| تحریر: لال خان |
اس زمانے میں ہر طرف دکھ، کرب اور ستم ہیں۔ عام انسانوں کی زندگیاں کتنی تلخ، روح کتنی غریب اور احساس کتنے محروم ہیں۔ ایک طرف سینکڑوں ڈشوں پر مبنی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے افطار ڈنر ہیں اور دوسری طرف کروڑوں کی مفلوک الحال مخلوق ہے جس کے لیے سارا سال ہی ’’رمضان‘‘ رہتا ہے۔ ایک طرف وزن کم کرنے کی اربوں کی صنعت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے تو دوسرے جانب قحط سے ہزاروں زندگیوں کے چراغ روز گل ہو رہے ہیں۔ معیشت میں استحصال اور محرومی بڑھا کر حکمران دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ جرائم اور دہشت گردی میں بھی ان کے لیے اشرفیاں ہی ٹپکتی ہیں جبکہ کئی کئی نوکریاں کر کے بھی محنت کش محرومی اور غربت کی اس اذیت ناک کھائی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ سیاست حکمرانوں کے لیے لوٹ مار بن کر رہ گئی ہے۔ آج کے حکمران طبقات کی حالت یہ ہے کہ ان کی موجودہ سیاست میں آنے والی نسلیں ماضی کے حکمرانوں کی پارلیمانی سیاست کی مہارت اور اقدار سے بھی انجان ہیں۔ اصول و ضوابط اور ضمیر کا شائبہ بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ حکمرانوں کی سیاست اگر پارلیمانی محلات میں ہوتی ہے تو محنت کشوں کی سیاست جو کبھی کبھی دہائیوں بعد ہی دیکھنے کو ملتی ہے وہ فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، گلیوں، محلوں اور کھیتوں کھلیانوں میں ہوا کرتی ہے۔ آج ہر جگہ انسانوں کی بھیڑ ہے لیکن ان کی سیاست ویران ہے۔ اگر سیاست سے محنت کش طبقے کو بے دخل کر دیا گیا ہے تو اس نظر یات سے عاری سیاسی نورا کشتی میں معاشرے کی دلچسپی اورامیدیں بھی یکسر ختم ہو چکی ہیں۔ لوگوں کا ان سیاست دانوں کی عیاریوں، مکاریوں اور منافقانہ مسکراہٹوں اور ناٹکوں سے نہ صرف دل اچاٹ ہو چکا ہے بلکہ ان کے اندر حکمران طبقے کی سیاست، ثقافت، اقداراور شخصیات کے خلاف ایک دیو ہیکل لاوا سماج کی کوکھ میں بھڑک رہا ہے۔ اس حرارت کی لہروں سے حکمرانو ں کے ایوانوں اور ریاست کے اداروں میں بھی ایک لرزاہٹ کسی حد تک محسوس ہو رہی ہے۔ آج اگر یہ معاشرے کی کوکھ سے پھٹ کر سماجی جمود کی سطح کو پھاڑ کر باہر نہیں نکلا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ لا متناہی طور پر اسی کیفیت اور میعار پر ہی سلگتا رہے گا۔ آج عام انسان ایک مخصوص وقت اور رجعتی عہد کی قید میں جکڑے ہوئے ضرور ہیں لیکن ہمیشہ ایسے تو نہیں رہ سکتے۔ یہ تو کائنات کے اصولوں کے بر عکس مفروضہ بن جاتا ہے۔ وقت ظالم سہی لیکن کبھی الٹا نہیں چل سکتا۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ لیکن عوام کو ان کی روایتی قیادتوں کی غداریوں کے خنجر سے گھائل اور مجروح کر کے، معاشی بربادی کر کے، فریب اور بے وفائیوں سے ان کے دلبرداشتگی اور یاس سے نڈھال کر کے حکمران طبقات جو سیاست اور جمہوریت چلا بھی رہے ہیں، وہ بھلا کون سی کامیاب ہے؟ عوام کے غیض و غضب سے بے پرواہ حاکم اس خطرے کو مسترد کرتے رہیں، انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ بھی ہو، ان کا نظام ناکام اور نامراد ہی ہے۔
یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں حکومت حکمران سولین دھڑے کے سیاست دانوں کی ہے لیکن اس اقتدار کو چلا اور استعمال جرنیل کر رہے ہیں۔ عوام کو جمہوری اور مارشل لا کی اقسامِِ حکمرانی کے جعلی تضادات میں الجھا کر تمام جمہوری پارٹیاں اور سیاست دان فوج کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ سامراجی دارالحکومتوں میں سپہ سالاروں کے استقبال بادشاہوں سے زیادہ بڑے اور پر تعیش ہیں۔ ملک کے اندر قائم چھاؤنیوں سے عام انسان جن چیک پوسٹوں سے گزرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ انگریز کے دورِ نوآبادکاری اور سامراجی مقبوضہ علاقوں کی ترش اور دلخراش یادوں اور روایتوں کو زندہ کرتی ہیں۔ اگر سیاست، خارجی اور داخلی پالیسیوں کا اختیار فوج اور خفیہ اداروں کے پاس ہے تو ان بالائی ڈھانچوں کی بنیاد معیشت اور مالیاتی شعبوں پر بھی وہی وردی والے غالب ہیں۔ دہشت گردی کے وقفے آتے اور جاتے رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کاروبار چلتے رہتے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کے نشے میں عام انسانوں کی جانب حکمرانوں کے رویے بہت ہی ظالمانہ ہوتے چلے گئے ہیں۔ جمہوریت کے یہ شہزادے سامراجی طاقتوں اور عسکری اشرافیہ کے جتنے مطیع اور محکوم ہیں، جس شرمناک انداز میں ان کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اس سے ان کی جمہوریت کی عظمت کا پول عوام کے سامنے کھل چکا ہے۔ اب کون عام انسان ہے جو وقت کی اس قید سے آزاد ہو کر حکمرانوں کی عیاشیوں اور عوام کی بربادیوں والی جمہوریت کے لیے کسی جدوجہد کرنے کا کشت کاٹے گا۔
زرداری نے فوج کے خلاف جو حالیہ شوشہ چھوڑا ہے، نہ صرف اس کی معافیوں کے لیے اس فن کی ملکہ شیری رحمان کو سینٹ کی سیٹ انعام و اکرام کے طور پر بخشی گئی ہے بلکہ جس وقت اور واقعات میں یہ بیان دیا گیا ہے اس سے عوام کی نظروں میں ’’دال میں کالا‘‘ بے نقاب ہو گیا ہے۔ ایان علی منی لانڈرنگ کیس اور سندھ میں ان کی کرپشن پکڑنے کے لیے چھاپے مارے گئے ہیں۔ ایسے موقع پر فوج پر تنقیدی حملہ اور ملک کے طول و ارض میں تحریک چلانے کی بڑھک بازی سے جہاں زرداری کی ذہنی پراگندگی اور بوکھلاہٹ سامنے آتی ہے وہاں یہ الیکشن ہارتے چلے جانے والی پارٹی کی طرف سے یہ ’’دھمکی‘‘ لگانا کہ ’’زرداری کے لیے خون کی ندیاں بہ جائیں گی‘‘ کسی دیوانے کے بیہودہ خواب سے کم نہیں لگتا۔ موٹر وے ہو یا معاشی کوریڈور، اگر ہر بڑا ٹھیکہ لینے میں فوج کو فوقیت حاصل ہے تو دوسرے شعبوں میں بھی یہ عسکری اشرافیہ مالی مفادات کو اپنی اولین ترجیح سمجھتی ہے۔ یہ پراجیکٹ ٹھیکوں کی کمائی بڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ٹھیکے پراجیکٹوں کو بنانے کے لیے نہیں، مال بنانے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ’’جمہوری‘‘ ادوار میں فوج کا بجٹ زیادہ بڑھایا جاتا ہے اور ان کا سیاسی اور سماجی غلبہ بھی بڑھ جاتا ہے لیکن سولین سیاست دان جو اتنی بھاری سرمایہ کاری سے اقتدار اور سیاست میں آتے ہیں وہ بھی مال بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا نہیں رکھتے۔ اپوزیشن میں ہو کر بھی اس سیاسی ’’کلب‘‘ کے ممبران کے پاس لوٹ مار کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹیوں سے لیکر مصالحتی پالیسیوں تک، ہر چیز کے دام لگتے ہیں کیونکہ ان نوکریوں یا عہدوں کی قیمت ان سے ممکنہ طور پر حاصل ہونے والی کمائی کے حساب لگائی جاتی ہے۔ میڈیا بھی اس مالیاتی سیاست و ریاست کا ہی حصہ ہے۔ مذہبی اشرافیہ بھی اس پارٹنر شپ کا حصہ بن چکی ہے، پیری مریدی بھی اسی کاروبار میں استعمال ہوتی ہے۔
دوسری طرف سارا معاشرہ تعلیم، علاج، روزگار اور زندگی سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ حکمران چاہے کسی شعبے یا ادارے سے کیوں نہ ہوں اپنی طاقت کو دولت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس دولت سے مزیدطاقت جمع کرنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس دولت کے انبار خرچ کرنے کا ان سخیوں کے پاس نہ وقت ہے نہ فرصت۔ یہ اتنا مال بنا چکے ہیں کہ ان سرمایہ داروں، جاگیر داروں، سیاسی جغادریوں، ریاستی افسر شاہی اور جرنیلوں کی نسلیں بھی خرچ نہیں کر سکتیں۔ ہاں زن، زر اور زمین پر خون خرابے ضرور ہوتے ہیں۔ ’’عزتیں‘‘ عدالتوں میں رسوا ہوتی ہیں۔ یہ دولت دوستیوں کو مسترد کر دیتی ہے۔ رشتوں اور ناطوں کو توڑ دیتی ہے۔ در حقیقت ایسے افراد تنہا اور بے گانگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بے دلی اور شرمندگی کی نفسیات میں مبتلا بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان کا سب سے بھیانک المیہ وہ غرور اور رعونت ہے جو اس دولت کے نشے سے دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے۔ ایسے انسان پھر آدمی بن جاتے ہیں۔ جو دوسرے انسانوں کو نیچ اور گھٹیا سمجھے وہ خود اندر سے کھوکھلا اور بدکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار وہ خود اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ خیرات اور دوسرے ناٹک مردہ ضمیروں کو زندہ نہیں کر سکتے۔
لیکن پھر تاریخ میں ہمیشہ ایک مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ جن غریبوں اور محنت کشوں کو حقارت کے ٹھکرا دیا جاتا ہے، جن اجڑے ہوؤں کو یہ نظامِ زر مزیدبرباد کر دیتا ہے، وہ بغاوت پر بھی اتر آتے ہیں اور جب وہ ایک طبقے کے طور پر تاریخ کے میدان میں اتر کر ایک تحریک میں متحرک ہوتے جاتے ہیں تو پھر یہ انقلابی طوفان ہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ان حکمرانوں کی یہ رعونت خاک میں مل جاتی ہے۔ اب تو بس وقت کی قید سے آزاد ہونے کی دیر ہے۔ محنت کشوں میں برداشت کا یہ پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ ان حکمرانوں کی رعونت کا حشر افتخار عارف کے اس شعر میں کچھ یوں بیان ہے
یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
متعلقہ: