فیصل آباد: داؤد ٹیکسٹائل میں مزدوروں کی ہلاکت

[رپورٹ : PTUDC فیصل آباد]
لینن نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ داری نہ ختم ہونے والی وحشت ہے۔‘‘ آج عالمی اور ملکی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے معاشی زوال نے اس وحشت اور بربریت کو شدید کردیا ہے۔ جنگیں ، دہشت گردی ، بیروزگاری ، مہنگائی ، قدرتی آفات یا عام حادثات ہوں، ان کا شکار غریب اور مزدور ہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں تاخیر زدہ سرمایہ داری ترقی یافتہ ممالک کی نسبت زیادہ خونخوار اور استحصالی ہے۔ اس ملک کے ٹیکس اور بجلی چور سرمایہ دار اپنے منافعوں کی شرح بڑھانے کے لئے پرانی سیکنڈ ہینڈ مشینری پر کم سے کم اجرت پر تھوڑے مزدوروں سے ان کی جسمانی استطاعت سے زیادہ کام لیتے ہیں جس سے حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ 2012ء میں کراچی کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں 300 سے زائد مزدوروں کے زندہ جسم آگ میں جل کر راکھ ہوگئے لیکن یہاں کی سرمایہ پرست جمہوری سرکار نے بڑی بے حسی اور بے غیرتی سے اس درد ناک واقعے کو نظر انداز کر دیا ہے۔
داؤد ٹیکسٹائل فیصل آباد میں مزدوروں کے خون پسینے سے پیدا ہونے والا اربوں روپے کا کپڑا بر آمد کیا جاتا ہے لیکن ٹیکنیکل اور ضروری سٹاف کی جگہ خالی ہے۔ بوائیلر اور دوسری مشینری پر غیر ہنر مند مزدوروں سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ فیکٹری مالکان کی ہوس اور دانستہ کوتاہی 26 دسمبر 2013 کی رات 11 بجے ایک خوفناک حادثے کی شکل اختیار کر گئی جب درجہ حرارت کے بڑھنے سے بوائیلر پھٹ گیا اور انسانی جلد اور گوشت کو جلا دینے والے آئل نے آٹھ مزدوروں کی جان لے لی جبکہ 15 مزدوروں کے چہرے، بازو اور جسم کے باقی حصے جھلس گئے۔ ایک قیامت کا سماں تھا۔ زخمی مزدوروں کو سرکاری الائیڈ ہسپتال لایا گیا جہاں دو مزدور نازک حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن انھیں کسی بہتر برننگ سنٹر منتقل نہیں کیا گیا۔
ہلاک ہونے والے مزدوروں کی قیمت قاتل مالک نے دو لاکھ روپے فی کس لگائی ہے۔ پولیس نے میڈیا اور مزدوریونینز کا منہ بند رکھنے کے لئے جنرل مینجر پر ایف آئی آر درج کی ہے۔ PTUDC کے کا مریڈز مزدوروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فیکٹری فی الوقت بند ہے لیکن اس کے کھلتے مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے اتنظامیہ پر دباؤ ڈالنے اور ہلاک ہونے والے محنت کشوں کے خاندانوں کو انصاف دلانے اور مناسب معاوضے کی ادائیگی کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