قرضہ سکیم: بھکاری بنا کر خوشحالی کی جانب سفر؟

[تحریر: حارث قدیر]
نواز لیگ نے حکومت میں آتے ہی اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سامراجی اداروں کی شرائط پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا جس کے ثمرات کافی حد تک عوام کی زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کر چکے ہیں، روپے کی قدر مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، پٹرولیم مصنوعات، بجلی سمیت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جبکہ اس سارے عمل سے نکلنے کیلئے جادوگر اعلیٰ اسحاق ڈار نت نئے منصوبے اور فارمولے پیش کرتے ہوئے بلند و بانگ دعوے بھی پھینک رہے ہیں، جس طرح گردشی قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کڑوی گولی کا استعمال کرواتے ہوئے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات اور دعوؤں کی قلعی حال ہی میں گردشی قرضوں کے حجم کے 450 ارب روپے پر پہنچنے کے ساتھ ملک بھر میں ایک مرتبہ پھر شدید سردی کے موسم میں بھیانک لوڈشیڈنگ نے کھول کر رکھ دی ہے، اسی طرح ڈالر کو 98 روپے پر واپس لانے کے دعوے پر پورے ہوتے ہوئے کہیں نظر نہیں آرہے لیکن اس سارے جھوٹ اور بھڑک بازی کے پیچھے بھی قومی اداروں کی لوٹ سیل لگانے کے بہانے تراشنے اورغریب عوام کو ایک اور کڑوی گولی کھلانے کیلئے راہیں ہموار کرنے کے علاوہ کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے۔ معیشت کی ترقی دینے اور ملک میں خوشحالی لانے کے دیگر بھونڈے منصوبوں کی طرح ایک اور منصوبہ جس کا اعلان حال ہی میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے ’’وزیراعظم یوتھ بزنس لون سکیم‘‘ کے نام سے کیا اور ساتھ ہی نجکاری کے اعلانات بھی داغے گئے، میاں صاحب نے فرمایا کہ نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے اور ملک خوشحالی کے سفر پر گامزن ہو گا، وہ وقت بہت قریب ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کا شرح ترقی ترکی کے برابر ہو گا اور میاں صاحب نے تو ماڈل بھی ترکی کو ہی بنا رکھا ہے۔
نوجوانوں کو قرضے دینے کیلئے ایسا فارمولہ مرتب کیا گیا ہے جو اخباری اشتہارات اور ٹی وی چینلز کی رنگوں سے بھرپور اشتہاری مہم سے تو شاید بہت خوبصورت دکھائی بھی دیتا ہو گا جس پروپیگنڈے کی زد میں آئے پاکستانی نوجوانوں کی ایک بھاری اکثریت نے میاں صاحب کے اعلان کے فوراً بعد پہلے دو دنوں میں ایک کروڑ سے زائد فارم بینکوں اور انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر دیئے، لیکن مذکورہ فارم پر دی گئی تفصیل کو غور سے پڑھنے کے بعد نوجوانوں کے ارمان ریزہ ریزہ ہو گئے، وہ ساری حسرتیں، وہ خوشحالی کی آس و امید سب کچھ کسی گہری کھائی میں جا گرا کیونکہ یہ آسان شرائط بالکل ویسی ہی ہیں جن شرائط پر پورا اترنے والے کو کوئی بھی بینک قرضہ دینے کیلئے تیار ہو سکتا ہے اس کیلئے میاں صاحب کی خصوصی سکیم کا ہونا اتنا ضروری نہیں تھا۔ مطلوبہ قرض کی رقم سے 150 فیصد زائد رقم کا حامل یا گزیٹڈ آفیسربھلا کس غریب کی جگہ قرض کی گارنٹی اٹھائے گا، اور پھر آسان شرائط کے طور پر کاروبار کے پلان بنا کر دینے سمیت معاونت کرنیوالے ایک اتھارٹی بھی ہے جسے سمیڈا کہا جاتا ہے، گو کہ یہ اتھارٹی کافی عرصہ سے کام کر رہی ہے محض افسران اور اہلکاران کی تنخواہوں کے حصول تک ہی سہی مگر سرکاری ریکارڈ میں موجود رہی ہے، لیکن اب باقاعدہ سے اسے بھی کام پر لگا دیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی ذریعے روپے کمانے کا ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے، ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بیس لاکھ روپے کی رقم بطور قرض حاصل کرنیوالے نوجوان کو بیس ہزار روپے معاونت کی فیس موقع پر ہی ادا کرنی ہوگی، کیونکہ روپے کی قدر جس تیزی کے ساتھ گر رہی ہے اس میں مزید نوٹ چھاپنے سے افراط زر میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر مزید گرتی ہی جائے گی، موجودہ وقت میں بھی بیس لاکھ روپے کی رقم سے کسی بڑے شہر میں محض ایک خالی دکان کرایہ پر ہی حاصل کی جا سکتی ہے، اور جس کاروبار کی فزیبلٹی مذکورہ معاونتی اتھارٹی تیار کروا رہی ہے اس کاروبار ی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مشورہ دان اتھارٹی ان انراخ میں کمی کروانے سے تو رہی، محض مشورہ دینے کے بیس ہزار وصول کر کے اپنا کام مکمل کر لے گی اور قرض حاصل ہو بھی گیا تو اس کی شرائط پر پورا اترتے اترتے قرض دہندہ شخص کی نسلیں مقروض ہو جائینگی۔
آسان شرائط کی مزید تفصیل کچھ یوں ہے کہ مجموعی قرض پر پندرہ فیصد سالانہ مارک اپ (یعنی سود) لگے گا جس میں سے حکومت آٹھ فیصد اپنی طرف سے ادا کریگی جو بالواسطہ طور پرپھر انہی غریب عوام کی جیبوں سے ہی وصول کیا جا رہا ہو گا، لیکن ضروری نہیں کہ حکومت اس فیصلے پر کاربند رہے، کسی بھی وقت اس آٹھ فیصد مارک اپ کی ادائیگی سے حکومت انکاری ہو سکتی ہے، جبکہ بینک بھی کسی بھی وقت مارک اپ بڑھانے کے حوالے سے آزاد ہے، قرض حاصل کرنیوالا ان تمام شرائط کو بلاچوں و چراح قبول کرنے کا پابند ہوگا، صورتحال کچھ یوں ہی ہو جائے گی جیسے گزشتہ چھیاسٹھ سال سے مملکت خداداد پاکستان سامراجی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرض کے حصول کی خاطر جھولی پھیلائے سامراجی اداروں کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم ختم کرنے پر مجبور نظر آرہی ہے اور سامراجی ساہوکار بدلے میں غریب عوام کے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے نت نئے منصوبے حکومت کے سامنے رکھ چھوڑتے ہیں اور اقتدار اور لوٹ مار کی ہوس میں مبتلا حکمران ہر سامراجی حکم بجا لانے میں لمحہ بھر بھی تاخیر کے موجب نہیں ہو سکتے، 90ء کی دہائی میں بجلی کی پیدوار کو نجی شعبے کی تحویل میں دینے اور تیل سے بجلی کی مہنگی ترین پیداوار کی کڑوی گولی سے لیکر موجودہ ٹیکسز کے نفاذ، پٹرولیم، بجلی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے لیکر قومی اداروں کی اونے پونے داموں فروخت کی کڑوی گولی تک کے اعلانات انہی سامراجی احکامات کا نتیجہ ہیں جس کا خمیازہ تباہ حال انفراسٹرکچر، معیشت، تعلیمی نظام، صحت کی سہولیات، روزگار کی عدم دستیابی، ذلت، محرومیوں اور دہشت گردی کی صورت میں اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔
قرض کے نام پر نوجوانوں کو بھکاری بنانے کے منصوبے کے پیچھے بڑی تعداد میں لوٹ مار اور کرپشن کا عنصر بھی شامل ہے جس کے ذریعے سے نواز لیگی کارکنوں کو نوازنے کا سلسلہ بھی عروج پر پہنچے گا جس طرح سے گزشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ایک سیاسی رشوت خانہ کھول کر غربت ختم کرنے کے نام پر خواتین کو بھکاری بنانے کا عمل شروع کیا تھا اور کارپوریٹ میڈیا پر چلائی جانے والی اشتہاری مہم کسی حد تک عوام کو اس سارے فریب میں پھانسنے کا عمل بخوبی انجام دے رہی تھی لیکن آزادکشمیر کے انتخابات میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اصلیت کھل کر سامنے آچکی ہے، اب نوجوانوں کو حق اور روزگار کے نام پر بھکاری بنانے کا جو نیا کھیل شروع کیا گیا ہے اس کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی رشوت کے طور پر مختلف اضلاع میں نامزد کئے گئے کوآرڈی نیٹرز اور چیئرپرسن سمیت مرکزی کوآرڈی نیٹر کی تعیناتی سے کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیونکہ سمیڈا نے مشورہ دان کی حیثیت سے قرض لینے والوں کی معاونت کرنی ہے، بینک کے اہلکاران نے تمام تر لوازمات کی جانچ پڑتال کر کے قرعہ اندازی کے ذریعے قرض دینا ہے لیکن ان ہزاروں کی تعداد میں تعینات کردہ کوآرڈی نیٹرز کے ذمے کون سے کام لگائے جا رہے ہیں، صرف اور صرف رشوت کے عناصر شامل ہیں، کوآرڈی نیٹرز بھاری رقوم بطور رشوت وصول کریں گے اور قرض کے حصول میں سفارشیوں کے طور پرامور سر انجام دینگے اس کے علاوہ کوئی اور کام بظاہر نظر نہیں آرہا ہے، سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ایک لاکھ روپے بطور رشوت دینے والے کو بیس لاکھ ر وپے قرض دیا جائے گاجبکہ باقی درخواست گزاراس قرض سے محروم ہی رہیں گے۔ اس ساری ڈرامے بازی کی اصلیت کچھ حد تک فارم حاصل کرنیوالے نوجوانوں کو معلوم پڑ چکی ہے، محض میڈیا پر پروپیگنڈے کو جاری رکھ کر نوجوانوں کو زیادہ دیر تک اس حسین دنیا کے خواب پر بہلانے اورسیاسی نان ایشوز میں الجھانے کی کوشش کرتے ہوئے اس لوٹ مار کو زیادہ دیر جاری رکھنا بھی ان حکمرانوں کے بس میں نہیں ہے۔
لیگی حکمران ایک طرف نوجوانوں کو بھکاری بنا کر پاکستان کو خوشحال بنانے کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب خطرناک حد تک تجاوز کر جانیوالے توانائی بحران کے باعث پاکستان کی تقریباً ساٹھ فیصد فیکٹریاں اور کارخانے یا تو بند ہو چکے ہیں یا پھر بند ہونے جار ہے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس توانائی بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جس انڈسٹری سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد محنت کشوں کا روزگار منسلک ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے 75 فیصد یونٹس پنجاب میں ہیں، اگست 2013ء کے معروف انگریزی اخبار میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً ایک ہزار ٹیکسٹائل یونٹس بند ہوئی ہیں جس کے باعث تقریب پانچ لاکھ مرد و خواتین محنت کش روزگار سے محروم ہو چکے ہیں، اسی طرح خیبر پختون خواہ میں روان سال کے دوران ہی ریشم کے کارخانوں کی بندش کے باعث چالیس ہزار سے زائد محنت کشوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے، توانائی بحران کے حل کئے جانے کے حوالے سے یہ ریاست کسی قسم کے اقدامات کرنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ان تمام مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے نت نئے منصوبے اور نان ایشوز ابھارے جاتے ہیں جن میں سے ایک ایشو موجودہ بھکاری سکیم بھی ہے جس کے ذریعے سے حکمران طبقات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اس کی آڑ لے کراس ملک میں لوٹ مار کرنے والے سرمایہ دار طبقے کو خوش کرنے کیلئے قومی اداروں کی ساکھ کو متاثر کرتے ہوئے انہیں کوڑیوں کے بھاؤ میاں منشاء جیسے ساہوکاروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی کارپوریٹ میڈیا کا سہارا لیا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر قومی ایئرلائن سمیت دیگر قومی اداروں کیخلاف ایک میڈیا مہم چلائی جا رہی ہے کہ یہ ادارے مکمل طور پر ناکام اور غیر منافع بخش ہیں، ریاست پر بوجھ ہیں جس وجہ سے انکا فروخت کیا جانا ملکی معیشت کو بچانے کیلئے بہت ضروری ہے، لیکن مارگریٹ تھیچر کی جانب سے برطانیہ میں نجکاری کے آغاز سے لیکر پاکستان میں تمام فروخت کئے جانے والے اداروں کو محض بیرونی سرمایہ داروں کے منافعوں اور بھاری کمیشن کے حصول کیلئے ہی فروخت کیا گیا لیکن اس ساری نجکاری سے پاکستان کی معیشت کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، 1988 سے لیکر آج تک معیشت ترقی کی جانب تنزلی کی جانب ہی گامزن رہی، بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا، پھر کس طور یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی اداروں کی فروخت سے معیشت ترقی کرے گی۔ ہاں یہ ضرور ہو گا کہ جادوگر ڈار صاحب کی جانب سے پیش کی گئی لسٹ کے مطابق اداروں کی نجکاری سے قریباً بارہ لاکھ محنت کشوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے گا، لیکن میاں صاحب تو پانچ لاکھ نوجوانوں کوقرضہ دیکر بیروزگاری کا ہی خاتمہ نہیں کرینگے بلکہ ملک کو خوشحالی اور شرح ترقی کو سات فیصد تک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن معلوم نہیں وہ کون سی جادو کی چھڑی ہو گی جس کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بیروزگار کر کے پانچ لاکھ روزگار (جو کسی طور پر روزگار قرار نہیں دیا جا سکتا) دیکر ملک کو خوشحال بنایا جائیگا۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے آغاز سے ابھی تک سرمایہ دارانہ ماہرین اس بحران پر قابوپانے کے تمام ممکنہ حربے استعمال کر چکے ہیں لیکن اس میں بہتری کے امکانات کہیں نظر نہیں آرہے ہیں، بالآخر اقوام متحدہ کو بھی بیس ہزار سے زائد ملازمین کی تنخواہیں منجمد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عالمی معاشی بحران کو ہی بنیاد بنانا پڑ رہا ہے، یورپ سے امریکہ، افریقہ اور ایشیاء کے تمام ممالک میں اس نظام کو بچانے اور بحران پر قابوپانے کیلئے محنت کشوں اور نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے لیکن بحران سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا، میاں برادران سمیت تحریک انصاف کا سونامی اور سندھ میں موجود پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے غنڈہ عناصر اس ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے کوئی بھی حکمت عملی بنانے کے تو کسی طور اہل ہی نہیں ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی اداروں کے اشاروں پر ناچنے والے یہ تمام حکمران طبقات ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں سے گٹھ جوڑ کے کے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے نت نئے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، بیروزگاری کا خاتمہ، ملکی ترقی، خوشحالی صرف ایک دکھاوا ہے اصل کام اس سب واویلے کے پس پردہ بھاری منافعے اور لوٹ مار کا عنصر ہے جس کو ہر حال میں پورا کرنے کی حکمران طبقات نے قسم کھا رکھی ہے اوریہ سب اس بات پر بھی تقریباً کامل یقین کر چکے ہیں کہ یہ اقتدارآخری موقع ہے لہٰذا جتنا مال سمیٹا جا سکتا ہے سمیٹ لیا جائے۔ اگر تعلیم، علاج، صحت، روزگار، انفراسٹرکچر سمیت دیگر مسائل کو حل کرنا مقصود ہوتا تو بھکاری سکیم کی بجائے بند ہونیوالی صنعتوں کو چلائے جانے کے اقدمات کئے جا سکتے تھے۔ تمام پیداواری یونٹس کو قومی تحویل میں لیکر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے تو روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کئے جانے کے علاوہ اشیائے ضروریہ کو انتہائی سستے داموں تیار کیا جا سکتا ہے، توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے بھی کوئی بھی مشکل سائنس اپنانے کی ضرورت نہیں ہے، تمام پرائیویٹ پاورپلانٹس کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے بجلی کی پیدوار کے سستے طریقوں کا استعمال کیا جا کر توانائی بحران پر مکمل قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اس سارے عمل کو موجودہ حکمران طبقات اس نظام کی موجودگی میں نہیں کر سکتے، اداروں کی عوامی کنٹرول میں دیکر چلائے جانے سے سرمایہ داروں کے منافعوں کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے جبکہ مختلف ذرائع سے کی جانیوالی حکمرانوں کی لوٹ مار کے راستوں کی بندش کا بھی اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے، بجلی کی پیداوار کیلئے اگر سستے طریقوں کا انتخاب کیا جائے تو بھی تیل کی مد میں بٹورے جانے والے بھاری کمیشن کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، پھر سامراجی اداروں سے مزید قرض بھی تو حاصل کرنا ہے انکی شرائط پر عملدرآمد نہ کر کے وہ عوامل بھی مکمل نہیں کئے جا سکتے، دوسری جانب نجی ہاتھوں میں موجود پاور پلانٹس سے سرمایہ داروں کو حاصل ہونیوالے منافع میں بھی موجود بے شمار حصہ داریوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اس لوٹ مار اور جعل سازی کو فروغ دینے اور عوام کے ذہنوں میں انکے مقدر کے طور پر مسلط کرنے کیلئے میڈیا کا ایک کلیدی کردار ہے جس کے ذریعے مسلسل اور مستقل پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جو ہٹلر کے خصوصی وزیر گوئبلز کے مطابق جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا سب سے بہترین ہتھیار ہے، اس کا ماننا تھا کہ اگر جھوٹ کو عوام پر مسلط کرنا ہے تو مختلف ذرائع سے اس کا اس قدر پروپیگنڈہ کیا جائے کہ ایک وقت میں عوام کی بڑی اکثریت بنا کسی تحقیق کے جھوٹ کو سچ تسلیم کرتے ہوئے اس کے آگے سرتسلیم خم کر لے، اسی ہتھیار کو کارپوریٹ میڈیا اور بکاؤ دانشوروں سمیت نصاب کے ذریعے عوامی ذہنوں پر مسلط کیا جاتا ہے، دوسری جانب دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت کو مستقل بنیادوں پر استعمال میں لاتے ہوئے قتل و غارتگری کا ایک بازار اسی لئے گرم رکھا جاتا ہے کہ ذلتوں کے مارے عوام اپنے بنیادی مسائل کے حوالے سے غوروفکر سے روکا جائے اور انہیں مختلف نان ایشوز میں الجھائے رکھا جائے، مشرف غداری ٹرائل سے سپریم کورٹ کے ڈراموں تک اور فرقہ وارانہ تصادم سے لیکر کراچی میں جاری کشت و خون تک اور بلوچستان و خیبر پختونخواہ میں جاری قتل و غارتگری تک یہ سب وہ عناصر ترکیبی ہیں جن کے باعث عوام پر ایک خوف مسلط کیا جا رہا ہے۔ لیکن زیادہ دیر تک جھوٹ کو سچ نہیں قرار دیا جا سکے گا، کیونکہ اس سماج کی ہولناکیوں کا کڑوا سچ اس سماج میں بسنے والے انسانوں کی شریانوں میں بھوک، لاچاری، لاعلاجی، جہالت، اذیت اور محرومیوں کی بے شمار شکلوں میں دوڑے جا رہا ہے جو کسی بھی لمحے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والی ان دواؤں کے اثرات کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے انہیں تقدیر اپنے ہاتھوں پر لینے پر مجبور کر سکتا ہے اور وہی وقت تاریخ کے نئے جنم اور انسانی اذیتوں سے نجات کی نوید بن کر ابھرے گا۔