیر تر کررہا ہے۔ جہاں ان کی سندھ اور پختونخواہ میں حکومتیں ہیں، کرپشن تو وہاں بھی کم نہیں ہے۔ لیکن وہاں بھی عوام کی بنیادی سہولیات اور اجتماعی ضروریات مثلاً تعلیم، پانی، علاج، نکاس، ٹرانسپورٹ، جن کے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں، ان کی محرومی شریفوں کی حاکمیت سے کم نہیں ہے۔ شاید زیادہ ہی ہوگی۔ جس قسم کے ترقیاتی منصوبے یا سیاسی ناٹک گیری وہاں کے صاحب اقتدار حکمران کررہے ہیں وہ شریفوں کی نقالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ایسے میں اس سیاسی افق پر عوام کی نا امیدی بے سبب نہیں ہے۔ اسی لیے اگر عوام کو اس سیاست نے بے دخل کردیا تو عوام نے بھی اس کو مسترد کردیا ہے۔ عام لوگ کسی سیاسی پروگرام اور اجتماعی بہتری اور ترقی کے لیے موجودہ سیاست کے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتے۔ ایسے تحریکوں کی پسپائی کے ادوار میں سوچ اور سیاسی رویے پورے معاشرے میں اجتماعی سے انفرادیت کا کردار اپنا لیتے ہیں۔ براہِ راست ووٹوں کو فروخت کرنے سے لے کر اپنے انفرادی کام نکلوانے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے ہی جائز ووٹ بھی پڑے ہیں۔ لیکن پھر یہ بھاری پونجیوں والے سیاست دان جہاں اپنے ووٹروں کے ادھورے کام کرواتے ہیں وہاں اپنا پورا مال اور شان وشوکت اسی سیاست سے حاصل کرتے ہیں۔ اس متزلزل اور لرزتی سیاست کو پھر اداروں پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس سیاست میں منتخب حکومتیں ریاستیں نہیں چلا یا کرتیں بلکہ ریاستی ادارے اپنے مفادات کے لیے ان حکمرانوں کی پالیسیوں کو بنواتے ہیں ایسے میں مفادات کے ٹکراؤ ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ٹکراؤ پھوٹ کا باعث بن جائے۔ مصالحت کے اس دور میں مشترکہ خوف ان کو کسی معاہدے پر پہنچا دیتا ہے۔ میڈیا اور حکمران سیاست کی حزب مخالف ان اداروں سے توقعات لگا لیتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو برطرف یا معزول کردیں گے۔ لیکن ادارے بھی اتنے بھولے اورسادے نہیں ہیں۔ جہاں معیشت اتنی کھوکھلی ہو، معاشرے میں اتنا انتشار ہو اور نظام بس لڑکھڑا کر چل رہا ہووہاں حکومتوں کو بدلنے سے ایسے حالات اور واقعات جنم لیتے ہیں جو پورے نظام کے لیے ہی خطرہ بن سکتے ہیں۔ اور پھر نظام میں توسب اکٹھے ہیں، چاہے سیاستدان ہوں یا کارپوریٹ میڈیا کے ان داتا ہوں۔ جج ہوں یا جرنیل سبھی اسی ’’سٹیس کو‘‘ کا حصہ ہی تو ہیں۔ اس میں حکومتی تبدیلیوں سے اگر کوئی بڑا بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہوگا تو پھر اس نظام کے ماہرین ایسے کرنے سے گریزاں ہی ہونگے۔ لیکن کئی ایسے واقعات بھی جنم لے سکتے ہیں، بھاری ہڑتالیں یا تحریکیں اچانک بھڑک سکتی ہیں کہ حکومت بدل کر کسی ایسی پارٹی کو اقتدار دے دیا جائے جوان تحریکوں کو زائل کرسکے اور محنت کشوں میں اسکے بارے میں امیدیں اور مثبت توقعات ہوں۔ پاکستان کے حکمرانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اب ایسی پارٹی یا قیادت کم از کم سیاسی افق پر تو پائی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے شدید اقتصادی بحران، گرتی ہوئی معیشت اور سماجی زوال میں بھی شریفوں کا کمال چل رہا ہے لیکن کب تلک؟