[تحریر: پال جان]
کمپنی کی ملازمت ہو یا ٹھیکیداری نظام، محنت کشوں کا استحصال دونوں صورتوں میں ہی ہوتا ہے۔ ٹیکسٹائل اور ہوزری کی انڈسٹری کے کئی حصوں کو ذولفقار علی بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں محنت کشوں کے دباؤ کے تحت قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا۔ اس دور میں محنت کشوں نے بہت سی مراعات، مثلاً میڈیکل بونس، ٹرانسپورٹ اور کینٹین میں مفت یا سستا کھاناوغیرہ، اپنی جدوجہد کے ذریعے جیتی تھیں۔ ان مراعات کی باقیات آج بھی کئی فیکٹریوں میں موجود ہیں اور مالکان محنت کشوں کے رد عمل کے خوف سے انہیں چھیننے سے قاصر ہیں۔ تاہم تمام کمپنیاں یہ سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ بہت سی فیکٹریاں ٹرانسپورٹ کی سہولت اس لیے فراہم کرتی ہیں کہ مزدور وقت پر فیکٹری تک پہنچ سکیں اور زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ ملازمت دیتے وقت ایسے محنت کشوں کو ترجیح دی جاتی ہے جو قریبی علاقوں میں رہ رہے ہوں۔ جن کمپنیوں میں مفت کھانے کی سہولت دستیاب ہے وہاں محنت کشوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ انہیں خیرات دی جارہی ہے اور یہ ان کا حق نہیں ہے۔
آج اکثریتی فیکٹریوں اور اداروں میں مکمل طور پر ٹھیکیداری نظام رائج کر دیا گیا ہے۔ اگر کسی کمپنی کے دس ڈیپارٹمنٹ ہیں تو ان کو چلانے والے بیک وقت انچارج (گلڈ ماسٹر) بھی ہیں اور ٹھیکیدار بھی۔ بڑے ٹھیکیداروں نے مزید چھوٹے ٹھیکیدار رکھے ہوئے ہیں اور پھر چھوٹے ٹھیکداروں نے آگے اپنے پارٹنرز بنائے ہوئے ہیں۔ بعض کمپنیوں میں تو ڈیپارٹمنٹس بھی متعلقہ ٹھیکیداروں کے نام سے منسوب ہوتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ کا انچارج اپنے ہر عمل میں آزاد ہے سوائے مالک کو پیداوار کا حساب کتاب دینے کے۔ سیاسی جمود اور نیم رجعتی عہد میں محنت کش طبقے کا شعور بھی گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ٹھیکیدار محنت کشوں کے بدترین استحصال کے ذریعے کافی مالدار بن چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق فسطائی سیاسی پارٹیوں سے ہے۔ لہٰذا سیاسی اثرورسوخ اور مالیاتی دبدبے کی وجہ سے محنت کشوں کے دماغ پر ٹھیکیدار کا رعب مسلسل طاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مزدوروں کو نسلی، قومی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے ذریعے مسلسل تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
کمپنی اپنے پاس صرف دفتری عملہ، کوالٹی چیکرز اور لوڈرز رکھتی ہے۔ باقی تمام مزدور جو پیداواری عمل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، مکمل طور پر ٹھیکیداری نظام کے تحت دے دیے جاتے ہیں۔ جبری مشقت بھی اس نظام کا نتیجہ ہے۔ ٹھیکیداری نظام میں تنخواہ اور محنت کا وقت مقرر نہیں ہوتا۔ مزدوروں کو کہا جاتا ہے کہ جتنا کام کرو گے اتنے پیسے ملیں گے۔ یوں وہ زیادہ اجرت کمانے کے لئے سر پر کفن باندھ کر جت جاتے ہیں۔ نائٹ شفٹس میں بھی کام لیا جاتا ہے۔ چوبیس گھنٹے شفٹوں میں تیز ترین کام کی وجہ سے بعض اوقات پیداوار کا ہدف مقررہ معیاد سے پہلے ہی پورا ہوجاتا ہے۔ ہفتے کے چوتھے دن پتہ چلتا ہے ٹارگٹ پورا ہوگیا ہے لہٰذا مزید کام نہ ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کو کوئی اجرت نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مزدوروں کی کوئی رجسٹریشن یا ملازمت کا قانونی ریکارڈ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مالکان کو سیفٹی الاؤنس اور سوشل سیکیورٹی وغیرہ کی مد میں بھی کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔
ایک ٹھیکیدار کے پاس مزدوروں کی پوری ٹیم ہوتی ہے۔ اس کے پاس محنت کشوں کے فون نمبراور گھروں کے پتے بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت میں اگر ٹھیکیداری نظام نہ ہو تو بہت سے بیروزگاروں کے لیے جگہ بن سکتی ہے۔ شرح منافع میں اضافے کے لئے کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ اس طرز پیداوار سے محنت کشوں میں مقابلہ بازی کی نفسیات جنم لیتی ہے جس سے مزدوروں کے آپسی تعلقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے سے اجناس کا معیار بھی گرتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تقاضا کہ مال سستا ہو اور اچھا ہو۔ جہاں دھڑا دھڑ پیداوار ہو رہی ہواس سے مصنوعات کی تیاری میں کافی خامیاں رہ جاتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی کے تقاضوں کے مطابق، مقدار میں سے معیار صرف چھانٹی کرکے ہی نکالا جاتا ہے۔ A ،B اور C کی کیٹیگری بنائی جاتی ہے۔ A والا مال بیرونِ ملک جاتا ہے، باقی مال ملکی منڈی میں بیچا جاتا ہے۔
بالائی درجے کے کچھ کاریگر بڑے ٹھیکیداروں کو مال بناتا دیکھ کر خودد بھی مقدر آزمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑی سرمایہ کاری کرنے والے یہ نومولود ٹھیکیدار اکثر خسارہ اٹھاتے ہیںیا پھر ورکروں کی تنخواہیں لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ کمپنیاں اس لیے ٹھیکیداری نظام کو ترجیح دیتی ہیں کہ اول تو مالکان کو محنت کشوں کے مطالبات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ دوم یہ کہ کمپنی کو خود سستے مزدور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہتی اور انہیں آسانی سے مزدور دستیاب آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریڈ یونین بننے کے خطرے سے بھی مالکان محفوظ رہتے ہیں۔ مالکان کی شرح منافع کئی فیصدبڑھ جاتی ہے جس کا کچھ حصہ وہ ٹھیکیداروں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔
مستقل اور باعزت روزگار کوئی مراعت نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس نظام نے ٹھیکیداری اور دہاڑی دار مزدوری کے ذریعے یہ حق محنت کشوں کی وسیع اکثریت سے چھین لیا ہے۔ ٹھیکیداری کے تحت کام کرنے والے محنت کشوں کے سروں پر ہمیشہ بیروزگاری کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ مہنگائی اور افراط زر سے مطابقت رکھنے والی اجرت اور مستقل روزگار کے لئے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ محنت کش طبقہ ایک باعزت اور آسودہ زندگی ایسے سماج میں ہی گزار سکتا ہے جہاں ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں اور انہیں پورا معاشرہ جمہوری منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کرے۔ ایسے انسانی معاشرے کی تعمیر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے!