رپورٹ: PTUDC لاہور:-
03 جولائی کی شام ساڑھے پانچ بجے پنجاب حکومت کے وحشیانہ تشدد اور گرفتاریوں کا شکار ہونے والے ڈاکٹرز کے اہلِ خانہ نے ینگ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر لبرٹی چوک لاہور میں ایک احتجاج کیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔ تمام تر مظاہرین یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ گرفتار ڈاکٹروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے مطالبات فوری طور پر منظور کئے جائیں۔مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ جن میں لکھا تھا کہ ’’فرعونِ اعلیٰ۔۔۔حساب دو‘‘، ’’ڈاکٹرز کو مسیحا سے قاتل بنانے والا۔۔۔یزیدِ اعلیٰ‘‘، ’’ہمارے مطالبات پورے کرو‘‘، ’’ہم نہیں مانتے ظلم کے یہ ظابطے‘‘، ’’اپنے حقوق مانگنے کا انجام۔۔۔تشدد‘‘۔ مظاہرین حکومتِ پنجاب کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ڈاکٹروں کی تحریک کی غلط اور جانبداررپورٹنگ کرنے پر میڈیا کی مذمت رہے تھے۔ مظاہرین نے بتایا کہ پنجاب سیکرٹریٹ سے ہر اخبار کو روزانہ 16لاکھ روپے ڈاکٹروں کے خلاف اشتہارات کی مد میں دیے جا رہے ہیں جبکہ ٹی وی چینلوں کو 45کروڑ روپے روزانہ دیے جا رہے ہیں۔
یہ احتجاجی مظاہرہ اس وقت ہو رہا تھا جب دوسری طرف پنجاب حکومت پولیس کے ذریعے مزید ڈاکٹرز کو گرفتار کرنے کے لئے ہر طرف چھاپے مار رہی ہے۔اور جو ڈاکٹرز گرفتار ہیں ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ معافی ناموں پر دستخط کریں اور ہڑتال کو ختم کروانے میں پنجاب حکومت کا ساتھ دیں۔ جبکہ تمام تر گرفتار ڈاکٹرز نے کسی بھی طرح کی مفاہمت سے انکار کر دیا ہے۔ گرفتار ڈاکٹرز سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔اس مظاہرے کے دوران بھی سینکڑوں پولیس اہلکار اسلحے سے لیس وہاں موجود تھے اور مظاہرین کا گھیراؤ ر رکھا تھا۔
احتجاج کرنے والوں نے بتایا کہ لاہور سے گرفتار کیے گئے ینگ ڈاکٹروں کو کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کیا گیا ہے جہاں انہیں دہشت گردوں کے ساتھ رکھا گیا ہے جبکہ جیل کی کوٹھری میں نہ پنکھا ہے اور نہ ہی انہیں پانی دیا جا رہا ہے۔ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ڈی سی او اور شہباز شریف کے ایجنٹ ایم پی اے محسن لطیف کے تیار کیے گئے معاہدے پر غیر مشروط طور پر دستخط کر دیں۔ میو ہسپتال میں ینگ ڈاکٹروں کے صدر ڈاکٹر عثمان ظفر ڈار اور ڈاکٹر ناصر عباس کونا معلوم جگہ پر لے جایا گیا ہے جہاں ان پر وحشیانہ تشدد جاری ہے۔اس سے پہلے گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر نعیم مصنوعی طور پر سانس لے رہے ہیں اور موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ چار ڈاکٹروں پر تشدد کے بعد ٹانگیں توڑ دی گئیں ہیں۔6ڈاکٹروں پر دفعہ 302کے تحت مقدمے درج کیے جاچکے ہیں۔530گرفتار ہیں اور انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ینگ ڈاکٹروں کے حوصلے بلند ہیں اور ان کی ہڑتال نہ صرف کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے بلکہ مزید پھیل بھی رہی ہے۔ آج ہی پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں پیرامیڈیکل سٹاف اور نرسز نے ڈاکٹرز کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اور ان پر ہونے والے ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف ڈاکٹرز کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بھی ایسی ہی توقعات ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ہسپتالوں میں بھی ایسی ہی صورتِ حال بننے کی طرف جائے گی۔ پنجاب حکومت اپنے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود اس ہڑتال کو ختم کرنے میں ابھی تک ناکام رہی ہے اور فوجی ڈاکٹرز کو سول ہسپتالوں میں تعینات کرنا بھی اس ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فوجی ڈاکٹر بھی ہسپتالوں کا انتظام مکمل طور پر چلانے میں ناکام ہوئے ہیں۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین اور پراگریسو یوتھ الائنس نے آج کے اس مظاہرے میں بھرپور شرکت کی اور تمام مظاہرین کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ینگ ڈاکٹروں کے اہل خانہ نے پی ٹی یو ڈی سی کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب حکومت اور میڈیا ایک ہی گینگ کا حصہ ہیں جو عوام کو صحت کی سہولیات نہیں دینا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ اس نازک وقت میں کسی سیاسی قوت نے ان کی حمایت کا اعلان نہیں کیا اور تمام تر ظلم اور بربریت کے باوجود ڈاکٹروں کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ان انٹرویوزمیں سے چند کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کیجیے۔اس کے علاوہ یہاں پراگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے لیف لیٹ بھی تقسیم کیا گیا جسے وہاں موجود افراد نے بہت سراہا۔