پیلا آسمان!

اداریہ جدوجہد:-

عمران خان اور ریحام خان کی شادی اور طلاق جس طرح میڈیا پر چھائی رہی، معاشرے کی ہر پرت میں جس تجسس اور محو ہونے کا عمل ہمارے سامنے آیا اس سے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ شاید اس سے اہم کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور اس ملک کو اس سے بڑاکو چیلنج ہی درپیش نہیں۔ لیکن شیکسپیئر کے الفاظ میں ’’اس دیوانگی میں بھی ایک چال اور ترتیب ہے‘‘۔ عمومی طور ہمارے اوپر مسلط اہلِ دانش اس سارے کھلواڑ کا الزام محنت کش عوام پر دھردیتے ہیں۔ ان کو جاہل گنوار پسماندہ اور کم عقل قرار دے کر وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام اپنی ذلتوں اور بربادیوں کا شکار اس لیے ہیں کہ ان کو ان سیکنڈلوں کے شغف سے ہی فرصت نہیں۔ یہ تجزیے ایک غیر جلدیاتی اور مصنوعی سوچ اور طرز فکر کی غمازی کرتے ہیں۔ جب کسی معاشرے میں تحریکوں سے غداری کرکے انہیں رسوا اور مفلوج کردیا جائے‘ سماجی حرکت کسی راستے پر گامزن ہونے کی بجائے کسی کیچڑ کے جمود میں پھنس کر ترقی کی بجائے تنزلی کی اذیت کا شکار ہوجائے‘ کوئی راستہ نظر نہ آئے ‘ ہر مشعلِ راہ اوجھل ہو کر اندھیرے میں غرق ہوجائے ‘ امید کا دامن ٹوٹ جائے‘ آسرے اور اعتبار دھوکے بن جائیں تو عوام پھر بھی جینے کو ترک نہیں کرتے۔ ہر دکھ، ہر زخم، ہر تکلیف برداشت کرکے بھی زندگی سے گریزاں نہیں ہوا کرتے۔ امید نہ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں اس کی کوئی نہ کوئی رمق دل ودماغ کی گہرائیوں اور لاشعور میں دھڑک رہی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسرے سے بیگانگی، معاشرے کی بھیڑ میں بھی تنہائی کا احساس ان کی روح اور احساس کو گھائل ضرورکرتا ہے مگر ان کی زندگی کوبہتر بنانے اور ان عذابوں سے نجات پانے کی جستجو سرے سے ہی مٹ نہیں جاتی۔
تحریکوں اور انقلابات کے فقدان میں جہاں لوگ معاشی اور سماجی طو ر زندہ رہنے کے لیے ہر حربہ، ہرانفرادی کشٹ کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں سماج میں ان کو اسی طرزِ زندگانی میں محورکھنے کے لیے حکمران مختلف قسم کے سیکنڈل‘ ڈرامے اور تماشوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ چاہے وہ قدیم روم کے سیزرہوں جو کلازیم میں شیروں کو غلاموں پر چھو ڑتے اور انکے جسموں کے پرخچے اڑانے کا تماشا کروا کے رعایا کو ان جعل سازیوں میں الجھائے رکھتے تھے یا آج کے حکمران ہوں جو اپنے ایڈوانس میڈیا کے ذریعے شہرت یافتہ شخصیتوں (جن کا تعلق کسی بھی مقبول شعبے سے ہو) کے گرد مختلف ناٹک ابھارتے اور گراتے ہیں۔ یاس میں ڈوبے ہوئے عوام ان میں محوہوجاتے ہیں۔ اپنے سنسنی خیز ناٹکوں کے کرداروں میں اپنا آپ تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں، ان کو اپنے نجات دہندگان سمجھنے لگتے ہیں۔ مخیر حضرات سے لے کر سیاست دانوں،کھلاڑیوں اور فنکاروں تک کے ڈرامائی روپ کو وہ حقیقی کردار سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں ہیرو اور ولن، اچھے اور برے کی تفریق کو اپنی نفسیات میں قبول کرلیتے ہیں اور پھر اس حکمران نوٹنکی کے سورماؤں کو اپنے نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں، انہی پر اپنی امیدیں لگادیتے ہیں، ان کے دکھوں پر روتے ہیں، انکی کامیابیوں پرخوش ہوتے ہیں۔
عام لوگ عام حالات کے عام انتخابات میں ووٹ اس لیے فروخت کرتے ہیں کیونکہ اس کا ان کو کوئی بہتر نعم البدل نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں کے ان سیکنڈلوں کے تماشے اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس ملک کے سیاسی اُفق پر کوئی متبادل پروگرام نظر ہی نہیں آتا۔ لیکن یہ دونوں بادل نخواستہ حرکات ایک طرف جمہوریت اور اس نظام سے اکتاہٹ اور اسکے عوامی استرادادکی غمازی کرتی ہیں اور دوسرے جانب ان حکمرانوں کے ناٹکوں سے محضوظ کم اور مجبوری سے دیکھنے سے بیزار زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں کا جوں جوں بحران شدت اختیار کرتا ہے انہیں اپنے یہ ناٹک جلدی جلدی بدلنے پڑتے ہیں۔ نئے ناٹک اور نان ایشوز گھڑنے پڑتے ہیں۔ لیکن یہ محنت کش عوام ہمیشہ تو تماشائی نہیں بنے رہتے۔ ایک وقت آتا ہے جب وہ خود میدان میں کود پڑتے ہیں اور ان مصنوعی ڈراموں کی جگہ اصل زندگی کو بدلنے، تلخ حقائق سے نپٹنے اور حکمرانوں کے اس ناٹک کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کو تاریخ کے میدان میں اتر کر ایک انقلابی یلغار کی صورت میں کرتے ہیں۔ 1968-69ء میں پاکستان کے عوام تاریخ کے اس تھیٹر میں اپنا کردار خود ادا کرنے کے لیے اترے تھے۔ جب محنت کش اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں، ایک اجتماعی طبقاتی شعورجاگ اٹھتا ہے تو پھر اس مصنوعی سٹیج سے نہ صرف جعلی ایکٹروں کو ہی نکال باہر نہیں کرتے بلکہ ا س سارے تھیٹر کو ہی الٹا دیتے ہیں۔ اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں سے بنانے اورسنوارنے کا سفر شروع کردیتے ہیں۔
عظیم مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی نے تحریر کیا تھا کہ ’’ہمارے سروں پر ایک نیلا آسمان ہے لیکن ہماری نفسیات پر ایک پیلا آسمان چھایا ہوا ہے۔ اس پیلے آسمان پر حکمرانوں کے مختلف کردار ناٹک کرتے رہتے ہیں۔ عوام ان میں محو رہتے ہیں لیکن جب محنت کش اس پیلے آسمان کو نیچے کی بجائے اوپر سے دیکھتے ہیں تو پھر ان پر حکمرانوں کا اصل غلیظ کردار عیاں ہوتا ہے تو انکے خلاف ایسی بغاوت پھوٹتی ہے کہ انقلاب سے یہ نظام ہی اکھاڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان کے پیلے آسمان میں ناٹک کاروں کا رش بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ پیلا آسمان بے نقاب بھی ہونا شروع ہوگیا ہے۔ شادیوں اور طلاقوں میں بھی پیسے اور مادی فائدے کا عنصر سامنے آرہا ہے۔ رشتوں اورناطوں میں بھی کاروبار ہی حاوی ہے۔ ہر معیار،ہر رتبہ، ہر عظمت، ہر بڑائی اور نیکی و پارسائی اور اچھائی کا معیار صرف دولت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس دولت سے محروم 85 فیصد لوگ اب جاننا شروع ہو گئے ہیں کہ انکی محرومی اور بدبختی کی وجہ ان کا مقدر نہیں یہ حکمران ہیں، ان کا نظام ہے۔ پیلے آسمان کے کرداروں کی بھیانک اصلیت ان پر آشکار ہورہی ہے۔ نفرت بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ نفرت ایک آگ بن کر کب پھٹتی ہے اس میں شاید زیادہ دیر نہیں ہے۔ لیکن یہ بغاوت ان عذابوں کو صرف ایک مارکسی پارٹی اور پروگرام کے ذریعے ہی ختم کرسکتی ہے جو اس متروک اور زہریلے سرمایہ دارانہ نظام نے دیئے ہیں۔