تحریر: لال خان
آج کی دنیا میں سب سے بڑی بربادی یمن میں جاری ہے۔ نہ صرف سعودی اتحاد کی بمباری اور خانہ جنگی سے ہزاروں افراد مارے جا رہے ہیں بلکہ بھوک، بیماری اور پانی کی قلت سے پورا معاشرہ بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔ بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا سرسری خبر دے کر یمن کو سکرینوں اور اخباروں سے غائب کر دیتا ہے۔ لیکن یہ غارت گری نہ کم ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی امداد آنے دی جا رہی ہے۔ ایسا بھی دور تھا جب یمن ’’فیلکس عریبیہ‘‘ یعنی ’’خوشحال عرب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں قبائلی تنازعات، بنیاد پرستانہ دہشت گردی اور ہولناک غربت نے یمن کے عوام کو بدحال کیا۔ لیکن آج جتنا ظلم اور بربریت جاری ہے وہ پہلے کبھی اتنی بھیانک اور دلسوز نہیں تھی۔
اسکی بنیادی وجہ مغربی سامراجیوں اور عرب بادشاہتوں کی یمن کے حوثی باغیوں سے ہونے والی جنگ ہے۔ ان حوثی باغیوں کو کسی حد تک ایرانی ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس بربادی پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمن کی 2 کروڑ 80 لاکھ آبادی کا 75 فیصد سے زائد حصہ شدید غربت اور محرومی کا شکار ہو چکا ہے۔ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، پانی کی سپلائی بمباری سے تباہ ہوگئی ہے، جدید انسانی تاریخ میں ہیضے کی سب سے بڑی وبا یمن کے بچوں کی زندگیوں کو تلف کر رہی ہے، ملک میں قحط پھیل رہا ہے، ادویات کے ذخیرے ختم ہو چکے ہیں۔ مغربی میڈیا اور سیاستدان یمن کو شاید اس لئے بھی نظر انداز کر رہے ہیں کہ شام کی نسبت یمن زیادہ دوری پر ہے اور یہاں کے برباد شہریوں کو لہروں میں بہا کر کوئی سمندر یورپ کے ساحلوں پر پھینکنے والا نہیں۔ سعودی قیادت میں عسکری اتحاد کو مغربی سامراجیوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
یمن کی اِس بربادی کی وجوہات بنیادی طور پر 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلابات کی پسپائیوں کی لڑی سے جڑی ہوئی ہیں۔ تیونس اور مصر میں شروع ہونے والی یہ عوامی بغاوت جب خطے کے دوسرے ممالک میں پھیلی تو یمن کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں بھی ایک تحریک پھٹ پڑی تھی۔ اس وقت کے صدر علی عبداللہ صالح نے بہت مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار اُسے اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن اس کے بعد چونکہ تحریک کی کوئی منظم قیادت نہیں تھی اس لئے اس کو منتشر کرنے لئے نائب صدر منصور ہادی کو 2012ء میں اقتدار سونپ دیا گیا اور 2015ء میں ایک نیا آئین تشکیل دیا گیا۔ اس ساری کاروائی پر سعودی عرب کی حاکمیت کی مہر ثبت تھی۔ لیکن اس نئے سیٹ اپ سے حوثی باغی، جنہوں نے علی عبداللہ صالح کے خلاف تحریک میں ہراول کردار ادا کیا تھا، نالاں اس لئے تھے کہ انہیں جو علاقے مختص کیے گئے تھے وہاں وسائل کا فقدان تھا اور سمندر تک رسائی نہیں تھی۔ یوں تنازعہ بھڑک کر حوثی باغیوں کی بغاوت اور خانہ جنگی میں بدل گیا۔ اس خانہ جنگی میں مغربی پشت پناہی میں بننے والے عسکری اتحاد میں رجعتی قوتیں بھی شامل تھیں جن میں سلفی جہادی اور دوسری فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیمیں سر فہرست تھیں۔ ابتدا میں حوثی باغیوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سعودی عسکری اتحاد میں ان کو شکست دینے کی صلاحیت بھی موجود نہیں تھی۔ اس طرح مشرقِ وسطیٰ کے ایک اور ملک میں خطے کی دو بڑی مذہبی حاکمیتوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ حوثیوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں سعودی عرب پر داغے جانے والے میزائلوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تنازعہ جلد ختم ہونے والا نہیں۔ جہاں بیرونی جارحیت جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے وہاں حوثی باغیوں کے مظالم کی داستانیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بہت سی عالمی تجزیہ کار تنظیموں نے ان خبروں کی تو ثیق کی ہے کہ سعودی عسکری اتحاد کی بمباری سے بڑے پیمانے پر ہسپتال، سکول، بازار وغیرہ تباہ ہوئے ہیں اور بے شمار اموات ہوئی ہیں۔ ایسی جنگوں میں بے اصولی ناگزیر ہوتی ہے۔ جس عبداللہ صالح کے خلاف حوثی باغیوں نے تحریک چلا کر اس کو برطرف کروایا تھا اب اس کے ساتھ جنگی اتحاد بنا رہے ہیں (تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وفاداریوں کی تبدیلیوں کے اِسی کھیل میں عبداللہ صالح حوثیوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے)۔ ایرانی حکمرانوں نے موقع غنیمت جان کر اپنی علاقائی اجارہ داری کی پالیسی کو پھیلانے کے لئے مداخلت تیز کر دی ہے۔ ایرانی حکمران اس جنگ میں پہلے سے بحران زدہ سعودی بادشاہت کو مزید نڈھال کر کے اس پر جنگی بوجھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ممالک میں اپنے اثرورسوخ اور مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یمن میں ہونے والی جنگ کے پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور یہ ہر طرف مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن نہ تو اقوام متحدہ، نہ’’عالمی برادری‘‘ اور نہ ہی علاقائی و عالمی طاقتیں اس جنگ کو ختم کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یمن کی حالیہ تاریخ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی مسلسل بربادیوں پر مبنی نہیں ہے۔ یمن میں انقلابی تحریکیں بھی ابھرتی رہی ہیں اور اِس بوسیدہ نظام اور اس کی ریاست کا خاتمہ کرکے بائیں بازو کی ایک ترقی پسند حکومت بھی برسر اقتدار آئی تھی، جس نے ثابت کیا تھا کہ اس نظام کو بدل کر بہتری یقیناًممکن ہے۔ 1978ء میں یمن کی ’متحدہ مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی‘ نے عبدالفتح اسماعیل کی قیادت میں ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے نئی ریاست اور نظام کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں میں تیز ترقی اور عام انسانوں کو ان بنیادی حقوق و ضرورت کی فراہمی یقینی بنانے کے ٹھوس اقدامات کئے تھے۔ 1990ء تک تمام بیرونی جارحیتوں اور اندرونی سازشوں کے باوجود یہ حکومت قائم رہی تھی۔ انقلاب کے بعد انہوں نے یمن کی نئی ریاست کا نام’مارکسسٹ پیپلز ریپبلک آف یمن‘ رکھا تھا۔ لیکن مارکسزم کے بنیادی نظریات کے برخلاف ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ اگر دنیا کا 1/6 رقبہ رکھنے والے سوویت یونین میں قائم نہیں رہ سکتا تو یمن جیسے چھوٹے سے انتہائی پسماندہ ملک میں بھلا منصوبہ بند معیشت لمبے عرصے تک بھلاکیسے چل سکتی تھی جو ہر طرف سے نہ صرف سرمایہ دارانہ ریاستوں بلکہ عالمی اور علاقائی سامراجی عزائم رکھنے والی رجعتی آمریتوں میں گھرا ہوا تھا۔ افغانستان کی طرح جب یمن میں بھی سامراجی پشت پناہی سے 1990ء میں بائیں بازو کی اس حکومت کو سبوتاژ کر کے گرایا گیا تو نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات ابھرے اور تصادم شروع ہو گئے جس سے مسلسل قتل و غارت اور عدم استحکام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ کیفیت آج اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے۔ لیکن عالمی اور علاقائی سامراجی جو انسانی حقوق کا اتنا شور مچاتے ہیں انہیں یمن میں ہونے والی نسل انسانی کی اِس بربادی اور قتل عام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ انتہائی سفاکی سے اپنے مالی اور سٹریٹجک مفادات کے لئے اس جنگ کو مزید خونریز کرتے جا رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل موجود ہ نظام اور اس کی سفارت میں ممکن نہیں ہے۔ پورے خطے کی بربادیوں کے ساتھ یمن کا بحران بھی جڑا ہوا ہے۔ پورے مشرقِ وسطیٰ کے استحصال زدہ عوام خود ایک تحریک میں ابھر کر ہی اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ 2011ء میں انقلابی قیادت میسر نہ آنے پر عوامی انقلابات کی لہر ابھر کر زائل ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے آج پورا خطہ خونریز تنازعات اور سامراجی جنگوں کی زد میں ہے۔ لیکن بقا کی ضمانت اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا ایک نیا انقلابی ابھار ہی بن سکتا ہے جو منطقی انجام تک پہنچ کر سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑے اور سامراج کی جکڑ توڑے۔