تحریر: پارس جان:-
’’جن لوگوں کو سیاست میں دلچسپی نہیں ہے انہیں کسی اور عہد میں پیدا ہونا چاہیے تھا ‘‘ (ایلن ووڈز)
نوجوان ڈاکٹروں کی شاندار تحریک نے ریاستی اداروں اور حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔پر عزم،جرات مند اور غیور نوجوان ڈاکٹر ابھی تک تحریک کے ہر امتحان پر پورے اترے ہیں۔اس جعلسازی پر مبنی نظام کے بیہودہ مذاکرات کا کھلواڑ ہو یا اس درندہ صفت ریاست کے مسلح جتھوں کا بہیمانہ تشدد حکمرانوں کے ہر حربے کو شکستِ فاش ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غلیظ،جھوٹے اور مکروہ پراپیگنڈے کے باوجود تحریک نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ اب عوامی توجہ اور ہمدردی کا مرکز بھی بنتی چلی جا رہی ہے۔
ان تمام تر کامیابیوں اور قابلِ فخر حاصلات کے باوجود بنیادی سوال آج بھی وہی ہے کہ تحریک کی نوعیت اور بنیادی کردار کیا ہے۔عمومی فہم و فراست کے مطابق یہ پنجا ب کے نوجوان ڈاکٹروں اور پنجاب حکومت کے درمیان ایک لڑائی ہے۔نوجوان ڈاکٹر اپنے معیارِ زندگی کوبلند کرنا چاہتے ہیں اور بحران زدہ پنجاب حکومت ان کے مطالبات کو یکسر مسترد کر رہی ہے۔درحقیقت صورتحال اس کے بالکل برعکس نہیں تو مختلف ضرور ہے۔ نوجوان ڈاکٹر جس قوت کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ پنجاب حکومت نہیں ہے بلکہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ایک ایسی ناکام،بیمار مگر چڑچڑی ریاست جو خود اندر سے ٹوٹ کر بکھر جانے کے خطرے کا شکار ہے۔جو عوام اور سماج سے مکمل طور پر لا تعلق ہو کر ہوا میں معلق ہو چکی ہے اور جس کے تمام ادارے آپس میں بر سرِ پیکار ہیں۔مگر ریاست سماج سے جتنی بھی لاتعلق ہو جائے وہ آخری تجزیے میں سماجی رشتوں اور قدروں کے امتزاج کی ہی آئینہ دار ہوتی ہے۔ڈاکٹروں کی حالیہ تحریک سماج میں مسلسل بگڑتے ہوئے سیاسی توازن اور اجتماعی احساسات اور خواہشات میں بھونچال کی عکاسی کر رہی ہے۔اگرچہ اس وقت سماج میں محنت کشوں اور طالبِ علموں کی کوئی بہت بڑی انقلابی تحریک موجود نہیں ہے مگر وہ تمام سماجی عوامل موجود ہیں جو ایک انقلابی تحریک کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ایسے میں اپنے مخصوص حالاتِ زندگی کے جبر اور تجربات کے نتیجے میں ڈاکٹروں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ایسے میں اگر یہ جدوجہد مزید آگے بڑھتی اور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو سماجی معمول کے ملبے تلے دبی ایک گھائل انقلابی تحریک کو وہ شکتی اور حوصلہ دے سکتی ہے کہ جس کی وجہ سے محکوم طبقات،غریب عوام اور سماج کی ہر پرت میں لڑنے اور ٹکرا جانے کا عزم پروان چڑھ سکتا ہے۔
مگر عام تاثر یہی ہے کہ یہ بغاوت شاید شہباز شریف یا پنجاب حکومت کے خلاف ہے۔اگرچہ گزشتہ دو سالوں سے شہباز شریف مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے تاخیری حربے استعمال کرتا رہا ہے۔مگر ڈاکٹروں کی استقامت کی وجہ سے ریاست اور حکمران طبقات کے تھنک ٹینک مجبور ہوئے کہ وحشت اور بربریت کا راستہ اختیار کیا جائے۔مگر ایک بحران زدہ ریاست کے لیے براہِ راست جبر اتنا آسان بھی نہیں ہوتا کیونکہ انہیں عوامی مزاحمت کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔اسی لیے وہ ایک بڑے خونی جبر سے پہلے عوامی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے کارپوریٹ میڈیا ان کا سب سے بڑا ہتھیار بن جاتا ہے۔اس تحریک کو بدنام کرنے کے لیے بھی بکاؤمیڈیا نے انتہائی وفاداری سے یہ فریضہ سر انجام دیا۔اور اسی سے شکتی حاصل کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے ڈاکٹروں پر چڑھائی کر دی۔وحشیانہ تشدد اور گرفتاریاں کی گئیں جس کی وجہ سے نوجوان ڈاکٹروں کو ایمرجنسی بھی بند کرنی پڑی مگر ڈاکٹر ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔دوسری طرف پنجاب حکومت کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ہسپتالوں کے معاملات بغیر ڈاکٹروں کے نہیں چلائے جا سکتے تھے۔اور یہ شدید خطرہ موجودہ تھا کہ بوکھلا کر اور تھک کر پنجاب حکومت بہت جلد ہڑتالی ڈاکٹروں کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو سکتی تھی۔اس خطرے کو بھانپتے ہوئے ریاست کا سب سے بڑا ادارے یعنی فوج کو صورتحال میں مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے پنجاب حکومت کو فوجی ڈاکٹروں کی خدمات پیش کر دیں۔ایک طرف تو گزشتہ عرصے میں ڈرون حملوں اور خود کش حملوں میں معصوم انسانوں کے قتلِ عام، دہشت گردوں کے ساتھ ریاستی ایجنسیوں کے تعلقات کی بے نقابی،طویل براہِ راست اقتدار اور ملکی زبوں حال معیشت کے ہر شعبے سے فوجی اشرافیہ کی لوٹ مار کے منظر پر آ جانے کی وجہ سے فوج پہلے ہی بڑے پیمانے پر ایکسپوز ہوئی ہے۔حتیٰ کہ پنجاب (جسے بدقسمتی سے عمومی طور پر فوج کے ساتھ نتھی کر کے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے) میں بھی فوجی شاونزم اور پاکستانیت آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اور میڈیا پر فوجی ڈاکٹروں کی خدمات کا شور وغل کر کے وہ دوبارہ عوامی حمایت حاصل کر کے وہ مورال حاصل کرنا چاہتی ہے کہ جس کے ذریعے وہ دوباہ براہِ راست اقتدار کے ایوانوں تک راستہ ہموار کر سکیں۔ساتھ ہی وہ ایک عوامی طوفان سے ڈرے ہوئے ہیں ایسے میں ڈاکٹروں کی تحریک انہیں پورے سیاسی اور معاشی سیٹ اپ پر حملہ دکھائی دے رہی ہے اس لیے وہ کسی بھی قیمت پر اس پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مگر ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود نوجوان ڈاکٹر ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا اور فوج کی مداخلت کے بعد اب’ ’مقدس عدلیہ‘‘ کو بھی اس لڑائی میں براہِ راست کودنا پڑا ہے اور انہوں نے دونوں فریقین کو معاملے کے تصفیے کے لیے ہدایات جاری کی ہیں۔ایک طرف پنجاب حکومت کو ہسپتالوں سے پولیس ہٹا کر گرفتاریوں کا عمل بند کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر جن ڈاکٹروں کو قتل کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے ان کی رہائی کے احکامات نہیں سنائے گئے اور دوسری طرف ڈاکٹروں کو کل سے تمام ہسپتالوں کی ایمرجنسی کھولنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔یہ فیصلہ پھر سے ریاست کے تذبذب اور ہیجان کا عکاس ہے مگر اس کے پسِ پردہ بہیمانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کے خلاف قبل از وقت حکمتِ عملی بنانا بھی ضروری ہے۔حکمران طبقات اور ریاستی اداروں کے پالیسی سازوں کی سوچ اور طرزِ عمل چونکہ عملیت پسندانہ ہوتا ہے اس لیے اس تحریک کے مسلسل چلتے رہنے سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ وہ تحریک کی قیادت کو گرفتار نہیں کر پائے ہیں اس لیے تحریک کی شدت اور توانائی برقرار ہے۔اس لیے اب وہ عدلیہ کے گرد ہڑتالی ڈاکٹروں کو کنفیوز کر کے روپوش قیادت کو منظرِ عام پر لانا چاہتے ہیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ وہ دوبارہ ڈاکٹروں پر اپنے بنیادی مطالبات سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے اور اگر ان کو ناکامی ہوئی تو تشدد اور گرفتاریوں کے اگلے مرحلے میں ان کے لیے تحریک کی قیادت کو گرفتار کرنا بہت آسان ہو گااور عدلیہ محض معذرت خواہانہ انداز اختیار کرے گی اور یوں ان کے خیال میں غبارے سے ہوا نکل جائے گی مگر حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں اور تحریک اورزیادہ مشتعل ہو کر پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔عدلیہ کی جس آزادی کا شور مچایا جاتا ہے وہ درحقیقت عدلیہ کی کرپشن اور لوٹ مار کی آزادی ہے۔ انصاف پہلے کی نسبت آج عوام سے بہت زیادہ دور ہو چکا ہے۔ وکیلوں کی فیسیں کروڑوں روپے تک پہنچ چکی ہیں جبکہ محنت کشوں کے پاس عدالت تک پہنچنے کا کرایہ بھی نہیں۔ایسے میں عدلیہ میں موجود رشوت، لوٹ مار اور جبر درحقیقت اس زوال پذیر ریاست کا عکس ہے۔ عدلیہ اس ملک کے حکمران طبقات کی کٹھ پتلی ہے اور اس کا حتمی مقصد سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ڈاکٹروں کی ہڑتال اس ظالم اور جابر ریاست کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے اس کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ارسلان افتخار کیس اس عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہی نہیں بلکہ اس کی اصلیت اور طبقاتی کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ عدلیہ اور اس ریاست کے دیگر تمام ادارے اس ہڑتال کو توڑ نے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ینگ ڈاکٹروں کا عزم، حوصلہ، جرات اور اتحاد انہیں نہ صرف اپنے مقصد میں کامیابی دلائے گا بلکہ اس ملک کے دیگر پسے ہوئے عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر اکسائے گا۔اس تحریک کا انجام پاکستان کی سیاسی اورمزدور تحریک پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
کسی بھی تحریک میں عام طور پر ایسے مراحل آتے ہیں کہ جب نفسیاتی اور اخلاقی عوامل فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ریاست کے اداروں کا احترام کرنے کی نفسیات،بزرگوں کی مشاورت اور عقلمندی کا راستہ اختیار کرنے کے مشورے آسانی سے اس تحریک کو شکست دے سکتے ہیں جو ریاستی اداروں کی درندگی اور دیگر مذاکراتی حربوں پر فتح حاصل کر چکی ہوتی ہے۔ اگر عدلیہ کوواقعی انسانی جانوں کے ضیاع پر اتنی تشویش ہے تو وہ بتائے کہ جن جعلی ادویات کے استعمال سے سینکڑوں لوگ پنجاب میں بے موت مارے گئے ان اداروں کے مالکان اورڈسٹری بیوٹر کیوں آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔اگر ڈاکٹروں پر قتل کے مقدمات اس لیے ہیں کہ ڈاکٹروں کے ڈیوٹی نہ کرنے کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں تو پھر مقدماتسیکیورٹی ایجنسیوں اور آرمی اتھارٹی پر بھی بننے چاہییں جس کے ڈیوٹی نہ کرنے کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی شہری قتل کیے جا چکے ہیں۔ آئینِ پاکستان کی رو سے ریاست لوگوں کے جان و مال اور زندگیوں کی محافظ ہے۔اس لحاظ سے غربت،مفلسی اور قابلِ علاج بیماریوں سے مر جانے والوں کے قتل کے مقدمات صدر اوروزیرِ اعظم پر بننے چاہئیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ آئین اور قانون مکڑی کے اس جالے کی طرح ہیں جن کو پھاڑ کر طاقتور نکل جاتا ہے اور غریب اس میں پھنس جاتے ہیں۔ریاست جبر کا ایک آلہ ہے جو حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور آخری تجزیے میں مسلح جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
ایسے میں اہم اور فیصلہ کن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟؟؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ڈاکٹروں کی رہائی وہ بنیادی شرط ہونی چاہئے جس سے قبل کسی بھی قسم کی بات چیت کو خارج از امکان قرار دے دیا جائے۔اور اگر ان کو رہا کر دیا جاتا ہے تو ایمرجنسیاں کھول کر ہڑتال کو پرامن طریقے سے جاری رکھا جائے اور اس کے عوامی حمایت کے حصول کے لیے پروپیگنڈے کو تیز کیا جائے۔ڈاکٹر پہلے ہی درست سمت میں گامزن ہیں انہیں اپنا راستہ تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔یہ حکمرانوں کی عدالتیں ہیں یہ حکمران ان عدالتوں میں لڑتے پھریں۔ڈاکٹر عوام کے مسیحا ہیں انہیں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے جانا ہوگا۔ اگرچہ ان کے لیے وسائل اور افرادی قوت دستیاب نہیں ہیں۔لیکن کسی مسئلے کا پیدا ہو جانا ہی اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ اس کا حل بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے محض اسے تلاش کرنا اور نکھارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس تحریک کے حقیقی اتحادی اور حمایتی اسی سماج میں موجود ہیں اور وہ یہاں کے محنت کش طبقات مزدور اور کسان ہیں۔اور ساتھ ہی پر عزم اور باہمت نوجوان اور طالبِ علم جو اپنے اپنے دائرہ کار میں اسی قسم کے معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہیں جن کے خلاف نوجوان ڈاکٹروں نے علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔ ڈاکٹروں کو باضابطہ طور پر تمام ترقی پسند اور انقلابی ماضی کی روایات رکھنے والی ٹریڈ یونینوں اور طلبا اور یوتھ کی تنظیموں سے تحریک کی باضابطہ حمایت، احتجاج اور ضرورت پڑنے پر ہڑتال کی کال دینی ہو گی۔مگر یہ عمل انتہائی پر پیچ اور دشوار گزار ہو گا، کیونکہ عمومی طور پر اس وقت ٹریڈ یونین اور طلبا تحریک میں بھی مایوسی کا طرزِ عمل موجود ہے۔اس لیے پہلے مرحلے میں ڈاکٹروں کو اپنی رابطہ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ جن کی بنیادی ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ تمام اداروں کے وزٹ کریں اور تحریک کی حمایت کے لیے رائے عامہ بنانے کی کوشش کریں۔
اپنے جائز حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے نوجوان ڈاکٹرز کو زر خرید میڈیا کے ذریعے ’’غیر ذمہ دار‘‘ اور ’’لالچی‘‘ قرار دینے والی پنجاب حکومت اور پاکستانی ریاست کو غریب عوام کی صحت کا کتنا خیال ہے وہ پاکستانی غریب عوام کی صحت کے اعشاریوں اور اس شعبے پر خرچ ہونے والے بجٹ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے شہریوں کی صحت پر کم ترین سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔پاکستانی ریاست اپنی کل آمدن کا 0.4فیصد صحت کی مد میں خرچ کرتی ہے۔معیار زندگی کا اندازہ لگانے کے لئے ایک اور اعشاریہ Human Development Indexہے جس میں پاکستان کل 185ممالک میں سے 145ویں نمبر پر آتا ہے۔ یعنی پاکستان کا شمار دنیا کے کم ترین معیارِ زندگی رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ اسی طرح قابل اعتماد ذرائع کے مطابق پاکستان کی 70فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور غذائی قلت کا شکار ہے جبکہ دو تہائی آبادی غیر صحت مند اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔غذائی قلت دراصل تمام تر بیماریوں کے لئے ایک دعوت کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ غذائی قلت کے شکار انسان کی قوت مدافعت (Immunity)رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔بد ترین سماجی و معاشی حالات اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے والے کم ترین بجٹ کا یہ امتزاج نا گزیر طور پر اپنا اظہار ایک مطلق اعشارے (Indicator)میں کرتا ہے جو کہ Life Expectencyہے جس میں پاکستان کا نمبر 137واں ہے۔ پاکستان سے کم تر Life Expectency رکھنے والے ممالک میں صرف جنگ زدہ اور ایڈز سے براہِ راست متاثرہ افریقی ممالک شامل ہیں۔World Health Organizationکے مطابق ایک صحتمند معاشرے کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ایک ملک اپنے ہر شہری پر صحت کی مد میں کم از کم 35ڈالر سے زائد خرچ کرے جبکہ پاکستانی ریاست سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس مد میں5 ڈالر خرچ کرتی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ رقم 1ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ان تمام حقائق کی روشنی میں نوجوان ڈاکٹرز کی کردار کشی میں مصروف حکومت، میڈیا اور اپنی سر درد تک کا علاج’’فایؤ سٹار‘‘ نجی ہسپتالوں سے کروانے والے کرائے کے دانشوروں اور ٹی وی اینکرز کا اصل چہرہ اور طبقاتی کردار کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ایک عام شہری کی صحت کا کوئی خیال نہیں ہے۔ اس ریاست کو چلانے والے بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کو اگر فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے غیر ملکی بینک اکاؤنٹس اور دولت میں اضافے کی۔ جبکہ عوام کے غم و غصے کا رخ تبدیل کرنے کے لئے یہ لوگ ڈیجیٹل میڈیا اور اخبارات کا سہارالیتے ہوئے اسی طبقے کو مجرم ثابت کرتے ہیں جو طبقاتی استحصال اور ظلم و ستم کا براہ راست شکار ہے۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے 1848ء میں لکھا تھا ’’سرمایہ دار طبقے نے ہر اس پیشے کی عظمت چھین لی جس کی اب تک عزت ہوتی آئی تھی اور جس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے ڈاکٹر، وکیل، مذہبی پیشوا، شاعر، اہل علم سب کو اپنا تنخواہ دار، اجرت پر کام کرنے والا مزدور بنا دیا ہے۔ بورژوا طبقے خاندانی رشتوں کی دلگداز جذبات پرستی کا نقاب چاک کر دیا ہے اور ان کو محض روپے آنے پائی کا رشتہ بنا کر رکھ دیاہے‘‘
ڈاکٹر کو بجا طور پر مسیحا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بیمار جسم کا علاج کرتے ہیں۔لیکن وہ کسی بھی بیماری کودرست انداز میں سمجھنے اور ان کے علاج کے لیے درکار ضروری عوامل کی غیر موجودگی میں مناسب تشخیص اور علاج نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ایک صحتمند معاشرے کے لیے یہ لازم ہے کہ ایک طرف تو آبادی کی اکثریت کے حالاتِ زندگی اور معیارِ زندگی کو اس سطح پر برقرار رکھا جائے کہ ان کی غذائی ضروریات سمیت تمام بنیادی انسانی لوازمات اور ماحول میسر ہو اور دوسری طرف ریاست ڈاکٹروں کو وہ ضروری انفراسٹرکچر اور حالات مہیا کرے جس میں وہ مکمل ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ بیماریوں کا علاج کر سکیں۔