نوجوانوں کا مستقبل کہاں ہے؟

[تحریر: پال کمنگ، ترجمہ: اسدپتافی]
سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت کے پیش نظر نئی نسل کیلئے اس نظام میں نہ کوئی امکان ہے نہ گنجائش۔ نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینے میں ناکامی نے مایوسی، بددلی اور چڑچڑے پن کی ایک ہولناک کیفیت کو جنم دیاہے اور جو کسی بھی سماجی نظام کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مظہر ہے جو ہمیں حالیہ وقتوں میں رونماہونے والے سماجی دھماکوں کی صورت میں نظر آرہاہے، خواہ برطانیہ اور سویڈن میں کٹوتیوں کے رد عمل میں ہونے والے فسادات ہوں، یونان اور سپین میں ہونے والے نوجوانوں کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا پھر بلاشبہ دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے عرب انقلابات۔
سرمایہ دارانہ نظام کو درپیش چلے آ رہے بحران نے پانچ سالوں بعد، جو کہ امکانی طور پر اگر دہائیوں تک نہیں تو سالوں تک جاری وساری رہے گا، اس عہد کی نئی نسل کے سامنے دو خطرناک راستے بچے ہیں:یا تو سسک سسک کے مر اجائے یا پھر لڑتے ہوئے۔ اسے ایک ایسے آشوب کا سامنا ہے جہاں اجرتیں گرتی چلی جارہی ہیں، قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں، روزگار یا حقیقی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور یوں یہ نسل مسلسل انحطاط کی حالت میں ہے۔ کہا جاسکتاہے کہ سماج میں سب سے بڑھ کر اگر کسی پرت کا ساراوجود زنجیروں میں جکڑاہواہے تو وہ نوجوان ہیں، ان زنجیروں سے انہیں چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔

بے روزگاری اور جز وقتی روزگار
مستقبل کے بھیانک پن سے آلودہ حقیقت کا ادراک برطانوی حکومت کے حالیہ اعتراف سے ہوتا ہے جس میں بتایا گیاہے کہ جزوقتی روزگار کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس قسم کے روزگار میں کام کرنے والوں کو کوئی ضمانت میسر نہیں ہوتی، جبکہ’’مالک ‘‘ کو مکمل آزادی مل جاتی ہے کہ وہ چھٹی، بیماری کیلئے تعطیل جیسی سہولتیں دے یا نہ دے اور کسی بھی وقت ملازمین کو فارغ کر دے۔
بیروزگاری اور غربت سے تنگ 18 سے25 سال کے نوجوانوں کی اکثریت اس نوعیت کے جزوقتی روزگار حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ انتہائی عارضی، موسمی، اور پارٹ ٹائم روزگارکی اس طرز نے کام کرنے والوں کے اندر تحفظ کا احساس جاگزیں کردیاہے اور جس کیلئے انہیں آزادانہ یونین سازی درکارہے جس کی مدد سے یہ کارکن اپنے حالات اوراپنی زندگیوں کا معیار بہتر بنا سکیں۔
ہمیشہ کی طرح سے حکومت اور اداروں کے سربراہ اس قسم کے نیم غلامانہ کنٹریکٹ روزگارکیلئے کئی جواز پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ایسا کر کے وہ مالکوں اور کارکنوں دونوں کو آسانی فراہم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے کام کرنے والوں کو کسی قسم کی آسانی میسر نہیں آتی بلکہ مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔
اس قسم کی کیفیت میں کہ جب ورکروں کے حقوق غصب اور غائب کر دیئے جاتے ہیں، ایسے میں حکومت کی منظوری اور آشیرباد سے میڈیا خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے واویلا کرنا شروع کردیتاہے کہ سماج میں خوشحالی کے پھول اگنا شروع ہوگئے ہیں، یعنی بیروزگاری کی شرح کم ہونا اور شرح نمو بڑھنا شروع ہو چکی ہے، سب اچھا ہورہایا ہونے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ لیکن اس قسم کی بیہودہ کوششیں خوفناک حقیقت کو نہیں چھپا سکتیں۔
بہت عیاری اور ہوشیاری سے بیروزگاری بارے حقیقی اعدادوشمار چھپاتے ہوئے برطانوی حکومت نے روزگاراور نیم روزگار میں بہت زیادہ اضافے کا اعلان کیاہے جو دراصل پارٹ ٹائم اور عارضی روزگار ہی ہے۔ سٹرلنگ یونیورسٹی نے جو اعداد وشمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق2008ء میں نیم روزگارکی شرح6.2فیصد تھی جو کہ 2012ء میں بڑھ کر 9.9 فیصد تک پہنچ گئی۔ 16 سے 24 سال کی عمر والوں میں یہ شرح 30 فیصد ہے۔ اس سے صاف نظر آتاہے کہ سب سے زیادہ متاثر نوجوان نسل ہی ہورہی ہے۔ وہ سب جو کہ جزوقتی معاہدوں کے تحت کام کررہے ہیں انتہائی جگرسوز حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ کرائے، توانائی اور خوراک کی قیمتیں آئے دن بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ اشیائے ضرورت کے برطانوی اعشاریے کے مطابق اہم اشیا کی قیمتوں میں 2008ء سے 2012ء کے دوران 33 فیصد اضافہ ہواہے اوریہ سب کم ترین اجرتوں کی کیفیت میں ہورہاہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ تھیچر حکومت سے لے کراب تک کی حکومتیں اعداد وشمار کی ہیراپھیری کو بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اپناکام چلاتی آرہی ہیں تاکہ بیروزگاری کو کم سے کم بتایا جا سکے۔ اس عیاری اور ہیراپھیری کے طریق کار کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں:
*بیروزگاری کی تعریف کو تبدیل کرتے رہنا، اصل میں اعدادوشمار ان سے مرتب ہوتے ہیں جو کہ خود کو بیروزگار کے طورپر رجسٹر کرواتے ہیں۔ اب یہ تعریف بدل دی گئی اوریہ وہ لوگ ہیں جو کہ بیروزگاری مراعات سے استفادہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بیروزگار جومختلف وجوہات کی بنا پر ان مراعات سے مستفید نہیں ہوتے، وہ بیروزگاری سے باہر کردیے گئے ہیں۔
*مراعات کے مندرجات میں تبدیلی، جن کے ذریعے بہت سوں کو مراعات کلیم کرنے سے باہر رکھا جاتااور انہیں بیروزگاروں کی فہرست سے نکال دیاجاتاہے۔
*کام کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ جنہیں مفت کام کرنے پر یا پھرمراعات سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیاجاتاہے، انہیں بیروزگار شمار نہیں کیا جاتا۔
*معذوری یا نا اہلی کوئی معنی نہیں رکھتی، لگ بھگ 900,000 افراد کو بیروزگاری کی مراعات کی بجائے، نا اہلیت کی مراعات کے کھاتے میں ڈال دیاگیا ہے۔ اس سے بھی اعداد وشمار میں کمی پیدا کر لی گئی ہے۔
جب اس قسم کے ثبوت سامنے آتے ہیں تو ہمیں ایک پریشان کن سچائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ یہاں برطانیہ کے اندر نوجوانوں کی ایک بہت بھاری تعداد بیروزگاریا بیروزگاری کے انتہائی قریب ہے جس کے باعث ان میں کچھ حاصل کرنے کی جستجو کی بجائے بے بسی اور لاچارگی کا رحجان فروغ پارہاہے۔ خاص طورپر ان علاقوں میں کہ جہاں سے صنعتیں مکمل طورپر ختم ہو چکی ہیں، ان میں مڈلینڈز، نارتھ، سکاٹ لینڈ اورویلز شامل ہیں۔
مزید برآں پبلک ایجوکیشن کی بے رحمانہ ’’منڈی بازی‘‘ اور گریجویٹ ملازمتوں کے منہدم ہونے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے ہماری نئی نسل کی ناک میں دم آگیاہے اور یہ کرب شدت اختیارکرتا چلا جارہاہے۔

سرمایہ دارانہ بحران
آسان ترین الفاظ میں سوال یہ بنتاہے کہ اس نظام میں ہمارے لئے ہے کیا اور یہ کہ ہم کیونکر ایسے ڈھانچے کی سپورٹ کریں ؟انسانی تاریخ میں آج کی نئی نسل شاید واحد نسل ہے جس کے سامنے ایک متبادل، ایک بامقصد سماج کے وجودکا سوال، دروازے پر زور زورسے دستک دے رہاہے۔ ایک ایسے نظام کی بجائے جو نوجوانوں کو اپنا آپ فروخت کرنے کا تقاضاکرتاہے، ہمیں ایک ایسا نظام درکار ہے جو کہ ہماری صلاحیتوں سے کام لے۔ ہمیں ضرورت ہے اور ہمیں لازمی طورپر ایسے نظام کیلئے تگ ودوکرنی چاہئے کہ جو نئے اور پرانے سبھی کام کرنے والوں کو ہر قسم کا معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرے، جو مفت تعلیم اور پبلک سروسز دے، پر سکون روزگار دے، جس کی اجرت سے زندہ رہنا سہل ہو، جس میں بیماری اور دیگر تعطیلات کا حق ہو اور جس سے فارغ ہونے کے بعد ہمیں ایسے لمحات میسر آسکیں کہ جن کی بدولت ہم زندگی کے دوسرے اہم پہلوؤں اور لوازمات سے بھی بہ احسن نبرد آزما یا لطف اندوز ہو سکیں۔
لیکن پھر کسی بھی بیماری سے بچنے اور اس کے علاج کیلئے لازمی ہوتاہے کہ ہم صرف بیماری کی علامات کو ہی نہ سمجھیں بلکہ ان وجوہات کو بھی جانیں جن کے باعث بیماری جنم لیتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھناہوگا کہ موجودہ بحران کسی آسمان سے نہیں ٹپکا ہے بلکہ اس کے برعکس اور درحقیقت اس نے ان حقیقی مادی حالات کی کوکھ سے جنم لیاہے جو کہ اس سرمایہ دارانہ سماج کی طبقاتی نوعیت کا خاصاہیں۔ ان مادی حالات کو درست طورپر سائنسی اندازمیں سمجھنے اور سمجھانے کی واحد کوشش کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے مادیت کے نقطہ نظر میں ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے یہ بھانپ لیاتھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی ’’نوع‘‘میں ہی بحرانوں کا نظام ہے اور سماج کے طبقات میں تقسیم ہونے کے باعث یہ نامیاتی طورپرایک کے بعد دوسرے شدیدتر بحران کی طرف پھسلتا چلا جائے گا۔ اگر مارکسزم کی اصطلاح میں بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ پرولتاریہ یعنی ورکرز کہ جو کسی طرح کی پیداواری ملکیت نہیں رکھتے بلکہ اس کی بجائے ان کے پاس صرف ان کی محنت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جسے وہ بیچتے اور اس کی اجرت لیتے ہیں۔ ان کا بورژوازی یعنی سرمایہ دار(وہ طبقہ جو کہ صنعتوں، کمپنیوں اور پیداوار وغیرہ کا مالک ہوتاہے) دو طرح سے استحصال کرتا ہے۔ ایک استحصال توان کو ادا شدہ اجرت کاجو کہ ان کی محنت کی پیداکردہ قدر کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے اور دوسرا استحصال تب جب محنت کرنے والا اپنی ہی بنائی ہوئی اشیا کو مہنگے داموں خریدتاہے۔ وہ ساری قدرزائد جسے یہ مالک طبقہ اپنی ملکیت میں رکھتاہے اسے عرف عام میں’’منافع‘‘ کہا جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ منافعوں کو بڑھانے کیلئے سرمایہ د ار آپس میں مقابلہ بازی کرتے ہیں، جس حد تک ممکن ہو زائد اشیا پیداکی جاتی ہیں اور اس مقابلہ بازی کے رجحان میں لاگت کم کی جاتی ہے، جو حتمی طور پر اجرتوں میں ہی کمی کا باعث بنتی ہے۔
مارکسزم ایک بنیادی سوال اٹھاتا ہے ؛کہ کیا ہوتا ہے جب مزدور، پیداواری نظام میں سرگرم رہتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ قدرزائد پیداکرکے اسے مالکوں کو منتقل کررہے ہوتے ہیں ؟ اس کاایک ہی نتیجہ نکلتا ہے؛بحران۔ مزدوروں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ جس سے سے وہ اپنی ہی پیداکردہ اشیا کو خرید سکیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جلد یا بدیر ساراڈھانچہ ہی تہس نہس ہوجاتاہے۔ اسے ہم زائد پیداوار کا بحران قراردیتے ہیں یعنی سرمایہ دارانہ نظام کااپنا ہی پیداکردہ بحران۔ یہ وہ مارکسی تشریحات ہیں جو اپنی سائنسی معقولیت کی بنیادوں پر درست ہیں اور جن کی تاریخ میں باربار واقعات نے تائید کی ہے۔ ایک انقلابی کیفیت کی موجودگی میں، نظریے پر ایک درست گرفت، کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔
اس وقت ہم جس بحران کی صورتحال میں سانس لے رہے ہیں، اس کی تشریح اور نشاندہی آج سے ڈیڑھ سوسال پہلے مارکس نے کر دی تھی۔ اب کی بار بحران نے اپنا اظہار قرضوں اور مالیاتی سٹے بازی کے شعبوں میں ہونے والی ان دھماکہ خیزیوں میں کیا ہے جنہیں 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں سامنے آنے والے بحرانوں کے اثرات پر قابوپانے کیلئے بری طرح استعمال کیا جاتارہا۔ اس بحران کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام، دنیا بھر میں حقیقی نوعیت کی کسی بھی ترقی کو برقرار رکھنے کی اپنی صلاحیت سے جان چھڑا چکاہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کسی کو ایک مارکسسٹ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اب ہر کس وناکس پر عیاں ہوچکی ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کی روشنی میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سائنسی اور تکنیکی ترقی اس عروج کو پہنچ چکی کہ جس کی مدد سے اب سرمایہ کاری کیلئے وہ میدان ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں رہا کہ جس میں زیادہ سے زیادہ منافع مل سکے۔ وہ نظام جو کہ کبھی ریلویز، ویکسینز، صنعتوں کے وسیع وعریض پھیلاؤ، زراعت کی ترقی وغیرہ جیسے کام کرنے کو فوقیت دیتاتھا اب کسے ترجیح دیتا ہے ؟ ہر سال ہمارے پاس ایک نیا آئی پیڈ ماڈل، آئے روز خوراک کی قیمتوں میں اضافہ، کارخانوں کی بندش پر بندش!جبکہ ادویات سازی میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہورہی ہے، خلائی پروگرام بند کرنے کا کہا جارہاہے اور توانائی کے شعبے میں نئی تکنیک کے حصول میں تاخیر کی جارہی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ ۔
حالیہ وموجودہ بحران کسی طور سرمایہ داری کا عمومی بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے گل سڑ چکے نظام کا بحران ہے جو کچھ کردکھانے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس شکستہ ڈھانچے پر طرفہ تماشا قرضوں کا بارگراں، بے انت بیروزگاری، غربت، جنگیں اور اپنے اندر کسی بھی قسم کے مستقبل سے محرومی۔ سرمائے کا دفاع کرنے والے کسی راہ نجات کی تلاش میں ہیں اور وہ راستہ انہوں نے یہ ڈھونڈاہواہے کہ سرمایہ داروں کو پہنچنے والے نقصان کو(آج کے بھی اور کل کے بھی)محنت کشوں اور نوجوانوں کے سروں پر ڈال دیاجائے۔ مارکسی تجزیہ ہی ہمیں وہ بصیرت اور استعداد فراہم کرتاہے جس کی مددسے ہم صورتحال میں موجود تعطل کو واضح انداز میں دیکھ سکیں۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آتاہے !اس تباہی سے کیسے بچا جائے؟اور یہ سوال بھی کہ اس اندوہناکی سے کیسے لڑاجاسکتا اورصورتحال کو کس طرح بہتربنایاجاسکتاہے ؟

کیسے لڑاجائے؟
ماضی میں محنت کشوں اور نوجوانوں پر کئی حملے ہو چکے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سبھی نہیں تو اکثر و بیشترمراعات ان سے چھین لی گئی ہیں۔ یہ مراعات محنت کشوں نے اپنی طویل اور سخت جدوجہدوں کے بعد حاصل کی تھیں۔ ہمارے پاس ٹریڈ یونینیں اور وہ سیاسی پارٹی موجود ہے کہ جس کی بنیادیں ایک تاریخی جدوجہدمیں پیوست ہیں۔ لاکھوں افرادکی نمائندہ یہ سبھی تنظیمیں وہ تنظیمی اوزار اور ہتھیار ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے محنت کش متحدومنظم طورپرموثر جدوجہد کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر یہ سبھی تنظیمیں کئی دہائیوں پر محیط سرمایہ دارانہ عروج کے دوران سخت متاثر ہوئی ہیں اور ان کی قیادت میں سے اکثرسرمایہ دارانہ نظام کے کھلے حمایتی بن چکے ہیں۔ ان قیادتوں کے حوصلہ شکن اور گمراہ کن اثرات پچھلے سارے عرصے میں، کام کی جگہوں پرکچھ مراعات کے ساتھ، محنت کشوں پر مرتب ہوتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ تنظیمیں بتدریج لوگوں سے خالی ہوتی چلی گئیں۔ اس دوران کئی مفاد پرست اور دائیں بازو کے لوگوں نے اپنے لئے اعلیٰ اور بالا پوزیشنیں حاصل کر لیں۔ ایسے ہی پیشہ ور قائدین ہمیں بار بار یہ سمجھاتے بجھاتے رہتے ہیں کہ بحران ٹلنے ہی والا ہے، یہ ذراہونے دیں بس !پھر آپ کو سب کچھ واپس کردیاجائے گا۔ کوئی ایک بھی ٹریڈ یونینسٹ ایسا نہیں ہوگا کہ جسے کسی تنازعے کا تجربہ ہو اور جو اس قسم کے وعدوں کی حقیقت کو سمجھ سکتاہو۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ بحران سے باہر نکلنے کی امیدیں بہت ہی موہوم اور مدہم ہیں اور اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو بھی اس کے بعد نوجوان نسل کیلئے قطعی طورپر کوئی سہولت ممکن نہیں ہے۔ اور اس نسل کو شاید اپنی زندگی شروع کرنے کیلئے اپنے بوڑھے ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
بحران کے آغاز کے بعد سے اس قسم کے’’مفاد پرست قائدین‘‘ کا کام دن بدن بہت مشکل ہوتا چلا جارہاہے۔ روزبروزاورتابڑ توڑہونے والے حملوں کے باعث ٹریڈ یونین کی ممبرشپ میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ان حملوں کا جواب محنت کش طبقہ ہڑتالوں اور احتجاجوں کی شکل میں دے رہاہے۔ یونینوں کے ممبران کی اکثریت کا اپنے مالکان کے ساتھ جھگڑا ہورہاہے اور حکومتیں یہ سارا دباؤ یونین قیادتوں کی طرف منتقل کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کارحجان بائیں بازوکی جانب ہونا شروع ہوگیاہے۔ یہاں برطانیہ میں Unite کے جنرل سیکرٹری لین میک لوسکی نے بالکل درست طورپر عام ہڑتال کی کال دی ہے۔ اس کال کا نیچے محنت کشوں کی بھاری اکثریت نے ولولے کے ساتھ خیر مقدم کیا اور یہ نیچے سے محنت کشوں کے دباؤ اوران کی مربوط جستجو کی واضح عکاسی کرتی ہے۔
برطانوی لیبرپارٹی کے اندر تبدیلیاں بہت سست رو ہواکرتی ہیں۔ لیکن بلیئر کے عہد سے مسلط چلی آرہی تاریکیوں کی اوٹ سے روشنی کی ہلکی سی جھلک نظرآنا شروع ہو چکی ہے۔ یونینوں کے ساتھ چلے آرہے اپنے تعلق کی وجہ سے، متحرک ہورہے ورکروں نے دباؤ ڈالا ہواہے کہ لیبر کی نمائندہ پارٹی لیبر کیلئے اٹھ کھڑی ہو۔ اس کا واضح اظہار ہمیں فالکرک میں ہونے والی اس میٹنگ میں نظرآتاہے جہاں آنے والے پارلیمانی لیڈر کا چناؤ کیاجاتاہے، اس میٹنگ میں پہلی بار ایک تقسیم سامنے آئی جو کہ طبقاتی بنیادوں پر تھی۔ اس دوران ٹریڈ یونینسٹ، بلئیر کے حاشیہ برداروں سے اپنا دامن چھڑاتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس قسم کی لڑائیاں ہمیں باربار ہوتی نظر آئیں گی اور وہ بھی بڑے اور بلند پیمانے پر۔ جن کی مدد سے پارٹی کے بالا عہدوں پر براجمان دائیں بازو کی قیادت پر کڑا وقت آجائے گا۔ 2008ء کے بعد سے کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹک اتحاد پر مبنی حکومت کی جانب سے کئے گئے حملوں کے خلاف کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیاگیا اور لیبر قیادت کوئی لڑائی لڑنا ہی نہیں چاہتی۔ اس کے برعکس وہ کھلے عام یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ کٹوتیوں کی پالیسیوں اور ان کے وسیع پیمانے پر نفاذکی حمایت کرتی ہے۔ چنانچہ یہ محنت کشوں کی قیادت کے حق سے دستبرداری کا عندیہ دے چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ نیچے سے دباؤ کی وجہ سے جو قیادت بائیں طرف مڑکرلڑائی کی بات کررہی تھی وہ بھی سرمایہ دارانہ نظام ہی کے اندر رہنا چاہتی ہے۔ اور یہ سب نتیجہ ہے اس نظریاتی بانجھ پن کا جو اصلاح پسندی کو درپیش ہے اور جس کی بدولت وہ کوئی حقیقی متبادل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ لوگ ابھی تک کریڈٹ عروج کے عہدمیں ہی جی رہے ہیں۔ انہیں یقین کی حدتک یہ خوش گمانی ہے کہ کٹوتیوں کا متبادل بس یہی ہے کہ موجودہ نظام میں اصلاح کرتے ہوئے مزید قرضے، مزید کرنسی نوٹ چھاپنا اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے جانااور امیروں پر ٹیکس عائدکرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اور ایسے میں وہ جو تاثر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ بحران کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ناقابل یقین حدوں کو پہنچے ہوئے قرضے اور ہمارے چاروں طرف پھٹ رہے کریڈٹ کے بلبلے درحقیقت ’’ٹوری‘‘ نقطہ نظر کا وہ نظریاتی جواز ہیں جسے کٹوتیوں کیلئے استعمال کیا جا رہاہے۔
لیکن بدقسمتی سے سرمایہ داری کا بحران’’ حقیقت ‘‘ ہے اور جو ساری دنیا میں کارفرما نظر آرہاہے۔ کیا دائیں اورکیا بائیں بازوکی حکومتیں کٹوتیوں پر کٹوتیاں کرتی چلی جارہی ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح منافع خوری کی رگوں میں خون فراہم کیا جاسکے۔ چنانچہ اگر کہیں اصلاح پسند حکومتیں قائم بھی ہوتی ہیں یا ہوں گی تو وہ سوائے ان کو دھوکہ دینے کے کچھ بھی نہیں کریں گی جنہوں نے انہیں اقتدار میں پہنچانا یا پہنچایاہے۔
