[رپورٹ: پال جان]
کراچی میں قائدآباد کے قریب یونس ٹیکسٹائل ملز نمبر 2 واقع ہے۔ ہزاروں محنت کشوں کا استحصال کر کے سرمایہ اُگلنے والی یہ کمپنی ان کے بنیادی حقوق بری طرح سلب کر رہی ہے۔ جہاں ایک طرف کم تنخواہوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کام کے اوقات کار 12 گھنٹوں کی وجہ سے محنت کش بُری طرح گھائل ہیں تو دوسری جانب مختلف ڈیپارٹس میں انہیں جس طرح ذلیل کیا جاتا ہے، یہ غلام داری عہد کو بھی مات دے گیا ہے۔ نائٹ شفٹ، خاص کر چیکنگ کے شعبہ میں ورکرز کی برطرفیاں ہوتی رہتی ہیں اور کم سے کم ورکرز سے زیادہ سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ یوں محنت کش بیمار ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ چھٹی کرتے ہیں، بہانہ پاکر ان کا کارڈ لفٹ کر دیا جاتا ہے یا پھر ان پر اس قدر زیادہ کام کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ کام چھوڑ کر کسی اور فیکٹری میں چلے جاتے ہیں۔ غنڈا ٹائپ کے سپروائزرز ورکروں کی پٹائی بھی کر دیتے ہیں۔ نائٹ شفٹ والوں کو کینٹین پر کھانا نہیں ملتا۔ آدھے گھنٹے کے ٹی ٹائم کے دوران بھی (TAXPA PLANTS) بند نہیں کیے جاتے۔ یہ پلانٹس کمپیوٹرائزڈ ہیں اور جرمنی کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بیڈ شیٹس سلائی کرتے ہیں۔ چیکرز انہیں چیک کرتے ہیں۔ TAXPA کا انچارج یہ نہیں دیکھتا کہ چیکنگ ڈیپارٹس میں ورکرز کم ہیں۔ وہ پلانٹ آپریٹروں کو ٹارگٹس دے دیتا ہے۔ مشینوں کی رفتار بڑھا دی جاتی ہے۔ ٹی ٹائم اور نماز کے ٹائم یہ برابر چلتے رہتے ہیں اور یوں چیکرز کو واپس آکر پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑھتی ہے۔ جو ٹارگٹس آپریٹروں کو دیے جاتے ہیں ان کے مطابق نائٹ شفٹ میں چیکرز کی تعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ایک Pair پر پلانٹ کو Cover کرے۔ اس کے نتیجے میں پروڈکشن لوڈ ہوجاتاہے۔ سپر وائزر وکروں کو برا بھلا کہتا ہے سارا غصہ ورکروں پر نکالتاہے۔ وہ پلانٹ کور نہیں کر رہے جبکہ ورکرز کا مطالبہ ہوتا ہے کہ مزید کام کرنے والوں کو لایا جائے تاکہ اضافی لوڈ نہ پڑے۔ یہ کشمکش چلتی رہتی ہے۔ صبح کی شفٹ میں 25 سے 30 ورکرز چیکنگ کا کام کرتے ہیں۔ جبکہ نائٹ شفٹ میں یہ تعداد تو نصف سے بھی کم رہتی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ گزشتہ کچھ دنوں سے نائٹ شفٹ کے ورکروں کا ٹی ٹائم بند کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جارہی ہے۔ اور تو اور صبح 5 سے 6 بجے تک نماز کا وقفہ بھی جزوی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ اتوار کی نائٹ میں کھانا تو دور کی بات چائے تک نہیں ملتی۔ انہیں بے یارو مدد گار چھوڑ کر پوری کمپنی چھٹی کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہے۔
عید الفطر پر ورکرز کو بونس دیا جاتا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت کشوں کو ان گنت اذیتوں اور مشکلوں سے گزارا جاتاہے کہ وہ تنگ آ کر یا تو کمپنی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر لڑائی کرتے ہیں۔ اس صورت میں بھی انہیں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت جبری مشقت اور برطرفیوں کا ہے۔ ظاہر ہے کے جہاں برطرفیاں ہوں گی وہاں جبری مشقت بھی ہوگی۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ بونس کم سے کم لوگوں کو ملے۔ ورکزر کا بھی بس ان دنوں یہی ٹارگٹ ہوتا ہے کہ وہ بونس کی رقم حاصل کریں اور دو، چار مہینوں کے لیے گاؤں چلے جائیں۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے کام کے بوجھ اور کم سے کم چیکروں کے باوجودسپر وائزر نے ایک چیکر کو کام سے نکال دیا۔ حالانکہ اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف احتجاج کی مختلف سطحیں ہیں۔ دو ہفتے قبل تنخواہ ملنے میں بہت تاخیر پر پیکنگ کے ورکرز نے کام چھوڑ ہڑتال کر دی۔ آدھے گھنٹے بعد G.M کے کہنے پر تنخواہ دے دی گئی۔ ڈیپارٹس میں ایک مصنوعی قسم کی لسانی تعصب کی فضا طاری کی جاتی ہے۔ محنت کش زیادہ ترایک ہی زبان بولنے والے گروپوں کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح کی چیز محنت کشوں کی جڑت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ احتجاج کا عمل انفرادی طور پر زیادہ ہے۔ چیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں بھی سبھی محنت کش کسی نہ کسی سپروائزر کے قریبی تعلق کیوجہ سے کام کر رہے ہیں۔ ورکرز اخبار میں کام کا اشتہار پڑھ کر نہیں آتے بلکہ ذاتی تعلقات کی بنا پر آتے ہیں۔ لیکن کمپنی کی طرف سے (جس میں اور کمپنیاں بھی شامل ہیں) ایک دوغلا پن یہ روا رکھا جاتاہے کہ تعلق کی بنا پر ہر ورکر کو کام نہیں دیا جاتاکیونکہ اس طرح یونین بننے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ اس انڈسٹری میں 90 فیصد ورکرز سفارش کے ذریعے ہی کام کر رہے ہیں۔ رمضان سے پہلے ان کاصرف یہی عزم رہ جاتا ہے کہ وہ تمام مشکلات کے باوجود بونس لیں گے اور پھر کبھی اس کمپنی میں نہیں آئیں گے۔ لیکن چند ماہ بعد وہ پھر آجاتے ہیں۔ ڈے نائٹ شفٹ کو گورکھ دھندے کے طور پر استحصال کیا جاتا ہے۔ ایک مصنوعی قسم کا بحران طاری رہتا ہے کہ ورکرز نہیں ہیں، ورکرز آج آئیں گے وغیرہ۔ ڈے نائٹ خاص طور پر چیکنگ ڈیپارٹمنٹ کے ورکرز کی شیفٹنگ کا تعین اس بات پر نہیں ہوتا کہ نائٹ کے سارے ورکرز ڈے میں اور ڈے کے سارے ورکرز نائٹ میں چلے جائیں بلکہ یہ سپر وائزر کے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ کس ورکر کو نائٹ یا ڈے شفٹ میں بھیجتا ہے۔
ڈے نائٹ میں وکروں کی شیفٹنگ شیڈول کے مطابق نہیں بلکہ سزا کے طور پر ہوتی ہے۔ چیکنگ ڈیپارٹمنٹ کی نائٹ شفٹ میں ایسی بہت ورکرز ہیں جنہیں کبھی بھی ڈے شفٹ میں نہیں بھیجا گیا۔ کمپنی کی انتظامیہ خود اپنے بنائے ہوئے قواعد وضوابط کو روند رہی ہے کچل رہی ہے۔ مسلسل نائٹس میں کام کرنے سے محنت کش بیمار ہو جاتے ہیں۔
چند ماہ قبل ورکرز کے ڈیوٹی کارڈز ری نیو کیے گئے۔ چیکرز کے ڈیوٹی کارڈز پر پہلے UNIT V TEXPA لکھا ہوتا تھا۔ جبکہ موجودہ کارڈز پر AGF یعنی A بلڈنگ گراؤنڈ فلور ہی لکھا ہے حالانکہ چیکرز اب بھی UNIT V TEXPA کے تحت پلانٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ ورکرز کے ڈیوٹی کارڈز پر یونس ٹیکسٹائل ملز نہیں لکھا ہوتا بلکہ یہ نام آفیشل ورکرز کے کارڈز پر لکھا ہوتا ہے۔ اگر محنت کش کو راستے میں پولیس پکڑ لے تو وہ کیا بتائے گا کے وہ کیا کام کر رہاہے؟ اگر وہ چیکر ہے تو کس کام کا؟ کیونکہ کارڈز پر UNIT V TEXPA نہیں لکھا ہوا۔ اورکمپنی کا نام تو بالکل نہیں لکھا ہوا! نائٹ میں جبری مشقت کا شکار ہونے والا ورکر احتجاج کے لیے اس لیے بھی پر امید نہیں ہوتا کہ اسے ڈے شفٹ میں جانے کی آس ہوتی ہے۔
بھتہ مافیہ کمپنی سے لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہیں۔ ملیر اور اس کی اطراف میں جرائم پیشہ مافیہ گروپ نے کمپنی کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کمپنی میں کچھ افراد کو بھرتی کروا رکھا ہے جو کسی کو بھی تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں یا پھرباہر سے یہ غنڈے کمپنی کے گارڈزکو دھکے مارتے ہوئے اندر گھس آتے ہیں اور جس کسی کو چاہے دبوچ کر لے جاتے ہیں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ سکیورٹی گارڈز نائٹ شفٹ میں کیمرہ لے کر گھومتے ہیں۔ اگر کوئی ورکر تھکا ماندہ سورہا ہے تو اس کو کھینچ لیتے ہیں اور G.M کو دکھاتے ہیں۔ دوسرے دن اس محنت کش کو کمپنی سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ کمپنی کی دو کینٹینز ہیں۔ دونوں ٹھیکے پر ہیں۔ یہ تیسرے اور چوتھے فلور پر ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر ایسے بوڑھے ورکرز اور خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہے جو سانس کی بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔ بڑی بڑی کار گو لفٹس تو ہیں مگر کینٹین تک جانے کے لئے کوئی لفٹ نہیں۔ کینٹینز میں گلاس نہیں۔ ورکرز جگ کو منہ لگا کر پانی پیتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت نہیں۔ ٹھیکے داری نظام کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ ایک شدید زخمی ورکر کو رات کے 2 بجے کہا گیا کہ کام کرنا ہے تو کرو ورنہ کمپنی کے گیٹ سے باہر چلے جاؤ۔ ورکرز کے احتجاج کو روکنے کے لیے ڈے شفٹ کو ایک سبز باغ کے طور پر دکھایا جاتا ہے کہ کہیں نائٹ شفٹ والے کام کے بوجھ اور برطرفیوں سے دل برداشتہ ہو کراحتجاج نہ شروع کر دیں۔ کام کے اوقات کار کی شفٹنگ کا کوئی معیار اور شیڈول مقرر نہیں۔ سب کچھ ایک انارکی کے تحت ہو رہاہے۔ مگر محنت کشوں میں اندر ہی اند ایک لاوہ پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر باہر آ سکتا ہے۔