مگر ہماری نسل کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ جس سماج اور نظام (سرمایہ دارانہ)میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے جس کی وجہ سے ان حکمران طبقات اور ان کی پروردہ ریاست کواس مردار منافع خور نظام کو مزید مسلط رکھنے کے لیے جو معاشی اور سیاسی پالیسیاں لاگو کرنی پڑ رہی ہیں ان سے آبادی کی اکثریت کا معیارِ زندگی مسلسل گرتا چلا جا رہا ہے اور وہ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اگرچہ اب تو نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں بھی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو چکی ہے مگرخاص طور پر پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں یہ حقیقت مکمل طور پر عریاں ہے۔سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا تو درکنار اسے موجودہ کیفیت میں برقرار رکھنے کے لیے بھی جتنی مالیاتی استطاعت کی ضرورت ہے حکمرانوں کی نفع خوری اور نا اہلی انہیں اس کی بھی اجازت نہیں دے رہی۔یہی وجہ ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی میں تعلیم اور علاج کا حصول ایک سہانا خواب بن چکا ہے۔دوسری طرف سماج میں معتبر ترین حیثیت رکھنے والے ڈاکٹر بھی دوہری اذیت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ایک طرف تو نوجوان ڈاکٹروں سے غیر انسانی مشقت کروائی جاتی ہے اور کمترین معاوضے دیئے جاتے ہیں اور دوسری طرف ہسپتالوں کی حالتِ زار کی وجہ سے انہیں وہ سہولیات میسر ہی نہیں جن سے وہ مریضوں کا مناسب علاج اور دیکھ بھال کر سکیں۔قابلِ علاج بیماریوں سے روزانہ ہزراوں لوگ بے موت مارے جاتے ہیں۔آبادی کے تناسب سے ڈاکٹروں کی تعداد دنیا کی کم ترین سطح پر ہے۔ڈاکٹرجو سماج کی معتبر ترین پرت سمجھے جاتے تھے مگر اب بدقسمتی سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نظام کی پیچیدگیوں کو درست طور پر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہسپتالوں سے درست دادرسی نہ ملنے کی ذمہ داری ڈاکٹروں پر عائد کرتے رہتے ہیں۔درحقیقت نظام کے بحران نے اور سرمایہ دارانہ سماج کے طرزِ ارتقا نے ڈاکٹروں میں بھی طبقاتی خلیج کو خاصا وسیع کر دیا ہے۔مٹھی بھر سینئرڈاکٹروں کے حالاتِ زندگی اور مفادات سرمایہ داروں اور حکمران طبقات سے مطابقت رکھتے ہیں جبکہ باقی نوجوان ڈاکٹروں کی اکثریت کے خواب تو حکمران طبقات جیسے معیارِ زندگی کے ہو سکتے ہیں مگر امکانات اس کے بالکل برعکس ہیں۔اس پیشہ سے جتنے بھی منافع منسلک ہیں ان پر چند بڑے مگر مچھوں کی اجارہ داریوں نے قبضہ کیا ہو ا ہے جن کے دوا ساز کمپنیوں کے مالکان اور منڈی کے فرعونوں کے ساتھ مضبوط اور منظم روابط ہیں مگر دوسری طرف انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے عوامی نفرت اور غیض و غضب کا سامنا ان نوجوان ڈاکٹروں کو کرنا پڑتا ہے جو خود بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یوں ان ڈاکٹروں کو حالات اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں اور یہ نوجوان اس چیلنج سے گھبرائے نہیں بلکہ انہوں نے اسے پوری جراٗت سے قبول کر لیا ہے۔اور یہ اپنے پیشے کی عظمت کے حقیقی علمبردار بن کر سامنے آئے ہیں کیونکہ وہ انسانیت کے مسیحا ہیں اور یہ سارا انسانی سماج ہی ایک بیمار جسم کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس میں سرطان اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اب سرجری کے علاوہ اس کا کوئی علاج ممکن ہی نہیں اور اس لیے اگر یہ واقعی انسانیت کے مسیحا ہیں تو انہیں یہ سرجری کرنی ہو گی اور محنت کشوں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو سماجی جسم سے کاٹ کر پھینک دینا ہو گا جس کا نام ہے ’سرمایہ دارانہ نظام‘۔۔