اس تناظر نے اپنا اظہار فرانس میں کیا ہے جہاں صدر ہالینڈے نے کٹوتیوں کے خلاف نعرے پر کامیابی حاصل کی۔ اب وہ بھی دوسرے سرمایہ پرستوں کی طرح پے درپے کٹوتیاں کرتا چلا جارہاہے۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ اس تعطل کے خاتمے کیلئے ایک حقیقی متبادل پروگرام کی اشد ضرورت ہے ؛ایک ایسا پروگرام جو کہ ماضی کے سبھی قدیم تعصبات کو جھنجھوڑ سکے اور جس کی مدد سے’’ سٹیٹس کو‘‘کی اندھی پرستش کی روش کو توڑا جاسکے ؛ایک ایسا پروگرام جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی چیلنج کرسکے اور لوگوں پر یہ واضح کرسکے کہ بحرانوں اور محرومیوں کا خاتمہ اسے ختم کئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس ہدف کیلئے نئی نسل کو تیارہونااور کرناپڑے گا، جو کہ سب سے بڑھ کر، سب سے زیادہ اس نظام کی زد میں آئی ہوئی ہے۔ مارکس وادی اس قسم کے پروگرام کیلئے تیاری کررہے ہیں تاکہ ان سوالوں کوعام کیاجاسکے۔

متبادل کیا ہے؟
کیا ہی بات تھی اگر مزدور تحریک کی کوئی قیادت اس اہل ہوتی کہ جو امیروں کی حکمرانی کے خلاف تحریک کو منظم کر سکتی !جو ایک عام ہڑتال سے اپنی تحریک شروع کرتی تاکہ سماج کی سبھی پرتوں کو متحرک کیاجاسکے۔ ایک جرأتمندانہ پروگرام کے ساتھ ہمیں اپنے طبقے کی بے پناہ طاقت کا برملا اظہارکرنا چاہئے۔ ہمارے ایک طرف یونینوں میں منظم محنت کش بہن بھائی ہونے چاہئیں تو ساتھ ہی بیروزگاری کے بیکراں سمندر کا رونا رونے کی بجائے ان لاکھوں کروڑوں غیر مستقل اور جزوقتی کام کرنے والوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ جنہیں جدوجہد کی طرف قائل اورمائل کرناہوگا۔ یہ پروگرام ہر قسم کی کٹوتیوں کے خلاف اور اس کی بجائے بڑے پیمانے پر پبلک ورکس پر مبنی ہوگا۔ جس میں بڑے پیمانے پر گھروں کی تعمیرات، نئے سکول، نئے ہسپتال اور سروسز کے مراکز قائم کئے جائیں گے۔ کم اوقات کارپر مبنی روزگار جس سے کہ زندہ رہنا ممکن ہی نہیں، سہل بھی ہوگا، فراہم کیا جائے گا۔ ہر سطح کیلئے تعلیم مفت فراہم کی جائے گی۔ ایک حقیقی ومؤثر سوشلسٹ جمہوریت کی حامل معیشت کیلئے سب سے بڑی 150 اجاروہ داریوں کو نیشنلائز کیا جائے گا۔ اگر ایسا پروگرام تحریک کی جانب سے سامنے لایا جائے تو کیا ہوگا؟ ہم پر مسلط متروک اور متعفن حکمرانی خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ سمندر پار، یورپ اور اس سے بھی باہرکے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنی اپنی تحریکوں کیلئے اچانک ایک حقیقی متباد ل میسر آجائے گا۔ ایک ایسا متبادل جس کیلئے واقعتاً لڑا جاسکے گا اور لڑا بھی جا ئے گا۔ اور تب ہمیں عالمی سطح پر سوشلزم کی تیز ترترویج ہوتی نظر آسکے گی۔
تاریخ میں ایسا وقت پہلے نہیں آیا کہ جس میں ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارکسزم کے نظریات کی طرف جیت سکتے ہوں۔ اور ان نظریات کی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم قائم کرسکتے ہوں جو ایک بامعنی سماج کی تعمیروتشکیل کرنے کا بیڑہ اٹھا سکے۔ بحران اور انقلاب کے مابین موجود اس عہد میں، کہ جس میں ہم قدم رکھ چکے ہوئے ہیں، مستقبل کا فیصلہ جو قوت کرے گی‘ وہ نئی نسل ہے۔

متعلقہ:
بیروزگاری کی دنیا!
امڈتے طوفان