| تحریر: ریحانہ اختر |
سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے باعث مسلسل معاشی اور سماجی بحران نے جہاں اس کرہ ارض پر رہنے والے 7 ارب سے زائد انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے وہیں خواتین پر جاری جنسی و گھریلو تشدداور سماجی نا برابری کو اذیت ناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ تاریخی طور پر زرعی انقلاب کے نتیجے میں پیداہونے والی زائد پیداوار نے سماج کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ اور اس زائد پیداوارکی حفاظت اور دیکھ بھال کے سوال نے سماجی رشتوں کی شکلیں بدلنا شروع کر دیں۔ عورت جو کہ اس سے پہلے مشترکہ سماجی سرگرمی کا حصہ تھی اب محض پیداورا کی حفاظت کے کام پر مامور کر دی گئی۔ دوسری طرف فطری طور پر بچوں کی پرورش کی ذمہ داری کے باعث سماجی حیثیت کے اعتبار سے عورت کو تاریخی طور پر پہلی اور بھاری شکست ہوئی۔ اس سے قبل رشتے ماں کی نسبت سے جانے اور پہچانے جاتے تھے، ملکیت کے آغاز اور ملکیت کی وراثتی منتقلی کی وجہ سے وہ رشتے باپ سے پہچانے جانے لگے۔ اور سماج مدر سری سے پدر شاہی میں بدل گیا۔ اس کے بعد سے اب تک کی ساری تاریخ اس شکست کی ہزیمت اور زخموں سے بھری پڑی ہے۔ سماجی حیثیت تبدیل ہونے کے باعث آہستہ آہستہ عورت کوایک جنس (Commodity) کے طور پرملکیت میں لے لیا گیا اور اس کو زر اور زمین کی طرح ملکیت میں رکھا اور کنٹرول کیا جانے لگا۔ تاریخی طور پر ماں کو غلام بنا دیا گیا اور جس معاشرے کی ماں غلام ہو وہ معاشرہ آزاد کیسے ہو سکتا ہے!
لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ’’اگرآپ کو کسی معاشرے کا جائزہ لینا ہو تو اس میں بسنے والی خواتین کی حالت زار کا جائزہ لیں‘‘۔ اگر آج ٹراٹسکی کے اس قول کے حوالے سے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو اذیتوں کی ایک داستان بنتی چلی جاتی ہے۔ نیم سرمایہ دارانہ اور نیم جاگیردارانہ ثقافتی اور اقتصادی رشتوں نے صورت حال کو مزید گھمبیرکر دیا ہے۔ محنت کش طبقے کی عورت کی زندگی آج پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ اوریہ استحصال بلا تخصیص و تفریق پوری دنیا میں مختلف صورتوں میں موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ انقلاب کے تحت وجود میں آنے والے معاشروں میں بھی عورت کو مکمل آزاد نہیں کیاجاسکا، تاہم ایسے معاشرے جن میں سرمایہ داری براہ راست کسی انقلاب کے ذریعے نہیں بلکہ بلاواسطہ سامراجی عزائم کے لیے مسلط کی گئی تھی وہاں سماج معاشی، اقتصادی اور اخلاقی طور پر خوفناک شکست و ریخت کا شکار ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو عورتوں کے حوالے سے دنیا کا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ مذہبیت اور ناخواندگی ملکر صورت حال کو اور زیادہ گھمبیر بناتے ہیں۔ کیونکہ ابھی تک پاکستان جیسے معاشرے میں عورت کی تعلیم کے حق کو پوری طرح تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ صرف 20 فیصد خواتین کی تعلیم تک رسائی ہے، جبکہ دیہاتوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ صرف 13 فیصدبچیاں سکول جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2015ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی سالانہ آمدن 6 گنا کم ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق صرف 19 فیصد لڑکیاں سیکنڈری کی تعلیم تک پہنچ پاتی ہیں اور جو بچیاں سیکنڈری تک بھی نہیں پہنچ پاتی ان کی تعداد اس کہیں زیادہ ہے اور دوسری طرف اسی 19 فیصد کی 24 فیصد خواتین محنت کی منڈی میں داخل ہو پاتی ہیں۔ پاکستان میں چند شعبوں میں سے تعلیم کا شعبے ایسا ہے جس میں خواتین کی ملازمت مردوں کی نسبت کچھ زیادہ ہے لیکن حالیہ نجکاری کے اقدامات کے ذریعے بیشتر سکولوں کو نجی ملکیت میں دے کرنہ صرف ملازمتوں سے برطرف کیا جا رہا ہے بلکہ آبادی کے بہت بڑے حصے کو تعلیم کے بنیادی حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
یہاں پر موجود زہریلی اور منافع خور ملائیت نے عورت کی حیثیت کو بطور انسان قبول ہی نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل عام میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت اس کی روک تھام میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ عورتوں کے حوالے سے قوانین بنانے کی ہر کوشش کو ملائیت نے ناکام بنا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے 2011ء میں پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے 720 واقعات رپورٹ کیے تھے جبکہ یہ تعداد 2012ء میں 960 تک جا پہنچی تھی۔ 2015ء سے اب تک 1000 کے قریب خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف سابقہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں پچھلے ایک سال میں 15000 کے قریب خواتین، لڑکیاں اور نومولود بچوں کو اغوا کیا گیا۔ اور نہ پورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ جو انصاف کی تلاش میں عدالتوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو 1990ء کے دیت اور قصاص آرڈیننس جیسے چور دروازوں سے نکل کر ظالم مجروح حال مظلوموں کا منہ چڑا تے ہیں۔ یہی اس نظامِ زر کی دین ہے، جس میں انصاف اور زندگی صرف انہی کے لیے ہے جو اس کو خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔
ایک بربریت ہے پھر بھی مکمل خاموشی ہے۔ تیزاب چھڑک کر آگ لگانے جیسے ہولناک واقعات بھی دو دن سے زیادہ میڈیا کی دلچسپی کا باعث نہیں رہتے۔ بہت سے واقعات کی تو میڈیا تک رسائی ہی نہیں ہو پاتی۔ حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
ایک طرف غیرت وعزت کے نام پر قتلِ عام ہے تو دوسری طرف اربوں روپے کی فیشن اور میڈیا کی معیشت میں عورت کو بطور جنس بیچا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں ان تکالیف کی کوئی شنوائی نہیں تو دوسری طرف نام نہاد انسان دوست تنظیمیں اور NGOs ہیں جو ان دکھوں، تکلیفوں کو بیچ کرنام بھی کمانے میں مصروف ہیں اور مال بھی۔ ہر عصمت دری کے واقعے میں، ہر بچی کے لٹنے میں ان درندہ صفت بے ضمیروں کو پیسے کی چندھیا دینے والی روشنی نظر آتی اور پھر یہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان مار کھائے ہوؤں کو لوٹنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
نہایت پسماندہ ثقافتی اور ابتر معاشی دباؤ عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی بیماریوں کی شرح سب سے زیادہ خواتین میں ہیں۔ ایک بیمار اور لاغر ماں بیمار اور لاغر معاشرہ بنارہی ہے جو کہ صرف اور صرف ایک مرتے ہوئے نظام کے مسلط رہنے کی وجہ سے ہے۔ عورت کی گھریلو محنت ایک ایسی محنت کی چوری ہے جس کا ذکر بھی کوئی نہیں کرتا، اور اگر اس کو شمار کیا جائے تو یہ انسانی محنت کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے مگر اس بے گار کو عورت کا فرض بنا کر پدری نظام میں محنت کش عورت کامحنت کش مرد کی نسبت دوہرا استحصال کیا گیا ہے۔
یہ نظام انسانوں کو ان کی مکمل ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں پر پھلنے پھولنے سے روکتا ہے اور ایک لاغر، نحیف اور بیمار زندگی انسانوں پر مسلط کرتا ہے۔ پیداواری قوتوں کو جب تک ذاتی ملکیت کی جکڑ سے آزاد کر کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں نہیں دیا جاتا اور سرمایہ دارانہ ریاست کی جگہ مزدور ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک محنت کش طبقے کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مسئلہ پھر طبقاتی بنیادوں پرہی حل ہو سکتا ہے۔ صرف عورتوں کی آزادی کی بات کریں تو پھر ہر عورت بھی غلام نہیں ہے۔ حکمران طبقے کی عورتیں محنت کش طبقے کے مردوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ عورت کی آزادی محنت کش طبقے کی آزادی سے کسی طور الگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشترکہ طبقاتی جڑت اور جدوجہد سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