رپورٹ: PTUDC لاہور:-
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کی ہڑتال نے ایک لمبے عرصے کے بعد پنجاب حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ ریاست اپنے مختلف اداروں جن میں پولیس، فوج اور حکمرانوں کے دلال میڈیا کو ڈاکٹرز کے خلاف استعمال کے باوجود یہ ہڑتال ختم کرنے میں ناکام رہی۔ جس کے بعد اس کو ’’مقدس عدلیہ‘‘ کو میدان میں لانا پڑا۔ اور عدلیہ نے ریاستی احکامات کے مطابق میدان میں آتے ہی ینگ ڈاکٹرز کو جو احکامات صادر کئے ان میں پہلا حکم یہ تھا کہ ینگ ڈاکٹرزایمرجنسیوں میں اپنی ہڑتال کا خاتمہ کرتے ہوئے کام کا آغاز کریں، جس کے بعد ڈاکٹرز نے طویل بحث اور مباحثے کے بعد عدلیہ کے اس حکم کی تعمیل کی، مگر اس کے ساتھ ہی اپنا مطالبہ عدلیہ کے سامنے رکھا کہ ان کے گرفتار ینگ ڈاکٹرز پر بنائے گئے جھوٹے مقدمے فوری طور پر ختم کئے جائیں اور ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ مگر دوسرے ہی دن جب ینگ ڈاکٹرز نے عدالتِ عالیہ کے حکم کے مطابق ایمرجنسیوں میں اپنی خدمات کا آغاز کیا تو عدلیہ نے مزید احکامات صادر کر دیئے جن میں ہڑتال کا فوری خاتمہ بھی شامل تھا۔ جس کے ساتھ ہی عدالتِ عالیہ نے پنجاب حکومت کو بھی کچھ احکامات دئیے جن میں ڈاکٹرز کو ہراساں کرنے کے سلسلے کا فوری خاتمہ اور ہسپتالوں سے پولیس کا ہٹایا جانا شامل تھے۔ جو کے بعد میں مکمل طور پر پورے نہیں کئے گئے بلکہ انٹیلی جنس کے افراد کو ینگ ڈاکٹرز کی لیڈر شپ کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے کے لئے متعین کئے رکھا جن میں سے ایک حکومتی اہلکار کو ینگ ڈاکٹرز نے سروسز ہسپتال سے ینگ ڈاکٹرز کی مخبری کرتے ہوئے پکڑا بھی۔ اس کے بعد ینگ ڈاکٹرز نے جنرل کونسل کی میٹنگ میں ایک بار پھر عدلیہ کو ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ہڑتال مؤخر کر دی اور 14 دن کا وقت دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگر مقررہ مدت میں ینگ ڈاکٹرز کے سروس سٹرکچر سے متعلق مطالبات منظور نہیں کئے جاتے تو ینگ ڈاکٹرز ایک بار پھر ہڑتال پر جانے کے لئے مجبور ہوں گے۔ اور ساتھ ہی اپنے گرفتار شدہ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی دہرایا۔ اس ضمن میں ینگ ڈاکٹرز کو کل مورخہ 10جولائی 2012 عدالتِ عالیہ نے طلب کیا تھا مگر صبح جب کمرۂ عدالت اور اس کے باہر کا احاطہ ینگ ڈاکٹرز کی سینکڑوں کی تعداد سے بھر گیا تو عدالتِ عالیہ کے جج صاحب نے فرمان جاری کیا کہ آج تو اس مقدمے کی سماعت نہیں ہو سکتی، اس کی سماعت 13 جولائی کو ہو گی، جس پر ینگ ڈاکٹرز نے احتجاجاََ کمرۂ عدالت چھوڑنے سے انکار کر دیا جب تک کے ان کہ کیس کی سماعت نہیں ہوتی۔ باامر مجبوری جج صاحب کو کیس کی سماعت کرنا پڑی۔ مگر کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب کے معاملے کو طوالت دینے کے موڈ کے واضح اظہار ملتے رہے جب پہلے انہوں نے کیس کی سماعت کا وقت 12 بجے کا دیا اور 12 بجے مزید تاخیر کر کہ 2 بجے پر لے گئے۔ اور2 بجے کے بعد جب یہ سماعت شروع ہوئی تو اس وقت بھی جج صاحب زیادہ وقت وکیلِ استغاثہ کی ٹامک ٹوئیوں اور بے تکی باتوں پر ضائع کرتے رہے۔ مگر صبح 8بجے سے وہاں موجود ینگ ڈاکٹرز کی نہ صرف تعداد میں کمی ہونے کی بجائے اس میں لگاتار اضافہ ہی ہوتا رہا بلکہ انتظار کی کوفت اور گرفتار ساتھیوں کی حالت زار پر ان کا غم و غصہ بھی بڑھتا رہا۔ جب ریاستی اہلکاروں نے دیکھا کہ ڈاکٹر مشتعل ہو سکتے ہیں تو مجبوراََ انہیں گرفتار شدہ ینگ ڈاکٹرز کی ضمانت کے احکامات صادر کرنے پڑے۔
مگر اس کے باوجود اگر دیکھا جائے تو عدلیہ بھی اس ریاست کا ہی ایک ادارہ ہے اور وہ کبھی بھی کوئی ایسی کاروائی یا کوئی احکامات نہیں دے سکتی جس کی وجہ سے ریاست کے اپنے یا حکمران طبقے کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ اس لئے عدلیہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات حکومت سے پورے کروائے گی، محض خام خیالی ہو سکتی ہے۔ ہاں بہرحال عدلیہ ایک کام ضرور کرنے کی کوشش کرے گی اور وہ ہے اس معاملے کوتاخیری حربوں کے ساتھ دبانا تاکہ ینگ ڈاکٹرز کے مورال کو کم کیا جا سکے کہ اتنی لمبی جدوجہد کے بعد ینگ ڈاکٹرز کو کیا ملا۔ اور اگر عدلیہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات کو فوری ماننے کے احکامات صادر کر بھی دیتی ہے تو کیا یہ حکومت وہ احکامات مانے گی؟ جبکہ اس سے پہلے ایسے احکامات سپریم کورٹ سے بھی جاری ہو چکے ہیں۔
متعلقہ: